1971 کے بعد پہلی بار ڈھاکہ یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی جیت انڈیا کے لیے ’تشویش ناک‘ کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 11, 2025

بنگلہ دیش میں اگلے سال عام انتخابات ہوں گے لیکن اس سے قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی جیت نے ایک نئے رجحان کی جانب اشارہ کیا ہے جسے انڈیا میں تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کی ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج کا اعلان بدھ کو کیا گیا تھا جس میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے حمایت یافتہ پینل نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ دوسری جانب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے لیے یہ نتائج مایوس کن رہے۔

ماہرین کے مطابق 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اسلامی طلبہ تنظیم نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر منجری سنگھ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج کو جماعت اسلامی کے لیے بہت اہم سمجھتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ڈھاکہ یونیورسٹی کو بنگلہ دیش میں ایک بہت ترقی پسند یونیورسٹی سمجھا جاتا ہے اور جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے امیدواروں کی جیت کا مطلب ہے کہ ایک بنیاد پرست تنظیم نے ترقی پسند یونیورسٹی میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔‘

ماہرین کے مطابق جماعت اسلامی کو اس وقت بنگلہ دیش میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں فارن پالیسی کے نائب صدر پروفیسر ہرش وی پنت کہتے ہیں کہ ’اگر ہم معاشرے میں جماعت اسلامی کے کردار کو دیکھیں تو آج یہ ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر نظر آتی ہے، جب کہ اس سے قبل صرف دو بڑی سیاسی قوتیں جیسے عوامی لیگ اور بی این پی نظر آتی تھیں۔‘

پروفیسر ہرش وی پنت کا کہنا ہے کہ ’عوامی لیگ کا اب کوئی اثرورسوخ باقی نہیں ہے اور بی این پی میں قیادت کا بحران ہے۔‘

’اس پر غور کرتے ہوئے، یہ بالکل فطری بات ہے کہ ایک بنیاد پرست اسلامی جماعت کے طور پر، جماعت اس خلا کو پر کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ہم سیاست میں اس کا اثر ضرور دیکھیں گے۔‘

کیا بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اقتدار میں آ سکتی ہے؟

عام انتخابات سے قبل ملک کی بڑی یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کی جیت اس بات کا اشارہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بنیاد پرست اسلامی رہنماؤں کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔

ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات سے بنگلہ دیش کے سیاسی مزاج کے بارے میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے لیکن جماعت اسلامی نے عوامی لیگ اور بی این پی جیسی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا ہے۔‘

جنوبی ایشیائی ممالک میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر منجری سنگھ کہتی ہیں کہ ’آج کے دور میں کسی بھی ملک کی ترقی اور سیاست میں نوجوانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ایسی صورت حال میں ایک بنیاد پرست تنظیم کے یوتھ ونگ کی جیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کی نوجوان آبادی کا زیادہ تر حصہ اس تنظیم کے نظریے سے متفق ہے اور اس سے متاثر بھی ہو رہا ہے۔‘

ڈاکٹر منجری سنگھ کے مطابق ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی اکثریتی آبادی میں جماعت اسلامی نے اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔

دریں اثنا ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے پروفیسر آصف شاہان اس حمایت کی ایک الگ وجہ بتاتے ہیں۔

بنگلہ دیش کے اخبار دی بزنس سٹینڈرڈ کے ایک مضمون کے مطابق پروفیسر آصف شاہان کا کہنا ہے کہ ’بہت سے طلباء نے جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کے نمائندوں کو نظریاتی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ دوسری جماعتوں کی ناکامیوں سے مایوسی کی وجہ سے ووٹ دیا۔‘

کیا بنگلہ دیش سیکولرازم سے اسلام پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ذوالفقار علی بھٹو کا دورہِ بنگلہ دیش اور اثاثوں کی تقسیم کا تنازع: جب ڈھاکہ میں ’بھٹو ہمیں پاکستان لے چلیں‘ کے نعرے گونجےاسحاق ڈار کا دورۂ بنگلہ دیش: ڈھاکہ کا ’تاریخی مسائل‘ کے حل کا مطالبہ، پاکستان کے ساتھ چھ معاہدوں پر دستخطبنگلہ دیش پاکستان کی جانب سے ماضی میں مانگی گئی ’معافی‘ کو ناکافی کیوں سمجھتا ہے؟انڈیا کے لیے نشانیاں؟

