آپ کی ناک کا میل آپ کی صحت کے بارے میں کیا بتاتا ہے اور یہ بیماریوں سے لڑنے میں کیسے مددگار ثابت ہوتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 16, 2025

کہا جاتا ہے کہ ناک سے نکلنے والا میل یا مواد (سنوٹ) بیماریوں سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کا رنگ اس بات کا اشارہ دے سکتا ہے کہ ہمارے جسم میں کیا چل رہا ہے۔

قدیم یونان میں سمجھا جاتا تھا کہ ناک کا میل اُن چار جسمانی رطوبتوں میں سے ایک ہے جو انسانی صحت اور مزاج کو متوازن رکھنے کی ذمہ دار ہیں۔

صحت سے متعلق فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ فالو کرنے کے لیے کلک کیجیے۔

معروف فلسفی اور طبیب بقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ بلغم، خون، صفرا اور سودا انسانی جسم سے خارج ہونے والی چار ’مزاج سے متعلق رطوبتیں‘ ہیں۔ ان رطوبتوں میں توازن یا عدم توازن انسان کے مزاج اور صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، بلغم دماغ اور پھیپھڑوں میں بنتا ہے اور سرد و مرطوب موسم میں یہ ضرورت سے زیادہ بن سکتا ہے، اور جسم میں اس کی زیادتی مرگی جیسی بیماری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ جس فرد کی شخصیت ’بلغمی مزاج‘ کی حامل ہو، یعنی زیادہ بلغم بنتا ہو، وہ ایسا شخص قدرے الگ تھلگ رہنے والا مزاج رکھتا ہے۔

تاہم اب ہم جانتے ہیں کہ ناک کا میل نہ تو انسان کی شخصیت پر اثر ڈالتا ہے اور نہ ہی یہ بیماریوں کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ بہت سی بیماریوں سے ہماری حفاظت کرنے میں مدد کرتا ہے۔

اگرچہ ناک بہنے یا چھینک کے ساتھ یہ میل کسی بھی شخص کی ناک سے نکل کر فضا میں بکھرنا کسی کو اچھا نہیں لگتا، مگر ناک کی جھلی میں موجود یہ لیس دار مواد انسانی جسم کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ یہ ہمیں بیرونی حملہ آور جرثوموں سے بچاتا ہے اور اس کی خاص ساخت ہمیں جسم کے اندر کی حالتوں کے بارے میں اہم معلومات دے سکتی ہے۔

اب سائنس دان اس پر کام کر رہے ہیں کہ ناک کے میل کی مدد سے کووڈ-19 سے لے کر پھیپھڑوں کی دائمی بیماریوں تک کی بہتر تشخیص اور علاج ممکن بنایا جا سکے۔

یہ گاڑھا مادہ ناک کی اندرونی جھلی کی حفاظت کرتا ہے، اسے نم رکھتا ہے، اور ہوا کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والے بیکٹیریا، وائرس، پولن، دھول، مٹی اور آلودگی کو روکتا ہے۔ ناک کے اندر موجود سینکڑوں ننھے بالوں کی مدد سے یہ مواد ہمارے جسم کے اندرونی حصوں اور بیرونی دنیا کے درمیان ایک حفاظتی دیوار کے طور پر کام کرتا ہے۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں نظامِ تنفس کی بیماریوں اور ویکسین کی ماہر پروفیسر ڈینیئلا فیریرا کے مطابق بالغ انسان کا جسم روزانہ 100 ملی لیٹر سے زیادہ سنوٹ (ناک کا میل) پیدا کرتا ہے، لیکن بچوں میں یہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کے جسم پہلی بار مختلف بیرونی ذرات اور جرثوموں کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم ناک کے میل کے رنگ اور ساخت کو دیکھ کر ہی بہت کچھ جان سکتے ہیں، گویا یہ ایک بصری تھرمامیٹر جیسا ہے۔ اگر ناک سے پانی جیسی صاف رطوبت نکل رہی ہو تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جسم کسی چیز کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے، جیسے پولن یا دھول۔

اگر یہ میل سفید رنگت کا ہے تو ممکن ہے کہ کوئی وائرس جسم میں داخل ہو چکا ہے۔ سفید رنگ دراصل اُن سفید خون کے خلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو بیرونی حملہ آوروں سے لڑنے کے لیے متحرک ہوئے ہوتے ہیں۔ جب ناک کا میل گاڑھی اور سبز مائل پیلی رنگت کا ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ بڑی تعداد میں جمع ہونے والے سفید خلیے مر کر خارج ہو رہے ہیں۔ اگر ناک کا میل سرخی مائل یا گلابی ہو تو اس میں خون شامل ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ آپ نے بار بار ناک صاف کی ہو جس کی وجہ سے ناک کے اندر کی جلد زخمی ہو گئی ہو۔

