طیارہ حادثے میں زندہ بچ جانے والی واحد مسافر کی کہانی: ’ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے، پھر اچانک گھپ اندھیرا ہو گیا‘

بی بی سی اردو  |  Sep 22, 2025

نیدرلینڈز کی اینیٹ ہرفکنز اپنے منگیتر کے ساتھ ویتنام میں واقع ایک رومانوی ساحلی تفریحی مقام پر جا رہیتھیں۔

یہ سنہ 1992 کی بات ہے۔ وہ میڈرڈ میں مالیاتی شعبے میں کام کرتی تھیں اور ان کے یونیورسٹی کے زمانے کے ہم جماعت ولیم، جنھیں وہ پاسجے کے نام سے پکارتی تھیں، سے دوری کے باوجود اچھے تعلقات تھے۔

جیسے ہی ان کا چھوٹا طیارہ ناہا تانگ ہوائی اڈے کے قریب پہنچا، اینیٹ اور ولیم نے محسوس کیا کہ یہ اچانک نیچے کی طرف جا رہا ہے۔

اینیٹ نے بی بی سی کے ’لائیو لیس آرڈینری‘ پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ ’میں نے انجن کے دوبارہ چلنے کی آواز سنی۔ جہاز پھر چلنا شروع ہوا، لوگ چیخ رہے ہیں۔ ولیم میری طرف دیکھتے اور میں ان کی طرف دیکھتی۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور پھر اس کے بعد اچانک گھپ اندھیرا ہو گیا۔‘

اس صورتحال کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ اینیٹ کے علاوہ تمام مسافر اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے۔

وہ آٹھ دن تک جنگل میں بے یار و مددگار پڑی رہیں۔ وہ چلنے کے قابل بھی نہیں تھیں۔ شدید زخمی ہونے کی وجہ سے انھیں بہت درد محسوس ہو رہا تھا۔ انھیں پانی کی کمی محسوس ہو رہی تھی اور اپنی محبت کے کھو جانے کا درد بھی تھا۔

ان کے مطابق اس دوران جو انھوں نے دیکھا اس نے انھیں تاریک ترین لمحات میں خوبصورتی تلاش کرنے کا فن سکھایا۔

جب ولیم نے اینیٹ کو سفر کے لیے قائل کیا

اینیٹ کہتی ہے کہ انھوں نے ولیم سے ملنا صرف اس لیے شروع کیا کیونکہ انھوں نے ایک چیلنجدے رکھا تھا۔

’ولیم نے مجھے کہا کہ ’میں ایک ایسی چیز جانتا ہوں جسے کرنے کی تم میں ہمت نہیں ہے۔ اور وہ تھی اسے چومنے کی ہمت۔‘

’اس وقت تک ہم پہلے ہی بہت اچھے دوست بن چکے تھے اور ہم طلبہ کے لیے مختص ایک ہی جگہ رہتے تھے۔‘

اینیٹ کے مطابق ڈیٹنگ کے فوراً بعد انھیں احساس ہوا کہ ان دونوں کے درمیان سچی محبت تھی۔

’ہم دونوں بیرون ملک جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے، لہٰذا ہم نے اپنے تعلقات کو طویل فاصلے تک جاری رکھنے اور جتنی بار ممکن ہو ایک دوسرے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔‘

سنہ 1992 تک ولیم ویتنام میں کام کر رہے تھے اور دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہاں ساتھ چھٹیاں گزاریں گے۔

اینیٹ مزید کہتی ہیں ’ہم کئی سالوں سے اکٹھے تھے۔ انھوں نے مجھے شادی کی پیشکش کی اور ہم اس پر بحث کر رہے تھے کہ ہم کہاں اور کیسے شادی کریں گے۔‘

’جب میں ویتنام پہنچی تو میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہاں ان کی زندگی کیسی ہے، ان کا دفتر کیسا ہے۔ انھوں نے ایک اچھے ڈچ شہری کی طرح صبح سات بجے سفر کا منصوبہ بنایا تھا۔‘

’مجھے اٹھنے میں تھوڑا تامل تھا کیونکہ میں مزید سونا چاہتی تھی۔ جب میں نے جہاز دیکھا تو میں نے کہا کہ میں اس پر نہیں جا رہی۔‘

’یہ بہت چھوٹا طیارہ تھا سوویت ساختہ یاک-40 اور مجھے ہمیشہ کلاسٹروفوبیا (بند جگہوں پر جانے یا بیٹھنے کا خوف) رہا ہے۔‘

