Getty Images’پی سی بی نے جب ٹیم کی قیادت سلمان آغا کو تھمائی تو یہ ایک ایسا غیر مقبول فیصلہ تھا کہ سبھی سپر سٹارز کے انفرادی 'کلٹ' اپنے اپنے تئیں منہ بسورے کونے میں جا بیٹھے‘
دنیائے کرکٹ کے ’پرنس‘ برائن لارا نے کہا تھا کہ بہتر نتائج کے لیے آپ کو سپر سٹارز کا کوئی گروہ درکار نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی ’ٹیم‘ کی ضرورت ہوتی ہے جو اکٹھے ہو کر اپنا کام کر سکے۔
پاکستانی کرکٹ کلچر میں پرانی رِیت رہی ہے کہ سپر سٹارز عموماً اپنے قد سے اِس قدر اونچے ہونے لگتے ہیں کہ اُن کے سائے میں ٹیم کو ڈھونڈ پانا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ گویا وہ ایسے بڑے درخت بن جاتے ہیں کہ اُن کی چھایا میں صرف جھاڑیاں ہی اُگ پاتی ہیں۔
سوشل میڈیا کی آمد نے اِس سُپر سٹار کلچر کی تُندی کو مزید ہوا دی ہے۔ اب تو کچھ کھلاڑیوں کو باقاعدہ پبلک ریلیشننگ فرمز کی خدمات میسر ہوتی ہیں اور پھر وہ’عوامی رابطہ کار‘ پہلے سے ہی موجود ’فین کلٹ‘ کے گرم جذبات میں دن دگنا، رات چوگنا اضافہ کرتے ہیں۔
ایسے ماحول میں عموماً پوری ٹیم کے نتائج شائقین کے لیے ویسی معنویت نہیں رکھ پاتے جیسی انھیں کسی سپر سٹار کی ایک گگلی، ایک ریورس سوئنگ، ایک لیگ گلانس یا ایک ڈرائیو میں دکھائی دیتی ہے۔ انفرادیت کے ایسے زرخیز کلچر میں ٹیم ورک کے ذخائر بنجر ہوتے دیر نہیں لگتی۔
پی سی بی نے جب اپنی ٹی ٹونٹی ٹیم کی قیادت سلمان آغا کو تھمائی تو یہ ایک ایسا غیر مقبول فیصلہ تھا کہ سبھی سپر سٹارز کے انفرادی ’کلٹ‘ اپنے اپنے تئیں منہ بسورے کونے میں جا بیٹھے اور پوری ٹیم سے ہی لاتعلقی سی اختیار کر لی۔
Getty Images
کاروباری اعتبار سے یہ فیصلہ پاکستان کرکٹ کے لیے خاصا منفی ثابت ہوا کہ اسے دیکھنے والی آنکھیں اچانک اتنی کم پڑ گئیں۔ مگر شائقین کی یہی بے اعتنائی ٹیم کلچر کی افزائش کو نہایت نفع بخش ٹھہری کہ سوشل میڈیا کی مارا ماری کم پڑی تو ہی ٹیم کو بھی اپنے کام پر دھیان دینے کا موقع ملا۔
جب بڑے بڑے برج رستے سے ہٹائے گئے تو بالآخر نوجوان ٹیلنٹ تک کچھ دھوپ آنے لگی اور سلمان علی آغا کا کام بھی کچھ سہل ہوا کہ پاکستان کرکٹ میں سپر سٹارز کی قیادت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
سو، جو پاکستانی شائقین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی بے دخلی پر روٹھے بیٹھے تھے، اتوار کی شب اچانک ان کی آنکھیں کھلیں جب ٹرائی سیریز کے فائنل میں پاکستان نے اپنے ’نومولود روایتی حریف‘ افغانستان کے سبھی خواب مسمار کر دیے۔
یوں جس غیر مقبول فیصلے کی بدولت پاکستان کرکٹ نے اپنے شائقین گنوائے تھے، وہ فیصلہ اپنی تمام تر ’بوریت‘ کے باوجود یہ ثمر لانے میں کامیاب رہا کہ بالآخر بہت عرصے بعد پاکستان کے گیارہ کھلاڑی ایک ٹیم بنتے دکھائی دیے۔
گذشتہ چند ماہ میں پاکستان کی ٹی ٹونٹی ٹیم تشفی بخش نتائج لائی ہے اور 70 فیصد سے زیادہ کامیابی کی شرح اس کی شماریاتی دلیل ہے۔
