اپنا خون بیچ کر ماڈل کو پیسے دیے۔۔ پہلا گانا کس حال میں گایا؟ رحیم شاہ نے غربت سے لے کر کامیابی کی داستان سنا دی

ہماری ویب  |  Jul 23, 2025

"خون بیچ کر گانا شوٹ کرایا تھا، ماڈل کو پیسے دینا تھے"

"شروع میں میرے پاس بس کا کرایہ بھی نہیں ہوتا تھا، ماڈل کو پیسے کہاں سے دیتا؟ پھر میں نے خون بیچا، اور اس سے ملے پیسوں سے ماڈل کو ادا کیا۔ وہ بغیر پیسے کے کام کرنے کو تیار نہیں تھی، کہتی تھی یہ نوابوں کا شوق ہے، غریبوں کا نہیں۔ خون دے کر آیا تو جسم کمزور ہو چکا تھا، پانی پیا لیکن ڈاکٹر نے منع کر دیا، کہا فروٹ کھاؤ۔ جب جانے لگا تو ڈاکٹر نے سیب دیا، کہا میرے سامنے کھاؤ، اور میں نے کھا لیا۔ جنہوں نے ساتھ دیا، وہ آج بھی دل میں زندہ ہیں۔ جنہوں نے منہ موڑا، ان کی یاد بھی کہیں محفوظ ہے۔"

یہ اعترافات ہیں پاکستان کے معروف گلوکار رحیم شاہ کے، جنہوں نے ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اپنی ابتدائی جدوجہد، قربانیوں اور شہرت کے پیچھے چھپے دردناک لمحوں کو لفظوں میں ڈھالا۔ ان کی سادگی، صداقت اور کامیابی کی تشنہ کہانی، سننے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

"صرف کیسٹ پر تصویر لگوانی تھی تاکہ باہر کا ویزا مل جائے"

رحیم شاہ نے بتایا کہ موسیقی کی دنیا میں وہ محض قسمت آزمانے نہیں، بلکہ ایک خواب کو حقیقت میں بدلنے کی نیت سے آئے تھے۔ "مجھے تو صرف یہ لگتا تھا کہ اگر میری کوئی کیسٹ بن جائے جس پر تصویر لگی ہو تو میں غیر ملکی ویزا لے کر باہر چلا جاؤں اور پھر کبھی نہ پلٹوں" لیکن قسمت نے کچھ اور ہی لکھا تھا۔

آج وہ خود کہتے ہیں کہ دو مہینوں میں چار بار بیرونِ ملک کا سفر کرچکے ہیں. ایک وہ وقت تھا جب بس کا کرایہ نہیں تھا، اور ایک یہ وقت ہے کہ عالمی اسٹیجز پر ان کے نغمے گونجتے ہیں۔

گانے کی کہانی: "پہلے تو کبھی کبھی غم تھا"

ان کے مشہور زمانہ گانے "پہلے تو کبھی کبھی غم تھا" کے پیچھے چھپی کہانی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ "میرے گھر کے سامنے ایک عمارت بن رہی تھی، اس پر ایک قرآنی آیت لکھی تھی اور نیچے بجری پڑی تھی۔ میں ایک مین ہول پر بیٹھا تھا جہاں ایک پرانے فوک پر یہ الفاظ لکھے تھے۔ بس وہیں سے خیال آیا اور باقی گانا انور رضوی نے مکمل کیا۔"

یہ گانا جیسے ہی ریلیز ہوا، ہر زبان پر چھا گیا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ جب یہ گانا کوچ میں بیٹھ کر سنتے تھے اور برابر بیٹھا شخص کہتا، "کیا زبردست گانا ہے"، اور جب وہ بتاتے کہ "یہ میں نے گایا ہے"، تو سامنے والا مذاق سمجھتا۔

"ہر گلی، ہر نکڑ پر میرا گانا بج رہا تھا"

وہ لمحہ ان کے لیے خواب جیسا تھا، جب وہ کالابورڈ، ملیر اور شہر کی ہر سڑک پر اپنے ہی گانے کی بازگشت سن رہے تھے۔ اللہ مولا اور دیگر گیت بھی سپرہٹ ہوئے، اس وقت جب شازیہ منظور، عدنان سمیع اور میرا جیسے بڑے نام میوزک چارٹس پر چھائے ہوئے تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More