ولیم نے اینیٹ سے کہا کہ ’میں جانتا تھا کہ آپ ایسا کہیں ہی گی مگر براہ کرم میرے لیے یہ سفر کر لیں۔‘

’گاڑی سے جانا ممکن نہیں تھا کیونکہ جنگل بہت گھنا تھا۔ اور وہ مجھ سے کہتے رہے کہ آپ کو اس سفر میں لطف آئے گا۔‘

’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟دوران پرواز مسافر کی موت ہو جائے تو جہاز میں لاش کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟’مجھے ہوائی جہاز میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اب یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا‘پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہائی جیکر 37 سال بعد رہا: عبدالمنان ’موزے میں پستول‘ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

اینیٹ کہتی ہیں وہ ولیم کے کہتے پر قائل ہوگئی کیونکہ سفر بھی صرف 55 منٹ کا ہی تھا۔

’میرا دل دھڑک رہا تھا ہم دوسری صف میں بیٹھ گئے۔‘

اینیٹ کے مطابق پھر اچانک لوگوں نے چیخنا شروع کر دیا، ولیم نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ ’مجھے کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔‘

’میں نے غصے میں جواب دیا کہ یہ صرف ہچکولے کھا رہا ہے اور چھوٹے جہاز میں ایسا محسوس ہونا عام سی بات ہے۔ پریشان مت ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

اینیٹ کہتی ہیں کہ ’پھر محسوس ہوا کہ شاید انجن دوبارہ سٹارٹ ہوا ہے اور پھر جہاز میں سوار افراد ایک بار پھر چیخنا شروع کر دیا۔‘

ان کے مطابق وہ پرواز کے دوران میں بہت بے چین تھیں۔

لینڈنگ میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے اور طیارے کا رخزمین کی طرف تھا۔ اس کے بعد اچانک ہر طرف اندھیرا ہو گیا۔

حادثے میں زندہ بچ جانے والی واحد مسافر

طیارہ حادثے کے بعد اینیٹ اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ: ’میری جب آنکھ کھلی تو میں جنگل کی آوازوں میں گھری ہوئی تھی۔ یہ جھینگر جیسے کیڑے مکوڑوں اور بندروں کی آوازیں تھیں۔‘

’میں نے اپنے اوپر سے کسی بھاری چیز کو ہٹایا۔ یہ ایک سیٹ تھی جس پر ایک مردہ مسافر تھا۔ میرے دھکا دینے سے لاش سیٹ سے نیچے گر گئی۔‘

’میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا اور ولیم وہاں تھا۔ وہ ابھی تک اپنی سیٹ سے بندھے ہوئے تھے، ان کے چہرے پر ایک میٹھی مسکراہٹ تھی لیکن وہ یقینی طور پر مر چکے تھے۔‘

اینیٹ اس لمحے میں صدمے میں چلی گئیں اور انھیں اس کے بعد کے واقعات تک یاد نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ میں باہر نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئی۔ میری ٹانگیں ٹوٹ گئیں، میرے کولہوں میں 12 فریکچر تھے، ایک پھیپھڑا ضائع ہو گیا تھا اور جبڑا بھی ٹوٹ گیا تھا۔‘

یہ طیارہ دراصل ایک پہاڑ سے ٹکرایا تھا جس کے سبب اس کا ایک پر ٹوٹ گیا اور پھر یہ ایک دوسرے پہاڑ سے ٹکرا کر الٹ گیا۔

اینیٹ ان حالات کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ٹوٹے ہوئے ہوائی جہاز کے باہر ہریالی تھی، بہت سبزہ تھا۔ مجھے کچھ بڑی سرخ چیونٹیاں یاد ہیں۔ شاخیں، پتے اور میری ننگی ٹانگیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا سکرٹ کہاں تھا۔‘

’ولیم کی ٹانگ پر ایک بڑا زخم تھا اور ان کی ہڈی کو بھی دیکھ سکتی تھی، کیڑے پہلے ہی اس کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔‘

اینیٹ کے مطابق اس دوران انھوں نے دائیں طرف ایک ویتنامی آدمی کو دیکھا، جو نہ صرف زندہ تھا بلکہ کچھ بول بھی رہا تھا۔

’میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں لگتا ہے کہ انھیںبچانے کوئی آئے گا؟ اس شخص نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ وہ بہت اہم آدمی ہے۔‘

’انھوں نے دیکھا کہ میں برہنہ ٹانگوں کی وجہ سے شرمندہ ہوں تو انھوں نے ایک چھوٹے سے بیگ میں سے پتلون نکال کر مجھے دے دی۔‘