مگر ناک کی میل کو دیکھنا صرف ہمارا پہلا قدم ہے۔

سنوٹ کا مائیکرو بائیوم

جیسے آنتوں میں ایک ’مائیکرو بائیوم‘ یعنی بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور دیگر ننھے جانداروں کا ایک پورا نظام ہوتا ہے ویسے ہی سائنسدان اب مانتے ہیں کہ ناک کے میل میں بھی ایسا ہی نظام موجود ہے، جو انسانی صحت اور مدافعتی نظام کے درست کام کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اگرچہ بقراط کا نظریہ آج کے لحاظ سے مکمل درست نہیں مگر پروفیسر فیریرا کہتی ہیں کہ یہ بات تکنیکی طور پر سچ ہے کہ ناک کا میل بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ یہ میل ہماری ناک کے لیے ایک حفاظتی دیوار ضرور ہے، مگر جب ناک بہنے لگے تو یہ بیکٹیریا اور وائرس کو پھیلانے میں مددگار بن جاتی ہے۔ ہم چہرہ صاف کرتے ہیں، چیزوں کو چھوتے ہیں، چھینکتے ہیں اور یوں انجانے میں یہ میل اردگرد پھیلا دیتے ہیں۔ جب ہم کسی تنفسی بیماری کا شکار ہوں تو یہ میل ان جراثیم کا ذریعہ بن جاتی ہے جو جسم کے اندر پھیلتے اور دوسروں تک پہنچتے ہیں۔ یعنی ہم دوسروں کو بیمار کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

ہر شخص کی ناک کی میل کا مائیکرو بائیوم منفرد ہوتا ہے اور یہ جنس، عمر، مقام، خوراک، حتیٰ کہ ویپنگ کرنے یا نہ کرنے سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس مائیکرو بائیوم کی ساخت ہی جراثیم سے بچاؤ میں مدد دیتی ہے، اور ان کے درمیان تعلقات بعض اوقات نہایت نازک ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر سنہ 2024 کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ ’سٹیفائیلوکوکس‘ جیسے نقصان دہ بیکٹیریا کے ناک میں زندہ رہنے یا نہ رہنے اور بیماری پیدا کرنے یا نہ کرنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ میل کا مائیکرو بائیوم فولاد (آئرن) کے ساتھ کیا رویہ روا رکھتا ہے۔

پروفیسر فیریرا اس بات پر تحقیق کر رہی ہیں کہ ایک صحت مند سنوٹ مائیکرو بائیوم کیسا ہونا چاہیے۔ئیوٹکس دیے جاتے ہیں۔

پروفیسر فیریرا کہتی ہیں: ’سوچیں اگر ہم اپنی ناک میں اچھے بیکٹیریا ڈال سکیں جو وہاں رہ سکیں، کالونی بنا لیں، اور بُرے جراثیم کو اندر آنے سے روک دیں تو ہم بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔‘

’مثالی ناک کے مائیکرو بائیوم‘

فیریرا اور ان کی ٹیم نے ایسے بیکٹیریا کی فہرست تیار کر لی ہے جنھیں وہ ایک ’مثالی ناک کے مائیکرو بائیوم‘ کے طور پر دیکھتے ہیں اور اب وہ ان پر تجربے کر رہے ہیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ یہ بیکٹیریا انسانوں کی سانس کی نالی میں خود کو قائم رکھ سکتے ہیں یا نہیں اور کیا واقعی یہ انسانی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

فیریرا کا کہنا ہے کہ چونکہ ناک کے میل کا مائیکرو بائیوم مدافعتی نظام سے گہرا تعلق رکھتا ہے، اس لیے ہم اس کا مطالعہ کر رہے ہیں تاکہ مدافعتی نظام کو بہتر بنانے اور یہاں تک کہ ویکسینز کے لیے اس کی قبولیت بڑھانے کے طریقوں کو بہتر کیا جا سکے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ویکسین کے لیے جسم کا ردعمل اس بات سے متاثر ہوتا ہے کہ انسان کے پاس کس قسم کا مائیکرو بائیوم موجود ہے۔ مثال کے طور پر، کوویڈ-19 ویکسین پر کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے ناک کے مائیکرو بائیوم کو متاثر کیا، اور بدلے میں، مائیکرو بائیوم نے ویکسین کی تاثیر کو متاثر کیا۔

فیریرا کا کہنا ہے کہ ’کووڈ-19 ویکسینز ہمیں بیمار ہونے سے روکنے میں بہت مؤثر تھیں، لیکن ہم وائرس پھیلاتے رہے۔ ہم درحقیقت بہت بہتر ویکسینز تیار کر سکتے ہیں تاکہ اگلی نسل کے لوگ بیمار ہی نہ ہوں، خواہ وہ کووڈ-19 ہو، فلو ہو یا کوئی اور سانس کے وائرس اور یہ سب سنوٹ کے اس مدافعتی نظام میں پوشیدہ ہے۔‘

