پنجاب میں سیلاب: ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت اور گاڑی میں تین بچوں کا جنم

بی بی سی اردو  |  Sep 03, 2025

BBCوسطی پنجاب کے بعض زیرِ آب دیہات میں گاڑی تو دور پیدل چلنا بھی مشکل ہو گیا ہے

جب ہم وسطی پنجاب میں سیلاب کی کوریج کرنے کے لیے اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ روانہ ہوئے تو وزیر آباد تک کا سفر بلکل ٹھیک رہا۔ مگر جیسے ہی ہم نے ایک پُل پار کر کے وزیر آباد-سیالکوٹ روڈ کا رُخ کیا تو سیلاب سے ہونے والی تباہی عیاں تھی۔

اس شاہراہ کے اردگرد عمارتوں پر پانی کے نشان آٹھ فٹ کی اونچائی تک تھے۔ اس سے کچھ فاصلے پر وزیر آباد شہر کے اندر یہ نشان پانچ فٹ تک تھے۔

شہر میں سیلابی پانی تو کسی حد تک اُتر چکا تھا لیکن پھر بھی گلی محلوں اور حتیٰ کہ گھروں میں مٹی اور غلاظت ڈھیر موجود تھے۔

اِن حالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے سیالکوٹ کی تحصیل ماجرا کلاں کا رخ کیا جائے جہاں پر اس علاقے کا ایک نوجوان محمد عمران اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر خاندان کے پانچ افراد کے ہمراہ سیلابی پانی کی نذر ہو گیا تھا۔

ماجراں کلاں تک تین راستے جاتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ سیالکوٹ ایئرپورٹ کے راستے والی سڑک بہتر ہو گی۔ لیکن ایئرپورٹ سے کچھ آگے جاتے ہی پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ گاڑی کا گزرنا مشکل تھا۔

سمبٹریال کے ایک گاؤں سے بھی راستہ ماجرا کلاں کو جاتا ہے۔ اس راستے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہاں پر پانی تو موجود ہے لیکن اس کی گہرائی کم ہے۔

اس راستے پر چلتے ہوئے ایک گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ہم عمران کے گھر پہنچے۔ عام حالات میں مرکزی سڑک سے ماجرا کلاں کا سفر دس منٹ سے بھی کم وقت میں طے ہو جاتا ہے۔

راستے میں بہت ساری عمارتیں سیلابی پانی کی وجہ سے منہدم ہوچکی تھیں۔ قریبی گاؤں میں واقع سکولوں کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

BBC’صورت حال اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر پانی تین فٹ سے پانچ فٹ پر چلا گیا‘جب ایک ہی خاندان کے چھ افراد پانی میں بہہ گئے

ہم عمران کے گھر پہنچے تو لوگ ان کے والد اور چچا کے ساتھ تعزیت کرنے کے لیے آ رہے تھے۔

عمران کے چچا ارشد محمود نے ہمیں بتایا کہ عمران نے اپنے آبائی گھر سے تھوڑی دور نیا گھر بنایا تھا جہاں ان کے والد بھی ساتھ رہتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 28 اگست کو شدید بارش ہو رہی تھی۔ ’چناب میں شدید طغیانی کو دیکھتے ہوئے گاؤں کی مساجد میں اعلان ہو رہے تھے تو عمران اپنی بیوی اور چار بچوں کو لے کر آبائی گھر جانے کے لیے نکلے جو کہ قدرے اونچائی پر واقع ہے۔‘

ارشد محمود کا کہنا ہے کہ والد نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ ’گھر سے نہ نکلو کیونکہ پانی بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ جس پر عمران نے جواب دیا کہ ’ابا جان! دو گلیاں چھوڑ کر تو گھر ہے۔ جلد پہنچ جاؤں گا۔‘

دو بچوں کو عمران نے جبکہ ایک بچے کو ان کی بیوی نے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔ بڑا بچہ عمران کے ساتھ چل رہا تھا۔ عمران کے والد نے چھوٹے بیٹے کو اپنی گود میں اٹھایا ہوا تھا۔

گلی میں پانی تین فٹ سے اوپر ہو چکا تھا۔ عمران اور ان کی فیملی ان سے کچھ آگے تھے کہ اچانک عمران کے بیٹے کا پاؤں پھسل گیا۔ عمران انھیں بچانے کے لیے آگے بڑھے مگر دونوں پانی میں بہہ گئے۔

