Getty Imagesنیپال میں پیر کے روز سے شروع ہونے والے احتجاج کے دوران اب تک کم از کم 19 افراد ہلاک ہوئے ہیں
نیپال بھر میں پرتشدد احتجاج کے دوران کم از کم 19 افراد کی ہلاکت اور حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد پابندی ختم کرنے کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
دارالحکومت کھٹمنڈو میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر ہیں جنھوں نے نیپال کے سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کے گھر کو نذر آتش کرنے سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں کے گھروں پر حملے کیے ہیں۔
اس صورتحال کے بیچ نیپال کے وزیر داخلہ رمیش لیکھاک، وزیر صحت پردیپ پوڈل اور وزیر زراعت رام ناتھ ادھیکاری نے اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے تاہم نوجوان مظاہرین ملک کے وزیر اعظم کے پی اولی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق وزیر اطلاعات پریتھوی سبھا نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ سوموار کو رات گئے کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا تاکہ ’جنریشن زی کے مطالبات کو حل کیا جائے۔‘
دوسری جانب نیپال کے وزیر اعظم نے اس صورتحال کے پیش نظر
یاد رہے کہ سوموار کے روز ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور حکومت سے فیس بک، ایکس، یوٹیوب سمیت 26 میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ختم کرنے اور ملک میں جاری کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ دارالحکومت کھٹمنڈو کے علاوہ یہ مظاہرے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ہوئے، جن کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی۔
ان مظاہروں میں پولیس کے ساتھ تصادم میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
BBCنیپال کے سابق وزیر اعظم کا گھر نذر آتش کیے جانے کا منظر
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ان ہلاکتوں کی’آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف گولہ بارود کا استعمال کیا گیا جبکہ ڈاکٹروں نے بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی گئی۔
واضح رہے کہ سوموار کے روز جب مظاہرین نے پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں روکنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا تھا۔
کن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی گئی؟BBC News Nepaliسکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا
جمعرات کے روز نیپال کی حکومت نے مبینہ طور پر حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی پر ملک بھر میں 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا تھا۔
حکام نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو نیپال کی وزارت برائے کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ رجسٹر کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
جن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی گئی، ان میں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب شامل ہیں تاہم چند دیگر ایپس جیسے ٹک ٹاک اور وائبر ملک میں ابھی بھی کام کر رہے تھے۔
Getty Imagesسوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں سکولوں کے بچے بھی ان مظاہروں میں نظر آئے
حکومت کا کہنا ہے کہ فیک نیوز، نفرت انگیز مواد اور آن لائن فراڈ کی روک تھام کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی سے حکومت کو ریاست مخالف آن لائن مواد کنٹرول کرنے اور ہٹانے کے اختیارات مل جائیں گے۔
نیپال میں تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ افراد ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہیں جبکہ ان پر پابندی کی وجہ سے ملک میں متعدد ایسے کاروبار متاثر ہوئے جو ان سروسز پر انحصار کرتے ہیں۔
اگرچہ ان مظاہروں کی وجہ سوشل میڈیا پر پابندی بنی تاہم نوجوان طبقے میں ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے بارے میں بھی بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔
AFP via Getty Imagesبنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دی’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقبنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںشیخ حسینہ: بنگلہ دیش کو معاشی طاقت بنانے والی وزیرِ اعظم جن کا ’آمرانہ رویہ‘ عوامی غصے کا باعث بنا
نیپال میں اس سے قبل ایسے مظاہرے نہیں دیکھے گئے جن کا آغاز سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے ہوا اور ان کی قیادت ملک کے نوجوان طبقے نے کی ہو۔
مظاہرین میں سے زیادہ تر کا تعلق ’جین زی‘ سے ہے، یعنی ایسے نوجوان جو سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے۔
یہ اصطلاح پوری تحریک میں ایک علامت بن گئی ہے۔ اگرچہ ان مظاہروں کی کوئی مرکزی قیادت نہیں تھی تاہم نوجوانوں کے متعدد گروپس نے مظاہرین کو جمع کیا۔
Getty Imagesبہت سے مظاہرین نے سوشل میڈیا کی بندش کو آزادی اظہار پر پابندی اور سیات دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے جوڑا