ناک کے ذریعے سانس لینے کی ’سُپر پاور‘ جو آپ کی روزمرہ زندگی کو بدل سکتی ہےویکسین کی غیر موجودگی میں ایچ ایم پی وی وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن اور یہ کورونا وائرس سے کتنا مختلف ہے؟نزلہ زکام سے لڑنے میں مددگار ’زنک‘ کیا ہے اور آپ کے جسم کو اس کی ضرورت کیوں ہے؟میڈیکلائزڈ ایف جی ایم: ’12 سال کی عمر میں میرے جنسی اعضا کاٹ دیے گئے، یہ ایک جشن تھا‘

اگرچہ فیرییرا کا کام ناک کے بہترین مائیکرو بائیوم کی صحیح ترکیب تلاش کرنا ہے اور اس میں شاید کچھ سال لگ جائیںگے لیکن سویڈن میں سائنسدانوں نے اس ضمن میں پہلے ہی ایک قدم آگے بڑھا لیا ہے۔ وہاں صحت مند لوگوں کے ناک کے میل کو ان مریضوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جو دائمی ناک بند ہونے اور ہیے فیور (بخار) جیسی علامات کا شکار ہیں۔‘

محققین نے 22 بالغ افراد پر اس کا تجربہ کیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ پانچ دنوں تک روزانہ اپنے صحت مند دوستوں اور ساتھیوں کے ناک کے میل سے بھری سرنج اپنی ناک میں ڈالیں۔ انھوں نے دریافت کیا کہ کم از کم 16 مریضوں میں کھانسی اور چہرے کے درد جیسی علامات تقریباً 40 فیصد تک تین ماہ کے لیے کم ہو گئیں۔

اس مطالعے کی قیادت کرنے والے سویڈن کے ہیلزنگ برگ ہسپتال کے ایک سینیئر کنسلٹنٹ اینڈرز مارٹنسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمارے لیے بہت اچھی خبر تھی، اور کسی نے بھی کسی نوعیت کے منفی اثرات کی اطلاع نہیں دی۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ یہ ٹرائلز آنتوں کے مائیکرو بائیوم پر کی گئی دیگر لیبارٹریز کی تحقیق سے متاثر تھے، جہاں فضلے کی منتقلی کی جاتی ہے۔‘

جینیفر مللگن کا کہنا ہے ناک کا میل پرسنلائزڈ میڈسن کا مستقبل ہے۔ میں پورے دل سے اس پر یقین رکھتی ہوں۔‘

تاہم، اس پہلے پائلٹ پروگرام میں ان لوگوں کے ناک کے مائیکرو بائیوم میں کیا تبدیلیاں آئیں اور ان کی ناک میں موجود مخصوص بیکٹیریا کا کیا ہوا، کیا وہ بڑھے یا گھٹے یا ان کے ساتھ کچھ اور ہوا اس بارے میں زیادہ ڈیٹا نہیں ہے۔ اس لیے اب ایک اور بڑا اور زیادہ درست ٹرائل جاری ہے۔

درحقیقت سنوٹ ناک کی دائمی اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے خلاف ایک بہترین رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔

فلوریڈا یونیورسٹی سے منسلک اور کان، ناک اور گلے کے امراض کی ماہر جینیفر مللگن نے اس میل کا استعمال کرتے ہوئے دائمی رائنوسائنوسائٹس اور ناک کے پولیپس (ایسی حالت جو دنیا کی 5 سے 12 فیصد آبادی کو متاثر کرتی ہے) کے مریضوں کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ اپنے کیرئیر کے ابتدائی سالوں میں انھیں رائنوسائنوسائٹس کے مریضوں سے ناک کے ٹشو سرجیکل طریقے سے نکالنا پڑتے تھے، لیکن یہ طریقہ تکلیف دہ اور محدود تھا۔

اب، ان کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ناک کا میل اس بات کا ایک درست اشارہ ہو سکتا ہے کہ جب کوئی رائنوسائنوسائٹس کا شکار ہوتا ہے تو جسم کے اندر کیا ہو رہا ہوتا ہے۔ جینیفر مللگن نے کہا: ’ہم اسے یہ جاننے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ آخر اس بیماری کے پیچھے اصل مجرم کون ہے؟‘ انھوں نے مزید کہا کہ ہر مریض میں رائنوسائنوسائٹس کی وجوہات قدرے مختلف ہو سکتی ہیں۔