پروفیسر ہرش وی پنت اور منجری سنگھ دونوں ڈھاکہ طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج کو انڈیا کے لیے تشویشناک سمجھتے ہیں۔

ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی نے جس طرح کا انڈیا مخالف ایجنڈا چلایا ہے وہ فطری طور پر انڈیا کے لیے تشویش کا باعث بنتا ہے۔‘

منجری سنگھ کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے، درحقیقت پاکستان میں اس کی جیت کو بہت سراہا گیا، میرے خیال میں وہاں بھی جماعت کے طلبہ ونگ کی جیت کو اسی طرح دیکھا جائے گا۔‘

ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورت حال میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی قیمت انڈیا بنگلہ دیش کے تعلقات کو بھی چکانی پڑے گی۔‘

ڈاکٹر منجری سنگھ کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی کے قیام کے بعد سے ہی اس کے اصول بہت بنیاد پرست رہے ہیں۔ یہ نہ صرف انڈیا بلکہ بنگلہ دیش میں بھی تشویش کا ایک بڑا سبب رہا ہے اور اسی وجہ سے بنگلہ دیش میں جماعت پر کئی بار پابندی لگائی گئی۔‘

پھانسیاں، الزامات اور البدر

2017 میں بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جماعتِ اسلامی کے چھ ارکان کو 1971 کی پاکستان کے خلاف جنگِ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے لیے موت کی سزا سنائی تھی۔

اس سے صرف ایک سال قبل جماعت اسلامی کے امیر 72 سالہ مطیع الرحمان نظامی کو سنہ 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب پر پھانسی دے دی گئی تھی۔

مطیع الرحمان نظامی 1971 میں جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم سے منسلک تھے اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے 'البدر' نامی ملیشیا کے کمانڈر کے حیثیت سے آزادی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی اعانت کی تھی۔

سنہ 2010 میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹرائبیونل نے مطیع الرحمان نظامی کے علاوہ جماعت اسلامی کے دیگر اہم رہنماؤں کو بھی پھانسی کی سزا سنائی تھی جن میں سے عبدالقادر ملّا، قمر الزماں سمیت کئی افراد کو تختہ دار پر لٹکایا بھی جا چکا ہے۔

تاہم ناقدین کی رائے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے جنگی جرائم کے ٹرائبیونل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بھی کہا تھا کہ اس عدالت کا طریقۂ کار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔

طلبہ یونین کے انتخابات کے نتائج اور دھاندلی کے الزامات

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد یہ طلبہ یونین کا پہلا الیکشن تھا اور طلبہ نے اس میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔

بنگلہ دیش کے اخبار دی بزنس سٹینڈرڈ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں شاہد محبوب اسلام لکھتے ہیں کہ ’اس الیکشن میں 78 فیصد ووٹنگ ریکارڈ کی گئی، حالانکہ کچھ جگہوں پر بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔‘

اسی مضمون میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے ڈویلپمنٹ سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر آصف شاہان نے کہا کہ ’معمولی بے ضابطگیاں تھیں لیکن 78 فیصد بہت بڑی تعداد ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

دی بزنس سٹینڈرڈ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی ڈھاکہ سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کے نتائج پر بہت پرجوش ہے اور عام انتخابات میں بھی ایسی ہی کارکردگی کی توقع کر رہی ہے۔

حمود الرحمان کمیشن: سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار کون؟بنگلہ دیش پاکستان کی جانب سے ماضی میں مانگی گئی ’معافی‘ کو ناکافی کیوں سمجھتا ہے؟ذوالفقار علی بھٹو کا دورہِ بنگلہ دیش اور اثاثوں کی تقسیم کا تنازع: جب ڈھاکہ میں ’بھٹو ہمیں پاکستان لے چلیں‘ کے نعرے گونجےکیا بنگلہ دیش سیکولرازم سے اسلام پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے؟پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے فوجی تعاون پر انڈیا کو تشویش کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More