انڈیا میں بالواسطہ ٹیکس نظام میں اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں جس کے بعد ضروریات کی چیزیں سستی ہو گئی ہیں۔
گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کہلائے جانے والے اس نظام کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2017 میں نافذ کیا تھا۔
اس کے تحت وفاقی حکومت نے مختلف اقسام کے مرکزی اور ریاستی ٹیکسوں کو ایک نظام میں ضم کر دیا تھا۔
حکومت کا کہنا تھا کہ یہ بالواسطہ ٹیکسوں کو آسان بنانے کی کوشش تھی لیکن کئی ریاستوں نے اس پر تنقید کی کہ یہ نظام انڈیا کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کر رہا ہے اور ریاستوں کے مالی اختیارات کو چھین رہا ہے۔
دوسری جانب کچھ ماہرین نے اسے ایک ضروری اصلاح قرار دیا تھا لیکن بعد میں پیچیدگیوں کے سبب اس نظام پر کڑی تنقید دیکھنے میں آئی تھی۔
اپوزیشن جماعت کانگریس، جس نے پہلے اپنا جی ایس ٹی ماڈل تجویز کیا تھا، نے بی جے پی حکومت کے نافذ کردہ نظام کو ’گبّر سنگھ ٹیکس‘ کہا تھا۔
لیکن رواں ہفتے نظام میں کی گئیں اصلاحات ممکنہ طور پر گھریلو استعمال کی چیزوں کا نہ صرف سستا کرنے کا باعث بنیں گی بلکہ اس سے امریکہ کی جانب سے انڈیا پر لگائے گئے 50 فیصد ٹیرف کے اثرات بھی کم ہوں گے۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا امریکی ٹیرف سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
جیو جِت انویسٹمنٹس کے چیف انویسٹمنٹ سٹریٹیجسٹ وی کے وجے کمار نے ان اصلاحات کو ’انقلابی‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے منٹ نامی بزنس اخبار کو بتایا کہ یہ اصلاحات ’توقع سے بہتر ثابت ہوئی ہیں، جن سے مختلف شعبوں کو فائدہ پہنچے گا۔ سب سے بڑا فائدہ انڈین صارف کو ہوگا، جسے کم قیمتوں کا فائدہ ملے گا۔‘
جی ایس ٹی اصلاحات کیا ہیں؟
جی ایس ٹی نظام کو 2017 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد انڈیا کے بالواسطہ پیچیدہ ٹیکس نظام کو یکجا کرنا تھا۔
لیکن جلد ہی واضح ہو گیا کہ اس کے اصل ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اس میں چار ٹیکس سلیب تھے: پانچ، 12، 18 اور 28 فیصد اور اس کے ساتھ پیچیدہ قواعد کی تعمیل ضروری تھی، جو کہ خاص طور پر چھوٹے کاروباروں کے لیے بوجھ ثابت ہوتا تھا۔
امریکی صدر کی دھمکی، انڈیا کا ’تلخ‘ جواب اور مودی کی مشکل: ’ٹرمپ مسلسل توہین کر رہے ہیں، وزیراعظم زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے‘وزیر اعظم مودی چین میں ’وکٹری ڈے پریڈ‘ کے سٹیج سے غائب کیوں تھے؟پوتن اور شہباز شریف کی ملاقات: ’انڈیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ پاکستان، روس اور چین کا اکٹھا ہونا ہے‘ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحان
تین ستمبر 2025 کو اعلان کردہ اصلاحات نے ٹیکس نظام کو دوسلیبز میں تقسیم کر دیا ہے: عام اشیا و سروسز پر پانچ فیصد اور ضروری اشیا پر 18 فیصد ٹیکس کی کمی کی گئی ہے۔
نئی اصلاحات کے مطابق کچھ اشیا پر 40 فیصد ٹیکس بھی ہوگا جسے ’سِن‘ یعنی گناہ ٹیکس کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس لگژری سمجھی جانے والی اشیا جیسے کہ تمباکواور میٹھے مشروبات پر لاگو ہو گا۔
یہ ’سِن‘ درآمد شدہ شراب اور مہنگی گاڑیوں پر بھی لاگو ہوگا۔
یہ اصلاحات اب کیوں ہو رہی ہیں؟
بعض تجزیہ کار جی ایس ٹی اصلاحات کے وقت کو محض ایک اتفاق نہیں سمجھتے۔
یہ اصلاحات 22 ستمبر سے نافذ ہوں گی جو کہ ہندو مذہب کے نوروزہ تہوار نوراتری کا پہلا دن ہے اور اس کے بعد دیگر اہم تہوار بھی آنے والے ہیں۔
حکومت نے ان اصلاحات کو شہریوں کے لیے تہواروں کے ’تحفے‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔
انڈیا میں ان تہواروں سے پہلے اے سی، ٹی وی اور دیگر گھریلو آلات کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے اور امید ہے کہ جی اس ٹی کے تحت کم قیمتیں اس فروخت کو مزید بڑھائیں گی۔
لیکن اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے اور بھی وجوہات ہیں۔
سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ ’ہم گذشتہ آٹھ سال سے جی ایس ٹی کے ڈیزائن اور شرح پر آواز بلند کر رہے ہیں لیکن ہماری بات سنی نہیں گئی۔‘
Getty Imagesمہنگی گاڑیوں پر 40 فیصد ٹیکس برقرار رکھا گیا ہے
وہ سوال کرتے ہیں کہ ’کیا حکومت کو ان تبدیلیوں کے لیے سُست معاشی ترقی، بڑھتے ہوئے گھریلو قرض، کم ہوتی بچت، ریاست بہار میں انتخابات یا ٹرمپ کے ٹیرف نے مجبور کیا؟‘
کہا جا رہا ہے کہ ان اصلاحات کے پیچھے ایک بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے انڈیا پر لگایا جانے والے 50 فیصد ٹیرف بھی ہے، جس سے انڈین برآمدات متاثر ہوئیں ہیں۔