عمران کے کندھے پر سوار بیٹی بھی پانی میں گِر گئی۔ عمران کی بیوی شوہر اور بچوں کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو ان کے کندھے پر سوار تین سالہ بچی بھی پانی میں گِر گئی۔

ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ’صورت حال اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر پانی تین فٹ سے پانچ فٹ پر چلا گیا۔‘

عمران کے والد نے خاندان کو بچانے کے لیے آوازیں دینا شروع کر دیں۔ گلی کے ایک نوجوان نے پانی میں چھلانگ لگائی مگر چند لمحوں میں وہ نوجوان بھی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔

یہ نوجوان عمران اور ان کی فیملی کو تو نہ بچا سکا لیکن خوش قسمتی سے اس کا ہاتھ راستے میں لگے ہوئے ایک درخت کے ساتھ لگ گیا جس کے ساتھ وہ لپٹا رہا اور بعد ازاں ریسکیو والوں نے اسے بچایا۔

ایک ٹیوب کے ذریعے حافظ آباد کے درجنوں لوگوں کو بچانے والے ’ملنگ‘: ’میرے لیے ایک ہزار روپے انعام کروڑوں سے بہتر ہے‘لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیلاب: کیا یہ گھر اب رہنے کے قابل رہیں گے؟سلال ڈیم: کیا انڈیا کے ڈیمز پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں؟چنیوٹ کے دیہات میں سیلابی ریلے اور ریسکیو اہلکاروں کی مشکلات: ’متاثرین کے پاس پہنچتے تو وہ کہتے گھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے‘

ارشد محمود کے مطابق عمران اور ان کی اہلیہ کی لاشیں تو پانی اترنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی مل گئی تھیں جبکہ دو پوتیوں کی لاشیں اگلے روز ملیں۔ ’ایک بچے کی لاش دو دن بعد ملی جبکہ ایک پوتی کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔‘

ارشد محمود کا کہنا ہے کہ عمران کے خاندان میں صرف ایک ہی بیٹا زندہ بچا ہے۔ ’پانچ سالہ بچہ اپنے دادا دادی سے دن میں کئی بار سوال کرتا ہے کہ ماں باپ اور بہن بھائی کہاں ہیں اور وہ ابھی تک گھر کیوں نہیں آئے۔‘

اس بچے کے معصوم سوالات کا دادا دادی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

BBCجانور مرنے کی وجہ سے علاقے میں تعفن پھیل رہا ہےقبرستان زیرِ آب، ٹوٹی سڑکیں اور جانوروں کی لاشیں

سیلاب کا پانی نہ صرف گھروں میں داخل ہوا بلکہ گاؤں کے قبرستان بھی زیرِ آب تھے۔

قریبی گاؤں کے تین افراد طبعی موت مر گئے لیکن ان کی تدفین اس لیے نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ قبرستان پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور ایسے حالات میں تو قبر کھودنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس گاؤں کی ویلفیئر سوسائٹی نے فریج نما تابوت رکھے ہوئے ہیں جن میں لاشوں کو اس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک قبرستان میں تدفین کے لیے سیلاب کا پانی اتر نہ جائے۔

جب ہم دریائے چناب کے قریب واقع چک اختیار گاؤں گئے تو وہ پورا علاقہ ہی پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اہل علاقہ کے مطابق چناب کا جو بند ٹوٹا تھا، وہ گاؤں سے چند کلومیٹر کی دوری پر تھا، اس لیے یہاں زیادہ تباہی ہوئی۔

علاقے کی ایک بھی سڑک سلامت نہیں رہی۔ سیالکوٹ ایئرپورٹ کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ کے بعض حصوں میں مٹی نیچے سے نکل چکی ہے اور اوپر صرف کنکریٹ کی تہہ بچی ہے۔

یہاں ایک اندازے کے مطابق سینکڑوں مال مویشی پانی میں بہہ گئے۔ اکثر وہی جانور بچ سکے جن کی رسی ڈھیلی تھی۔

اتنے زیادہ جانور مرنے کی وجہ سے علاقے میں تعفن پھیل رہا ہے۔ لاشیں اٹھانے کے لیے کوئی نہیں ہے کیونکہ ابھی تک ان علاقوں میں گاڑی تو دور کی بات پیدل بھی چلا نہیں جا سکتا۔