سہ فریقی کرکٹ سیریز کے فائنل میں پاکستان کی جیت اور محمد نواز کے چرچے: ’کوئی پوچھے تو کہنا نواز آیا تھا‘برطانیہ میں پاکستانی کرکٹر حیدر علی کے خلاف تحقیقات بند: گریٹر مانچسٹر پولیس نے کیا بتایا؟جب افغانستان کو ایشیا کی ’دوسری بہترین ٹیم‘ قرار دیے جانے پر پاکستانی کپتان مسکرا دیےانڈین کرکٹ ٹیم اپنی جرسی کے سپانسر اور ’358 کروڑ کی ڈیل‘ سے کیوں محروم ہو گئی؟
مگر ان اعداد کی ظاہری وضع یہ ظاہر نہیں کرتی کہ اس دوران کھیلے گئے میچز میں اپوزیشن کا معیار کیا تھا اور مسابقت کس قدر تھی۔ بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور افغانستان میں سے صرف افغانستان ہی وہ ٹیم ہے جس کے خلاف فتوحات ایشیا کپ کے تناظر میں کچھ معنویت رکھتی ہیں۔
ایسے میں ایشیا کپ اس نئی پاکستانی ٹیم کے لیے پہلا بڑا چیلنج ہو گا کہ یہاں سری لنکا، افغانستان اور انڈیا کے ہوتے، مسابقت کا معیار بھی بلند ہو گا اورصحیح معنوں میں پاکستان کی جدید ٹی ٹونٹی اپروچ کی پرکھ بھی کرے گا۔
ایشیا کپ جن پچز پر کھیلا جانا ہے، وہ طبعاً سست رو ہیں اور، ابتدائی چند اوورز کے بعد، پیسرز کا کردار فقط برائے نام رہ جاتا ہے۔ مڈل اوورز سے ڈیتھ اوورز تک کا سارا قضیہ سپنرز کو ہی نمٹانا ہوتا ہے یا پھر میڈیم فاسٹ آل راؤنڈرز بروئے کار آتے ہیں جو رفتار کے بدلاؤ کے ساتھ کٹرز کی ورائٹی میں مہارت رکھتے ہوں۔
اگرچہ بیٹنگ میں ابھی کچھ گوشے پاکستان کے لیے تشنۂ جواب ہیں مگر بولنگ میں بالآخر پاکستانی سپنرز نے اپنا لوہا منوا لیا جب افغانستان کے خلاف ٹرائی سیریز فائنل میں 9 وکٹیں پاکستانی سپنرز کے نام ہوئیں جو کسی بھی ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میں پاکستانی سپنرز کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔
Getty Images
ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کے دھیمے مزاج اور ’مبنی بر نتائج‘ اپروچ نے ڈریسنگ روم کے ماحول میں مثبت تبدیلی پیدا کی ہے۔ یہ مائیک ہیسن ہی تھے جن کی کوچنگ میں برینڈن میککلم نے نیوزی لینڈ کرکٹ کی نشاطِ ثانیہ کا بیڑہ اٹھایا تھا اور اب پاکستان بھی ان سے وہی توقعات رکھتا ہے۔
حالیہ فتوحات کے تناسب اور بہتر توازن کے سبب پاکستان اب ٹائٹل کے لیے فیورٹ کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ گو کہ اس ٹرافی کے لیے ٹاپ فیورٹ ابھی بھی انڈین ٹیم ہی ہے لیکن اگر محض حالیہ مختصر ریکارڈ کو ملحوظ رکھا جائے تو بعید نہیں کہ بہت مدت بعد کوئی نمایاں خوشی پاکستانی شائقین کو نصیب ہو سکے۔
ایشیا کپ سے قبل محسن نقوی کا پاکستانی کرکٹرز کو پیغام: ’کارکردگی اچھی نہیں رہی تو کوئی انعام نہیں ملے گا‘ایشیا کپ کے لیے انڈین ٹیم کا اعلان: پاکستان کے خلاف میچ پر کرکٹ بورڈ کو ’غداری‘ کے طعنے، کھلاڑیوں کو نظرانداز کرنے پر سلیکٹرز پر تنقیدایشیا کپ کے لیے پاکستانی سکواڈ کا اعلان: ’بابر اور رضوان کو ہمیشہ کے لیے ڈراپ نہیں کیا گیا‘عرفان پٹھان کا متنازع انٹرویو اور شاہد آفریدی پر حاوی ہونے کا دعویٰ: ’لالہ کبھی پیچھے نہیں ہٹا‘