نیپال کے اہم شہروں جیسے کھٹمنڈو، پوکھرا اور اتہاری کے کالجوں اور یونیورسٹیز سے طلبا کو ان مظاہروں میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں سکولوں کے بچے بھی ان مظاہروں میں نظر آئے۔ منتظمین نے بچوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے یونیفارم پہن کر اور کتابیں اٹھا کر احتجاج میں شریک ہوں۔
مظاہرین کے مطالبےBBC News Nepaliشبھانہ بدھاتھوکی کہتی ہیں کہ ’جین زی اب رکنے والی نہیں‘
19 برس کی طالبہ بینو کے سی نے بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ ’ہم ملک میں کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘
’سیاست دان انتخابات میں وعدے کرتے ہیں لیکن بعد میں انھیں پورا نہیں کرتے۔ یہ بہت سے مسائل کی وجہ ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کی بندش کی وجہ سے ان کی آن لائن کلاسز متاثر ہوئیں۔
شبھانہ بدھاتھوکی نے اپنے غصے کا اظہار کچھ ایسے کیا کہ ’جین زی اب رکنے والی نہیں۔‘
’یہ احتجاج سوشل میڈیا پر بندش سے کہیں زیادہ ہے، یہ ہماری آوازوں کو خاموش کرنے کے بارے میں ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘
کھٹمنڈو میں بہت سے مظاہرین ہاتھوں میں بینرز اٹھائے تبدیلی کے نعرے لگاتے نظر آئے۔
ان کے دو مطالبے واضح تھے: حکومت سوشل میڈیا پر سے پابندی ہٹا لے جبکہ حکام کرپشن کو ختم کریں۔
بہت سے مظاہرین نے سوشل میڈیا کی بندش کو آزادی اظہار پر پابندی اور سیات دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے جوڑا۔
’نیپو بیبی‘ کی اصطلاحBBC News Nepali’نیپو بیبی‘ اور ’نیپو کڈز‘ کی اصلاحات گذشتہ چند ہفتوں سے نیپال کے سوشل میڈیا پر خاصی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں
ان مظاہروں میں دو ہیش ٹیگ خاصے مقبول رہے: ’نیپو بیبی‘ اور ’نیپو کڈز۔‘
’نیپو‘ دراصل اقربا پروری کے لیے استعمال ہونے والی مختصر اصطلاح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کیسے اشرافیہ صرف اپنے خاندان کے فائدے کو دیکھتے ہیں۔
یہ اصلاحات گذشتہ چند ہفتوں سے نیپال کے سوشل میڈیا پر خاصی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں اور ایسی بہت سی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں سیاست دانوں کے شاہانہ طرز زندگی کو دیکھایا گیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان عوام کے پیسے پر شاہانہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ عام لوگ جدوجہد کرتے ہیں۔
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر وائرل ویڈیوز میں سیاسی خاندانوں کے شاہانہ طرز زندگی کا موازنہ عام لوگوں کی زندگی کے ساتھ کیا گیا۔ ان ویڈیوز کے مطابق اشرافیہ ڈیزائنر کپڑے، غیر ملکی دوروں اور لگژری گاڑیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ ملک کے نوجوانوں طبقے کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان مظاہروں کے نعرے عدم مساوات کے ساتھ ساتھ گہری مایوسی کی علامت بھی بن گئے۔
پارلیمنٹ میں کیا ہوا؟BBC
کھٹمنڈو میں کچھ مظاہرین پارلیمنٹ کی عمارت کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ وفاقی پارلیمنٹ کے احاطے میں توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔
نیپال کے وزیر اطلاعات پریتھوی سبھا نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے امن بحال کرنے کی کوششوں کے دوران مظاہرین ہلاک اور زخمی بھی ہوئے۔
زخمیوں کو مقامی ہسپتالوں میں لے جایا گیا جہاں لوگ پہلے سے جمع تھے۔
بی بی سی نے جن ڈاکٹروں سے بات کی انھوں نے بتایا کہ جن افراد کو یہاں لایا گیا انھیں براہ راست گولیوں اور ربڑ کی گولیوں کی وجہ سے زخم آئے۔
نیپال کے دیگر شہروں میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم پرتشدد ہو گیا۔
پولیس کے مطابق اتہاری میں پولیس کی فائرنگ سے دو مظاہرین ہلاک ہو گئے جس کے بعد وہاں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
دھارن شہر میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا۔
کشیدگی کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے متعدد اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
حکام نے اہم سرکاری عمارتوں کے گرد کرفیو نافذ کر دیا جبکہ سکیورٹی سخت کر دی گئی۔
’شیخ حسینہ نے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا‘: بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم کی آڈیو لیک کی تصدیقبنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے: ان والدین کا دکھ جنھوں نے اپنی اکلوتی اولاد کھو دیبنگلہ دیش کے طلبہ جو عمران خان اور اردوغان کی طرح مقبول سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیںبنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج شدت اختیار کر گیا: پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 25 ہلاک، ملک میں انٹرنیٹ سروس بھی معطلشیخ حسینہ: بنگلہ دیش کو معاشی طاقت بنانے والی وزیرِ اعظم جن کا ’آمرانہ رویہ‘ عوامی غصے کا باعث بنا