ڈاکٹر عثمان قاضی کا ’اعترافی بیان‘: بی ایل اے سے تعلق، خودکش حملہ آوروں کو پناہ دینے کا اعتراف

اردو نیوز  |  Aug 18, 2025

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے انکشاف کیا ہے کہ صوبے کی ایک سرکاری یونیورسٹی کے استاد  کو کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے خودکش سکواڈ ’مجید بریگیڈ ‘ سے تعلق اور خودکش حملہ آوروں کو پناہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ کے مطابق پہلی مرتبہ بی ایل اے کا اس بڑے اور منظم درجے کا  شخص قانون کی گرفت میں آیا ہے۔ ملزم نومبر میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے کا سہولت کار تھا اور اس نے اس حملہ آور کو بھی پناہ دی جو یومِ آزادی کی تقریبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

پیر کو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کوئٹہ میں ترجمان صوبائی حکومت شاہد رند، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات، ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ سکیورٹی ادارے، پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اس کامیاب کارروائی پر مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے بلوچستان کو بڑی تباہی سے بچایا۔ ان کے مطابق 14 اگست کو خودکش حملہ آور یومِ آزادی منانے والے شہریوں کو نشانہ بنانے والے تھے۔

بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (بیوٹمز) کے گریڈ 18 کے لیکچرار ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کی بھائی  کے ہمراہ کوئٹہ کے علاقے افنان ٹاؤن سے گرفتاری کی  خبر 12 اگست کو سماجی رابطوں  کی ویب سائٹس پر سامنے آئی تھی   تاہم  پیر کو وزیراعلیٰ نے باقاعدہ اس کی تصدیق کی ۔

پریس کانفرنس میں  ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کا ویڈیو اعترافی بیان بھی دکھایا گیا  جس میں انہوں نے کہا کہ’میں تربت کا رہائشی ہوں اور وہیں پلا بڑھا ہوں۔ تعلیم ملک کے اچھے اداروں سے حاصل کی۔ قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز اور ایم فل کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وظیفے پر پی ایچ ڈی کی۔ بیوٹمز میں گریڈ 18 کا لیکچرار  تھا۔ میری اہلیہ بھی سرکاری ملازمہ ہے۔‘

 گرفتاریونیورسٹی ٹیچر کا کہنا تھا کہ ’جب میں 2020 میں پشاور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا، وہاں سے میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد گیاجہاں تین دوستوں سے ملاقات ہوئی جو تنظیم ( بی ایل اے ) میں شامل تھے۔ بعد میں ان میں سے دو مارے گئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر ہیبتان عرف کالک (کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے رکن) نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے تنظیم میں شامل کیا۔ وہاں سے میرا رابطہ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب سے کرایا گیا۔ یہ سارے رابطے ٹیلی گرام کے ذریعے ہوتے تھے۔‘

وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے ڈاکٹر عثمان کی گرفتاری سے متعلق میڈیا کو آگاہ کیا

ڈاکٹر عثمان قاضی کے مطابق کوئٹہ آنے کے بعد انہوں نے مجھ سے تین کاموں میں سہولت کاری لی۔ تنظیم میں میرا نام ’امیر‘ رکھا گیا۔ پہلا کام یہ تھا کہ شیر دل عرف بوہیر قلات میں فورسز کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہوا تو میں نے اسے علاج کے لیے جگہ دی۔وہ کئی دن رہنے کےبعد واپس چلا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال نومبر میں ڈاکٹر ہیبتان نے ایک اور بندے کو جگہ دینے کا کہا میں نے اسے دو راتیں ٹھہرایا۔ وہ رفیق بزنجو تھا جو خودکش حملہ آور تھا۔ میں نے واقعے سے ایک دن پہلے اسے حوالے کیااور دوسرے دن اس نے ریلوے سٹیشن پر خودکش حملہ کیا جس میں معصوم شہری اور سکیورٹی اہلکار وں کی جانیں ضائع ہوئیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بعد میں ڈاکٹر ہیبتان نے ایک اور ٹارگٹ دیا جس کا نام نعمان عرف فیدک تھا۔ وہ سات آٹھ دن میرے پاس رہا  پھر میں نے اسے جمیل عرف نجیب کے حوالے کیا جو اسے 14 اگست کی کسی تقریب میں استعمال کرنے والے تھے۔ ‘