جن کے جانور بچ گئے وہ انھیں محفوظ مقام تک پہنچانے کے لیے اپنے تئیں کوششیں کر رہے ہیں۔ جن کے پاس اتنے وسائل نہیں وہ جانوروں کو قصاب کے پاس لے جا کر گوشت کے ریٹ پر فروخت کر رہے ہیں۔

کئی لوگ سڑک کنارے گھر کا سامان اور مویشی لیے بیٹھے ہیں۔ وہ اپنا علاقہ چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں ہیں۔

جن کسانوں کے مویشی پانی میں بہہ گئے وہ حسرت بھری نگاہوں سے لاشوں کو دیکھتے ہیں اور پھر کچھ دور جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

BBCکئی لوگ سڑک کنارے گھر کا سامان اور مویشی لیے بیٹھے ہیںہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں پانی کی نذر ہو گئیں

وسطی پنجاب کے تینوں شہروں وزیر آباد، سیالکوٹ اور نارووال میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے دیہی علاقے اب تک زیرِ آب ہیں۔ کھیتوں میں تین سے چار فٹ پانی موجود ہے۔

سیلاب نے جتنے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان علاقوں کے کسانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کئی سال لگ جائیں گے۔

ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں پانی کی نذر ہو گئی ہیں۔ اس اراضی پر اکثر چاول کاشت کیا گیا تھا۔

کسانوں نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ملک میں چاول کی پیدوار انتہائی کم ہو گی جس سے مارکیٹ میں چاول مہنگے داموں ملے گا۔

ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ اور ظفر وال سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں بھی زیادہ تر چاول ہی کاشت ہوتا ہے۔

BBCکسانوں نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ملک میں چاول کی پیدوار انتہائی کم ہو گیایک ماں نے تین بچوں کو جنم دیا: ’انھیں بچایا جا سکتا تھا‘

نارووال، سیالکوٹ اور وزیر آباد میں فوجی اہلکار سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الااقومی غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔

وزیر آباد کے علاقے رانا بہرام میں ایک خاتون امید سے تھی۔ اچانک تکلیف محسوس ہونے پر انھیں وزیر آباد میں قائم ہسپتال میں لے جایا گیا۔ اس دوران شدید سیلاب کی وجہ سے گاؤں میں ایک پُل ٹوٹ گیا اور پانی کا لیول بہت زیادہ بڑھنے لگا۔

اس صورت حال میں اس خاتون کے رشتہ داروں نے وہاں پر موجود فوجی اہلکاروں کی مدد طلب کی۔ فوری طور پر کشتی بھی لائی گئی اور ایمبولینس کو بھی طلب کر لیا گیا۔ جب خاتون کا درد بڑھ گیا تو گاڑی میں ہی موجود ایک دائی نے زچگی کا عمل مکمل کروایا۔ خاتون نے بیک وقت تین بچوں کو جنم دیا۔ مگر ان بچوں نے دنیا میں آنے کے چند منٹوں بعد ہی اس گاڑی میں دم توڑ دیا۔

خاتون اس شدید صدمے میں ہے جبکہ ان کا شوہر روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہے۔

خاتون کے جیٹھ عامر حسین کا کہنا تھا کہ ’اگر گاؤں میں ہی طبی مراکز ہوتے یا بروقت انھیں ہسپتال پہنچا دیا جاتا تو ہوسکتا ہے کہ ان بچوں کی جان بچ جاتی۔‘

لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیلاب: کیا یہ گھر اب رہنے کے قابل رہیں گے؟سلال ڈیم: کیا انڈیا کے ڈیمز پنجاب کے دریاؤں میں دوبارہ سیلاب کا باعث بن سکتے ہیں؟ایک ٹیوب کے ذریعے حافظ آباد کے درجنوں لوگوں کو بچانے والے ’ملنگ‘: ’میرے لیے ایک ہزار روپے انعام کروڑوں سے بہتر ہے‘سیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘ چنیوٹ کے دیہات میں سیلابی ریلے اور ریسکیو اہلکاروں کی مشکلات: ’متاثرین کے پاس پہنچتے تو وہ کہتے گھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More