کام کی جگہ پر ہراسانی کے موضوع پر مبنی ڈرامہ ’گونج‘

اردو نیوز  |  Jul 29, 2025

’بابا! آپ نے ہمیں بہت سٹرانگ بنایا، قدم قدم پر ہمارا ساتھ، مجھے لگتا تھا کہ باہر کی دنیا میں بھی آپ جیسے لوگ ہیں مگر ایسا نہیں ہے، بہت گندی ہے دنیا۔ لیکن میں آخری دم تک لڑی ہوں لیکن اب میری بس ہو گئی ہے۔ میں یہ بدنامی نہیں سہہ سکتی، یہ کریکٹر لیس ہونے کا داغ نہیں سہہ سکتی۔‘

یہ ہے ڈرامہ ’گونج‘ کا پہلا سین جس میں زرناب (کومل میر) روتے ہوئے اپنے والد کے نام ویڈیو پیغام ریکارڈ کر رہی ہے۔

اس ویڈیو پیغام کو ریکارڈ کرنے کے بعد کیا ہوا، ابھی تو یہ تجسّس برقرار رکھا گیا ہے لیکن اس ویڈیو کے پیچھے کہانی کیا ہے یہ بتانے کے لیے چھ ماہ پہلے جو کچھ ہوا وہ ان اقساط میں دکھایا جا رہا ہے۔

زرناب محمود ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ملازمت کرتی ہیں جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے ادارے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں لیکن اُن کی کامیابی ان کے کچھ میل کولیگز کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔

ایک سین میں جب زرناب کے میل کولیگ نبیل (گوہر رشید) اپنی پریزینٹیشن میں ایک کوکنگ آئل کے کمرشل کا آئیڈیا دے رہے ہوتے ہیں تو زرناب اعتراض اُٹھاتی ہیں کہ اس میں خاتون کو آبجیکٹیفائی کیا جا رہا ہے۔

اور وہ اس کمرشل کے لیے بڑا ہی منفرد آئیڈیا پیش کرتی ہیں جو کچھ یوں ہوتا ہے کہ شوہر کھانا بنانے میں اپنی بیگم کا ہاتھ بٹاتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہاری طرح اچھا کھانا تو نہیں بنا سکتا لیکن اچھا کھانا بنانے میں تمہاری مدد تو کر سکتا ہوں۔

بس اُسی وقت نبیل کا آئیڈیا ہو جاتا ہے ریجیکٹ اور زرناب کو مل جاتی ہے اس کمرشل کی ڈائریکشن کا چارج۔

اور یہیں سے ہوتا ہے نبیل کے زرناب سے حسد اور اِن سکیورٹی کا آغاز۔

وہ اُٹھتے بیٹھتے کچھ اس قسم کی باتیں انہیں سنانے لگتے ہیں کہ ’بس بھئی، آپ کا لڑکی ہونا ضروری ہے پھر سارے آئیڈیاز اپروو ہو جاتے ہیں۔‘

لیکن زرناب ان باتوں کو سنی ان سنی کرتے ہوئے محنت اور لگن سے اپنا کام جاری رکھتی ہے۔

ابھی اس ڈرامے کی پہلی قسط ہی نشر ہوئی ہے جس سے یہ تو اندازہ ہو چکا ہے کہ زرناب کا ساتھی کولیگ ان کے لیے ادارے میں مسائل کھڑے کرے گا۔

کہانی جوں جوں آگے بڑھے گی تو معلوم ہوگا کہ نوبت اُس ویڈیو پیغام تک کیسے پہنچے گی جو وہ اپنے والد کے لیے ریکارڈ کر رہی تھی۔

’گونج‘ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس سے پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کی بڑی تعداد خود کو ریلیٹ کر سکتی ہے۔ 

ایسے کئی واقعات روزانہ کی بنیاد پر سامنے آتے ہیں جہاں کسی کام کی جگہ پر کسی خاتون کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ اس ساری صورتحال سے اس قدر دلبرداشتہ ہو جاتی ہیں کہ مجبوراً وہ ادارہ ہی چھوڑ دیتی ہیں۔

خواتین کام کی جگہ پر ہراسانی کو کیسے رپورٹ کر سکتی ہیں، اس حوالے سے ایڈووکیٹ مدثر لطیف عباسی نے بتایا کہ ’سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس قسم کی ہراسمنٹ ہے کیونکہ ہراسانی کی مختلف اقسام ہیں جیسے کہ وربل، فزیکل (جسمانی) اور سائیکالوجیکل ہراسمنٹ۔‘

اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’اگر کسی خاتون کو کام کی جگہ پر ہراسانی کا سامنا ہو تو سب سے پہلے تو وہ اپنے ادارے میں اتھارٹی یعنی اپنے باس کو ایک شکایت جو تحریری بھی ہو سکتی ہے اور ای میل کی شکل میں بھی، رجسٹر کرائے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایڈووکیٹ مدثر لطیف عباسی نے کہا کہ ’بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ خواتین اس معاملے میں ساتھی کولیگز سے مشورہ لیتی ہیں، مشاورت کرتی ہیں جس کے بعد شکایت تحریر کرتی ہیں تو اس سے امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید اس میں کوئی مبالغہ ہو، تو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جو بھی واقعہ ہوا ہے اُسے من و عن تحریر کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہر ادارے میں کمیٹیاں بنی ہوتی ہیں جو یہ معاملات دیکھتی ہیں، وہاں رپورٹ کریں۔ یہ کمیٹیاں خود ایکشن لیتی ہیں لیکن اگر ایسا نہ ہو تو وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسیت میں شکایت رپورٹ کریں۔ ویسے تو اب دیگر متعلقہ فورمز بھی ہیں جیسے کہ سائبر کرائم سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔‘

ہراسانی کی شکایت درج کرانے کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایڈووکیٹ مدثر لطیف نے کہا کہ اس کا طریقۂ کار بہت سادہ اور آسان ہے۔ چاہیں تو آن لائن شکایت بھی درج کرائی جا سکتی ہے اور خود اِن پرسن بھی۔

’جو واقعہ ہوا اسے تحریر کر کے اس کے ساتھ اگر کوئی ثبوت ہے تو اس ڈاکیومنٹ کو ساتھ نتھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈاکیومنٹ تصویری بھی ہو سکتا ہے یا ویڈیو شکل میں بھی تو اسے ساتھ اٹیچ کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’متعلقہ حکام آپ کی اس شکایت پر خاتون سے خود رابطہ کریں گے اور دونوں فریقین کو بلایا جائے گا، طلبی کے نوٹس جاری کیے جائیں گے۔ پھر باقاعدہ کیس کی سماعت شروع ہوگی اور سزا جزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘

ہراسانی کے کیسز میں سزاؤں کے حوالے سے ایڈووکیٹ مدثر لطیف نے بتایا کہ کم سے کم سزا یہ ہو سکتی ہے کہ ہراسانی کے ملزم کو جرمانہ کیا جائے جو چھ لاکھ تک ہو سکتا ہے۔ ہراسانی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ممکن ہے کہ مذکورہ شخص کے ادارے کو اس کی تنخواہ میں اضافے سے روک دیا جائے، یا ایک گریڈ تنزلی کر دی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کیسز میں زیادہ سے زیادہ سزا میں ادارے کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ہراسانی کے مرتکب شخص کو ملازمت سے برطرف کر دیا جائے اور ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

 

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More