یہ ٹیرف ٹیکسٹائل، جواہرات اور آٹو پارٹس جیسے شعبوں کو متاثر کرے گا۔
ان اصلاحات کا اعلان ٹرمپ کے ٹیرف کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے لیکن وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے وضاحت کی ہے کہ یہ اصلاحات پہلے سے زیر غور تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بدھ کو اعلان کردہ دو سلیب جی ایس ٹی ڈھانچے کا امریکی ٹیرف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کام ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری تھا۔‘
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ارون کمار نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ حکومت جانتی ہے کہ جی ایس ٹی میں کمی کرنے سے قیمتیں کم ہوں گی اور اس سے معیشت بہتر ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت کی نیت صرف عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کی ہوتی تو یہ کام پہلے بھی کیا جا سکتا تھا۔‘
انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’اب برآمدات کے شعبے میں مشکلات بڑھ گئی ہیں، معیشت اس سے متاثر ہو رہی ہے، ان اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت نے ٹیکس میں کمی کی ہے۔ یہ سب کچھ ٹرمپ کے ٹیرف لگانے کے بعد ہوا ہے۔‘
عام صارفین پر اس کے اثرات
حکومت کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی اصلاحات کا مقصد عام صارفین کی زندگی کو مزید آسان بنانا ہے۔
ڈیلوئٹ انڈیا کنسلٹینسی کے گلزار دیدوانیا نے اسے ’گذشتہ آٹھ سال کی سب سے اہم اصلاح‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ تبدیلیاں ہر فرد، ہر کمپنی اور ہر حکومت پر اثر ڈالیں گی۔ ان کا ملک کے تمام شعبوں پر اثر ہوگا۔‘
نئے ٹیکس سلیبس کے سبب ٹوتھ پیسٹ، صابن، بسکٹ، چھوٹی گاڑیوں اور ٹی وی جیسے اشیا کی قیمتیں کم ہوں گی، جن پر اب محض پانچ فیصد ٹیکس ہوگا جو کہ پہلے 12 یا 18 فیصد تھا۔
ضروری ادویات اور ہیلتھ انشورنس پر بھی ٹیکس کم کیا گیا ہے۔
ان اصلاحات کے بعد روٹی، پراٹھے اور کھاکھرا جیسی اشیا اب مکمل طور پر ٹیکس فری ہوں گی۔
Getty Imagesصدر ٹرمپ نے انڈیا پر 50 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے
کوٹک سکیورٹیز کے منیجنگ ڈائریکٹر شریپال شاہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیکس کٹوتیاں چیزوں کے استعمال کو بڑھانے میں مدد دیں گی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے اشیا کی براہِ راست مانگ بڑھے گی، تاجروں کو زیادہ فروخت کا موقع ملے گا اور اگلی سہ ماہی کی آمدنی پر مثبت اثر پڑے گا۔‘
صنعت پر اثرات
حکومت نے جی ایس ٹی میں کٹوتی کو ایک بڑی اصلاح قرار دیا ہے لیکن ماہرین کی رائے اس پر منقسم ہے۔
ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ یہ صرف ٹیکس میں کٹوتی ہے، اسے بڑی اصلاح نہیں کہا جا سکتا۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ جی ایس ٹی میں کٹوتی سے انڈین معیشت میں 22 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
عام صارفین کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی ان اصلاحات سے متاثر ہوں گے۔
جہ ایس ٹی کا نیا ڈھانچہ ٹیکس کے قوانین کی تعمیل کو آسان بناتا ہے، کیونکہ ٹیکس سلیبس کم ہونے سےکاغذی کارروائی کم ہو گی جس پر کاروباری شخصیات کو اعتراضات تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات ٹرمپ کے ٹیرف سے متاثرہ انڈین برآمدات کو بفر فراہم کریں گی، کیونکہ کم ٹیکس کمپنیوں کو پیداواری لاگت کم کرنے اور عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکتا ہے ۔
لیکن کیا اس سے درآمدات پر انحصار کرنے والی انڈین کمپنیوں کو فائدہ ہو گا؟
پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ ’جی ایس ٹی میں کمی سے ظاہر ہے کہ مصنوعات کی قیمتیں کم ہوں گی اور گھریلو مارکیٹ میں مانگ بڑھے گی۔ لیکن اس کا برآمد کنندگان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جو مال بیرون ملک بھیجا جاتا تھا وہ پہلے ہی اضافی مقدار میں موجود تھا۔‘
سستا تیل انڈیا، چین اور روس کو کیسے قریب لا رہا ہے؟ٹرمپ کے ’عظیم دوست‘: انڈیا میں امریکہ کے نئے نامزد سفیر کو ’نئی دہلی کے چہرے پر طمانچہ‘ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟چین میں مودی، شی اور پوتن کی قربتیں: واشنگٹن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟ٹرمپ کی سرزنش، شی سے مصافحہ اور روسی تیل: انڈیا کی خارجہ پالیسی کا امتحانپیٹرول میں بائیو فیول کی ملاوٹ سے اربوں ڈالر کی بچت مگر صارفین ’کم ایوریج‘ اور گاڑیوں کے پارٹس ’گلنے‘ سے پریشان