سستی اشیا فراہم کرنے والے یوٹیلیٹی سٹورز 54 سال بعد مکمل طور پر بند

اردو نیوز  |  Aug 01, 2025

عوام کو سستی اشیائے خورونوش فراہم کرنے کے لیے جولائی 1971 میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم کیے گئے یوٹیلیٹی سٹورز 54 برس بعد جمعرات کو ملک بھر میں بند کر دیے گئے۔جمعرات کو وزارتِ صنعت و پیداوار کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں باضابطہ طور پر بتایا گیا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی تمام سرگرمیاں آج سے بند کر دی گئی ہیں۔‘

اس سے قبل وفاقی حکومت نے 31 جولائی تک یوٹیلیٹی سٹورز کی تمام سرگرمیوں، جن میں ان کے سٹورز وغیرہ شامل تھے، کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔وزیراعظم پاکستان کی 28 جون 2025 کی ہدایات اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دو جولائی 2025 کے فیصلے کی روشنی میں جمعرات کو باضابطہ طور پر یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔نوٹیفیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ تمام یوٹیلیٹی سٹورز پر فروخت اور خریداری بند کر دی گئی ہے۔ سٹورز میں موجود سامان کو ویئر ہاؤسز منتقل جبکہ وینڈرز کو اشیا واپس کی جا رہی ہیں اور انوینٹری کا بھی حساب مکمل کیا جا رہا ہے۔‘وزارتِ صنعت و پیداوار کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ’اس بارے میں تمام زونل مینیجرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بندش پر مکمل اور سختی سے عمل درآمد کریں۔‘یاد رہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کی بندش کے خلاف اسلام آباد میں ادارے کے ہیڈ آفس کے باہر 10 روز سے برطرف کیے گئے ملازمین کا احتجاجی دھرنا جاری ہے، تاہم اس دوران ہی وزارتِ صنعت و پیداوار کی جانب سے بندش کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔حکومت کا موقف کیا ہے؟وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کو خسارے کا شکار ادارہ قرار دیتے ہوئے اسے نجکاری کی تیاری کے تحت بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو رواں برس بھی آٹھ ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے ، لہٰذا یہ مالی بوجھ مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کا مالی بوجھ مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

اس مقصد کے لیے حکومت نے ایک اعلٰی سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے یوٹیلیٹی سٹورز کے اثاثوں کی مالیت، نجکاری کے ڈھانچے، اور رضاکارانہ علیحدگی کی سکیم (وی ایس ایس) پر غور کیا تھا۔اسی تناظر میں وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی بندش کے بعد ادارے کے ملازمین کے لیے رضاکارانہ علیحدگی کی سکیم متعارف کرائی۔ اس سکیم کے تحت ریگولر ملازمین کو اُن کی بنیادی تنخواہ کے مطابق دو سے تین ماہ کی رقم بطور پیکج ادا کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ملازم کی بنیادی تنخواہ 30 ہزار روپے ہے، تو اسے 60 ہزار سے 90 ہزار روپے کے درمیان ایک مرتبہ کی ادائیگی کی جائے گی۔تاہم دوسری جانب وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا، جس کے باعث یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین اسلام آباد میں بدستور سراپا احتجاج ہیں۔مرکزی رہنما جوائنٹ ایکشن کمیٹی یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن آف پاکستان سید عارف شاہ کا کہنا ہے کہ ’ہم یوٹیلیٹی سٹورز کی زبردستی بندش اور ملازمین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کا یہ فیصلہ غیرقانونی اور غیرآئینی ہے، اور اگر اسے فوری طور پر واپس نہ لیا گیا تو اسلام آباد میں ہمارا دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔‘

عوام کو سستی اشیا فراہم کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 میں  یوٹیلیٹی سٹورز قائم کیے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یوٹیلیٹی سٹورز ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ عدالتوں سے باہر نکالے گئے تمام ملازمین کو دوبارہ بحال کیا جائے اور اُن کی روکی گئی تنخواہیں فوری جاری کی جائیں۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا مزید کہنا ہے کہ جب تک حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر پیکج کا فائنل نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرتی، ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔’ہم نے ڈیلی ویجز، کنٹریکٹ، اور مستقل ملازمین کے حوالے سے ایک متفقہ پیکج بنا کر حکومت کو پیش کیا ہے اور اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کرے۔‘اردو نیوز کو دستیاب سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بندش سے قبل ملک بھر میں یوٹیلیٹی سٹورز کی کل تعداد 3700 تھی، جسے پہلے مرحلے میں کم کر کے 1700 کر دیا گیا۔ بندش کے آغاز کے وقت فعال سٹورز کی تعداد صرف 600 رہ گئی تھی، جبکہ 31 جولائی تک ملک بھر میں تقریباً تمام سٹورز بند ہو چکے تھے، کیونکہ حکومت پہلے ہی مرحلہ وار بندش کا عمل شروع کر چکی تھی۔اگر ملازمین کی بات کی جائے تو بندش سے قبل یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں تقریباً 6000 ملازمین کام کر رہے تھے، جبکہ ایک وقت میں یہ تعداد 12 ہزار سے بھی زائد تھی۔کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین کو پہلے ہی فارغ کیا جا چکا ہے، جبکہ ریگولر ملازمین کے مستقبل سے متعلق تاحال کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More