ویڈیو بیان میں گرفتار ملزم نے کہا کہ انہوں نے ایک پستول بھی لیا جسے انہوں نے ایک خاتون کے حوالے کیا۔ وہ ٹارگٹ کلنگ سکواڈ کو دیا گیا اور سکیورٹی فورسز یا سرکاری ملازمین کو نشانہ بنانے میں استعمال ہوا۔

گرفتار ڈاکٹرعثمان قاضی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’ریاست نے مجھے سب کچھ دیا عزت، وقار، نوکری اور میرے خاندان  اور اہلیہ کو نوکری دی ۔ اس کے باوجود میں نے قانون کی خلاف ورزی اور ریاست کے ساتھ غداری کی۔ میں اس پر شرمندہ ہوں اور افسوس کرتا ہوں۔ اس ویڈیو  پیغام کا مقصد یہ ہے کہ نوجوان اور طلبہ اس طرح کی انتشار پھیلانے والی تنظیموں سے خود کو دور رکھیں۔‘

نو نومبر 2024 کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بم دھماکہ ہوا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ ’نومبر میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے میں 32 افراد شہید ہوئے تھے جن میں 10 عام شہری اور باقی سکیورٹی اہلکار تھے جبکہ پچاس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ عثمان قاضی خودکش حملہ آور کو موٹر سائیکل پر سٹیشن کے قریب لاکر دوسرے ہینڈلر کے حوالے کر کے گیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اس لڑائی کو احساسِ محرومی سے جوڑا جاتا ہے جو درست نہیں۔ یہ شخص خود 18 گریڈ کا لیکچرار ہے، اہلیہ سرکاری ملازمہ ہیں، والدہ  ریٹائرڈ سرکاری ملازمہ اور پنشنر ہیں، بھائی ریکوڈک منصوبے میں ملازم ہے اور سرکاری وظیفے پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکا ہے۔ یہ کسی طرح بھی محرومی کا شکار نہیں۔

 وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ مجید بریگیڈ تین چار درجوں میں کام کرتی ہے۔ پہلا درجہ عام فٹ سولجرزکا ہے جنہیں پروپیگنڈے کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے  جو خودکش حملے کرتے ہیں یا پہاڑوں پر لڑتے ہیں ۔ دوسرا شہروں کے اندر سہولت کاروں کا  ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں، اسی طرح خواتین کو بلیک میل کرکے خودکش حملوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تیسرا اعلیٰ سطح  کا منظم    اور پیچیدہ (sophisticated  )لیئر  ہے   ۔یہ پہلی بار ہے  مجید بریگیڈ کے اتنی بڑی sophisticated سطح کا آدمی (ڈاکٹر عثمان قاضی ) پکڑا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب خودکش حملہ آور کو گرفتار کرنے کے لیے سی ٹی ڈی گئی تو اہل محلہ نے مزاحمت کی اور اسے بھگایا۔اس پر لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیاگیا۔ ہم عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے دور رہیں ورنہ سہولت کار قرار پائیں گے اور پھر قانون کے مطابق سزا کے حقدار ہوں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ آپ کے بچے کیا کام کرنے جارہے ہیں۔ کس طرف ان کی توجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر پروفیسر بھی دہشتگردی میں ملوث ہوں تو انہیں سزا دی جائے گی ہار نہیں پہنایا جائے گا ۔ یہ ریاست کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے دہشت گردوں کے ایسے نیٹ ورک کو توڑا جو بظاہر مطالعہ پاکستان کا پروفیسر بن کر طلبہ کو پڑھا رہے تھے  اور خود کو حب الوطن ظاہر کررہے تھے لیکن اندرونی طور پر دہشتگرد تنظیم سے وابستہ تھے۔ان کی اہلیہ بھی استانی  ہیں سوچیں انہوں نے کتنے طلبہ اور لوگوں کی ذہن سازی کی ہوگی۔

ملزم نومبر میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے کا سہولت کار تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ گزشتہ پندرہ برسوں سے بارہا کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو منظم سازش کے تحت توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت اور مرکزی جماعتیں اس حوالے سے ابہام کا شکار ہیں۔ بعض فورمز پر اس دہشتگردی کو محرومی یا حقوق کی لڑائی کا رنگ دیا جاتا ہے جو درست نہیں۔ یہ حقوق کی لڑائی نہیں بلکہ دہشتگردی ہے   اور انہیں غیر ملکی ایجنسی کی مدد حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ ’ذہن سازی عسکریت پسندی سے زیادہ خطرناک ہے ۔ پچھلی حکومتیں دہشت گردی کی اس جنگ کو دہشت گردوں اور ریاست کے درمیان لڑائی سمجھتے تھے ہم نے اس جنگ کو اپنایا ہے اور عسکری اور قانونی دونوں سطحوں پر  لڑرہے ہیں۔‘

 سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ حکومت   گرے ایریا میں  کام کررہی ہے کوئی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کون دہشت گرد اور کون نہیں ۔ ’عثمان قاضی جیسے دہشت گردوں نے میرے جیسا لباس پہنا ہوا ہے کسی کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوا کہ وہ دہشت گرد ہے، اس لیے مشتبہ افراد پر نظر رکھنے کے لیے سپیشل برانچ کو فعال کیا جارہا ہے ‘۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے محکمہ داخلہ بلوچستان میں ایڈیشنل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک علیحدہ سیل قائم کیا ہے جو ان افراد کی نگرانی کرتا ہے جن پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔ ایسے مشکوک افراد کو ’فورتھ شیڈول‘ میں شامل کر کے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دو سے اڑھائی ہزار لوگ خاص کر سرکاری ملازمین کی تحقیقات کی ہیں کچھ بے گناہ تھے ان کے نام اس فہرست سے نکال دیے گئے، کچھ سے وضاحت مانگی گئی۔ کچھ کو معطل یا نوکریوں سے برطرف کردیا۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بڑے  پیمانے پر فوجی آپریشن کی بات غلط ہے۔ یہاں طاقت کا استعمال محدود اور ہدفی کارروائیوں کی صورت میں کیا جا رہا ہے تاکہ عام شہری متاثر نہ ہوں۔

مزید پڑھیںجعفر ایکسپریس پر ایک بار پھر بم حملہ، چار بوگیاں پٹڑی سے اُتر گئیںNode ID: 891086’سکیورٹی خدشات‘، بلوچستان بھر میں موبائل فون انٹرنیٹ سروسز اچانک بندNode ID: 893084جعفر ایکسپریس پر پھر حملہ، کوئٹہ کے لیے ٹرینوں کی آمدورفت معطلNode ID: 893204

ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست دو  ہزار  ٹھگوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوگی۔  یہ نہیں ہوسکتا کہ دو ہزار لوگ پچیس کروڑ کا ملک توڑیں۔ ٹھیک ہے کہ دہشت گرد منظم ہوگئے ہیں لیکن  فورسز نے بھی اپنی حکمتِ عملی بہتر بنا لی ہے ۔‘

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’ایسے دشمن کے ساتھ جنہیں غیر ملکی ایجنسیوں کی مکمل مدد حاصل ہے ان کے خلاف خاص قوانین ہونے چاہییں۔ ہم نے نئے قوانین پاس کیے ہیں اس کے تحت گرفتار ملزم ٹرائل کیا جائےگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بی ایل اے اور اس کے سربراہ بشیر زیب ہمیں یہ بتائے کہ ان کے پاس کتنے لوگ ہیں کیونکہ جب کوئی دہشت گرد کالعدم تنظیم میں شامل ہوتا ہے تو اس کا خاندان بھی نہیں بتاتا اس لیے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ جبری گمشدگی ہے یا خود ساختہ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم  قانون منظور کرکے اس (جبری گمشدگی) سے نکل آئے ہیں اب ہر گرفتاری چوبیس گھنٹے میں عدالت اور خاندان کو بتانا لازم ہے- اب بشیر زیب ہمیں اپنے لوگوں کی فہرست دے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے خلاف لاپتہ افراد کے مسئلے کو منظم انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔‘

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ  ’ہم کسی کے جرم کی سزا کسی اور کو دینے اور اجتماعی سزا کے مخالف ہیں لیکن اب حکومت  اس بات پر غور کررہی ہے کہ ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائی ہو جن کے رشتہ دار دہشتگردی میں ملوث ہیں   اور وہ اس کی اطلاع حکومت کو نہیں دیتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو بے گناہوں کو قتل کرتے ہیں اور دہشت گرد کیمپوں میں جاتے ہیں اور پھر چھٹی پر گھر آتے ہیں  لیکن ان کے رشتہ دار  حکومت کو اطلاع نہیں دیتے ۔ اس طرح ان کے خاندان کے افراد خود کو بے گناہ نہیں سمجھ سکتے ۔ ان کے خاندان  کو ملوث سمجھا جائےگا اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائےگا اور انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More