Getty Images(فائل فوٹو) لاہور میں ٹرانس جینڈر پارٹی کی ویڈیوز سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر بھی ردعمل سامنے آ رہا ہے
لاہور کی ایک مقامی عدالت کی جانب سے متنازع ’ٹرانس جینڈر ڈانس پارٹی‘کا اہتمام کرنے کے الزام میں گرفتار پانچ ملزمان کو رہا کرنے کے حکم نامے کے بعد پولیس نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
یہ معاملہ چند روز سے عوامی اور سماجی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور لوگ اس نوعیت کی تقریبات کے انعقاد پر مختلف سوال اٹھا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس پارٹی کی چند مبینہ ویڈیوز بھی وائرل ہیں جن کی بی بی سی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
لاہور پولیس کے مطابق اس واقعے کا مقدمہ درج کر کے پانچ ملزمان کو حراست میں لیا گیا تھا لیکن اتوار کو ایک ڈیوٹی مجسٹریٹ نے عدم شواہد کی بنا پر تمام ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
لاہور پولیس نے اس فیصلے کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ لاہور میں گلبرگ کے علاقے میں ایک پارٹی میں ’اخلاقیات کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ پارٹی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی اور ’اس نوعیت کی پارٹی کے انعقاد سے نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔‘
ایف آئی آر میں کیا ہے؟
سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پنجاب حکومت کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ نصیر آباد میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس پارٹی کی وائرل ہونے والی ’قابل اعتراض ویڈیوز سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے‘ اور ’اس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری حرکت میں آئے۔‘
ایف آئی آر میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے 50 سے 60 افراد کو نامزد کیا گیا جس میں پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 292 اور 292 اے کے تحت ’فحش مواد کی تشہیر، پرنٹنگ اور سیکشن 294‘ جیسی دفعات لگائی گئی تھیں۔
پولیس کے مطابق اس پارٹی کا اہتمام یکم اگست کو کیا گیا تھا، تاہم اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پنجاب پولیس حرکت میں آئی اور ملزمان کو حراست میں لیا گیا۔
قصور میں فارم ہاؤس پر چھاپہ: ’ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے‘ پر پولیس اہلکار گرفتارایبٹ آباد میں خواجہ سرا کا قتل: ’شادی کی تقریب کے دوران نوجوان نے گولیاں چلائیں‘راولپنڈی میں سات سالہ بچی کے مبینہ ریپ اور قتل کے الزام میں ماموں کی گرفتاری اور پراسرار حالات میں ہلاکت’سوچ لیا تھا کہ بھیک نہیں مانگنی اور سیکس سے پیسے نہیں کمانے‘’جائزہ لے رہے ہیں کہ تقریب کا ایجنڈا کیا تھا‘
ڈی آئی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’شہر میں کسی بھی تقریب جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، اس کے لیے پولیس کو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے۔‘
اُن کے بقول اس معاملے میں لاہور کے علاقے ’گلبرگ میں ایک نجی سٹوڈیو کو 12 گھنٹے کے لیے کرائے پر حاصل کیا گیا۔ وہاں شوٹنگ اور پرفارمنس کی آڑ میں عریاں قسم کے لباس اور قابل اعتراض پرفارمنس کی گئیں۔‘
ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا تھا کہ ’سٹوڈیو کے مالک کو علم ہونا چاہیے تھا کہ وہاں کسی قسم کی سرگرمی ہو رہی ہے۔ اگر اُسے علم نہیں تھا تو وہ بعد میں بھی پولیس کو آگاہ کر سکتے تھے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس نوعیت کی تقریبات کا کیا کوئی خفیہ ایجنڈا تھا، اس کی تفتیش جاری تھی۔‘
’لیکن جب پولیس نے پانچوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تو ڈیوٹی مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔‘
ڈی آئی جی فیصل کامران کا کہنا تھا کہ ’پولیس ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن ملکی اقدار اور قوانین کی خلاف ورزی کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
Getty Imagesپولیس کے مطابق اس پارٹی کا اہتمام یکم اگست کو کیا گیا تھا، تاہم اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پنجاب پولیس حرکت میں آئی اور ملزمان کو حراست میں لیا گیاعدالت میں کیا ہوا؟
لاہور پولیس کے مطابق ملزمان کو قانون کے مطابق 24 گھنٹوں کے اندر مقامی ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ طلب کیا گیا۔ لیکن عدالت نے ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دے دیا۔
اتوار کو جب ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس کی جانب سے قابل اعتراض ویڈیوز پر مشتمل ایک یو ایس بی عدالت میں پیش کی گئی۔
تاہم جج نے پولیس کی جانب سے گواہ پیش نہ کیے جانے پر ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دیا۔
جج کا کہنا تھا کہ ’پولیس کوئی ایسا ریکارڈ پیش نہیں کر سکی جو گرفتار ملزمان پر عائد کی گئی دفعات کے تحت اُنھیں قصوروار ٹھہرائے۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کے لیے سرگرم نایاب علی نے اس معاملے کو خواجہ سرا کمیونٹی سے جوڑنے پر تنقید کی ہے۔
’ایکس‘ پر جاری کیے گئے بیان میں نایاب علی کا کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی اس ایونٹ کا علم نہیں تھا جب تک کہ اسے وائرل نہیں کیا گیا اور اس کے بعد پھر یہ لاکھوں لوگوں تک پہنچی تو کیا یہ فحاشی یا عریانی کی تشہیر نہیں ہے؟‘
سوشل میڈیا صارف ماہین غنی نے کہا کہ ’یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اجازت کے بغیر نجی ویڈیوز پوسٹ کرنا کتنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔‘
تاہم دوسری جانب چند صارفین نے حکومت پنجاب سے کارروائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایسی سرگرمیاں ملک کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں جو ’نوجوانوں کو خراب کر رہی ہیں۔‘
’سوچ لیا تھا کہ بھیک نہیں مانگنی اور سیکس سے پیسے نہیں کمانے‘ٹرانس خاتون کی محبت کی تلاش: ’لوگ جنسی اعضا، سیکس سے متعلق پوچھتے تھے‘قصور میں فارم ہاؤس پر چھاپہ: ’ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے‘ پر پولیس اہلکار گرفتارکرتارپور میں ڈانس پارٹی کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟ایبٹ آباد میں خواجہ سرا کا قتل: ’شادی کی تقریب کے دوران نوجوان نے گولیاں چلائیں‘انڈیا کی وہ ٹرانسجینڈر خاتون جن کی موت کی درخواست نے سب کو ہلا دیا