پہلے علاج زیادہ تر ٹرائل اینڈ ایرر یعنی آزمائش اور غلطی پر مبنی ہوتا تھا اور ہر مریض کے لیے مختلف ہوتا تھا، اور کبھی کبھی مہینوں تک جاری رہنے والے علاج پر ہزاروں ڈالر خرچ ہوتے تھے۔ لیکن مللگن کا کہنا ہے کہ اب ناک کی میل کا تجزیہ تیزی سے صحیح علاج یا سرجری کی نشاندہی کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

جینیفر مللگن کی تکنیک پر دنیا بھر میں کئی کلینکل ٹرائل جاری ہیں۔ نئی صحت ٹیک کمپنیاں، جیسا کہ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے انجینیئرز کی جانب سے شروع کی گئی ڈائیگ-نوز، یعنی ناک کے بلغم یا سنوٹ کا تجزیہ کرنے والے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی سسٹمز تیار کر رہی ہیں اور ناک کے مائیکرو سیمپلنگ کے آلات کو پیٹنٹ کروا رہی ہیں۔

سنہ 2025 میں انھوں نے ایف ڈی اے سے منظور شدہ پہلا ناک کا مائیکرو سیمپلنگ ڈیوائس لانچ کیا۔ یہ ایک ایسا سیمپلنگ آلہ ہے جو ناک کے سیال کی صحیح مقدار جمع کرتا ہے تاکہ سیمپلنگ کے طریقوں کو معیاری بنا کر تحقیق میں تغیر کو کم کیا جا سکے۔'

سونگھنے کی حس کی بحالی کیا ممکن ہے؟

جینیفر مللگن کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اتنا کچھ سیکھا ہے جو ہم صرف ٹشو بائیوپسیز سے کبھی نہیں سیکھ سکتے تھے۔ اس نے ہمارے علم کو بیماری کے بارے میں مکمل طور پر بدل دیا ہے، اور یہ مستقبل میں مریضوں کی تشخیص اور علاج کے طریقوں کو بھی بدل دے گا۔‘

مللگن اسی سنوٹ کے ٹولز کو یہ مطالعہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں کہ لوگوں کی سونگھنے کی حس کیوں ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ٹیم نے پہلے ہی دریافت کر لیا ہے کہ وٹامن-ڈی کا نوز سپرے ان لوگوں میں سونگھنے کی حس بحال کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے جنھوں نے تمباکو نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سوزش کی وجہ سے یہ حس کھو دی ہے۔

اس کے علاوہ مللگن کا کہنا ہے کہ جو کچھ پھیپھڑوں میں ہوتا ہے وہی ناک میں بھی ہوتا ہے اور اس کا برعکس یعنی جو کچھ ناک میں ہوتا ہے وہی پھیپھڑوں میں بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ ڈائگنوسٹک ٹولز تشخیصی آلے اور علاج پھیپھڑوں کی بیماریوں کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صرف مریض کے ناک کے میل میں آئی ایل-26 پروٹین کی مقدار کا تجزیہ کر کے ڈاکٹر یہ بتا سکتے ہیں کہ کوئی شخص دائمی پلمونری رکاوٹ کی بیماری (تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی عام بیماری، اور دنیا میں اموات کی چوتھی سب سے بڑی وجہ) کے لیے کتنا حساس ہے۔ میل کے تجزیے سے مریضوں کی جلد تشخیص اور فوری علاج ممکن ہو سکتا ہے۔

اسی طرح دنیا بھر کی تحقیقی ٹیمیں سنوٹ یعنی ناک کے میل کے ذریعے دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر، الزائمر اور پارکنسن جیسی بیماریوں کی تشخیص کے لیے اسی قسم کے ٹولز اور طریقے تیار کر رہی ہیں۔ سنوٹ سے تابکاری کے اثرات کی پیمائش بھی کی جا سکتی ہے، اور کئی حالیہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لیس دار سیال ہوا میں موجود بھاری دھاتوں اور ذرات جیسے آلودگی کے اثرات کی بھی درست نشاندہی کر سکتا ہے۔

مللیگن کا کہنا ہے کہ ’سنوٹ ذاتی طب (پرسنلائزڈ میڈیسن) کا مستقبل ہے۔ میں پورے وثوق سے یہ بات کہتی ہوں۔‘

ناک کے ذریعے سانس لینے کی ’سُپر پاور‘ جو آپ کی روزمرہ زندگی کو بدل سکتی ہےنزلہ زکام سے لڑنے میں مددگار ’زنک‘ کیا ہے اور آپ کے جسم کو اس کی ضرورت کیوں ہے؟اگر آپ کے جسمانی اعضا غلط جگہ پر ہوں تو کیا یہ خطرے کی بات ہے؟گھر کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والی کیمیکل مصنوعات سے صحت کو کیا خطرات ہیں؟اے آئی تھیراپسٹ: ’جب آپ کو کوئی مدد دستیاب نہ ہو تو انسان تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More