اینیٹ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس پتلون کو بہت تکلیف میں پہنا، یہ عمل شاید یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے ہم ہر طرح کے غیرمعمولی حالات میں بھی اپنی ظاہری حلات کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ ‘

’دن کے اختتام پر میں نے اس آدمی کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھا، ان کے جسم میں زندگی ختم ہوتی رہی، پھر ان کا سر ایک طرف لڑھکا اور وہ مر گیا۔‘

’پہلے تو میں نے کچھ لوگوں کی درد کی آہیں سنیں۔ لیکن جب رات ہوئی تو تمام آوازیں بند ہو گئیں۔ میں جنگل میں بالکل اکیلی رہ گئی تھی۔‘

جنگل

اینیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ویتنامی مسافر بھی مر گیا تو وہ مزید گھبرا گئیں۔

’مجھے اپنی سانسوں پر توجہ مرکوز کرنی تھی۔ میں نے کبھی اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مراقبہ، کلاسیں یا تربیت لے رکھی تھی ۔ اس تربیت نے میری بہت مدد کی۔‘

اینیٹ صورتحال کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ ’میں نے حال پر توجہ مرکوز کی اور اپنے ذہن کو اس سے بھی زیادہ تباہ کن منظرناموں کی طرف بھٹکنے سے روکا جیسے آگے ’کیا ہوگا اگر شیر آجائے؟‘

’ظاہر ہے یہ سب اور بہت کچھ میرے ذہن میں آیا۔ میں جنگل میں تھی اور یہاں اس سب کا ایک حقیقی امکان بھی موجود تھا۔‘

’ولیم کے بارے میں مت سوچو‘

’میرے پاس پاسجے کی موت سے خود کو الگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

اینیٹ کے مطابق ’مجھے واقعی لگتا ہے کہ ہم ایک بہترین جوڑا ہوتے۔ ہم بہترین دوست تھے۔ وہ ایک پیارا، بہت پرجوش انسان تھا۔‘

لیکن اینیٹ کو ان ساری باتوں کو نظرانداز کرنا پڑا کیونکہ وہ اس صورتحال میں کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھیں۔

’میں نے اسے دوبارہ دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کی۔ ’ولیم کے بارے میں مت سوچو‘ بس میں خود کو یہی بتا رہی تھی۔‘

اینیٹ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس دوران اپنی توجہ جنگل کی خوبصورتی پر مرکوز کر رکھی تھی۔ اسی دوران انھیں نارنجی رنگ کے لباس میں ملبوس ایک شخص نظر آیا۔

’میں نے انکھیں کو مسلا اور ایک بار پھر دیکھا وہاں یقیناً ایک شخص تھا جس کا چہرہ کافی خوبصورت تھا۔‘

’میں نے چیخنا شروع کر دیا اور کیونکہ یہ میرا وہاں سے بچ نکلنے کا ٹکٹ تھا۔‘

اینیٹ کہتی ہیں کہ انھوں نے چیخ کر کہا ’کیا آپ میری مدد کر سکتے ہو؟ وہ تھوڑی دور تھا اور مجھے بس دور سے گھورتا رہا۔‘

’پھر اچانک ہو غائب ہو گیا اور مجھے ایسا لگا جیسے وہ بس میرے دماغ کا ایک خیال تھا۔‘

لیکن اگلے دن وہ واپس آگیا اور ان کے اس ساتھ کچھ لوگ بھی تھے۔

ریسکیو

ان لوگوں نے اینیٹ کو ایک فہرست دکھائی جس پ ان کا اپنا نام بھی لکھا تھا۔

اینیٹ کہتی ہیں کہ ان افراد نے انھیں ایک بوتل سے پانی کا ایک گھونٹ دیا اور پھر ایک چارپائی پر اُٹھا کر جنگل سے باہر لے گئے۔

نیدرلینڈز واپسی

’ہم نے جنگل کے بیچ میں ڈیرہ ڈالا اور اس دوران مجھے شدید تکلیف ہونا شروع ہو گئی۔‘

لیکن اینیٹ کہتی ہیں کہ انھیں بچانے والے لوگ بہت مہربان تھے اور انھوں نے انھیں کھانے کے لیے چاول بھی دیے۔

پھر یہ افرااد اینیٹ کو شہر لے گئے جہاں انھوں نے ولیم کے بھائیوں اور اپنی والدہ کو دیکھا۔

’پھر میری ماں آگئیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ ’آپ یہاں مجھ سے ملنے آئی ہیں؟‘

اس کے بعد اینیٹ کو واپس نیدرلینڈز لے جایا گیا جہاں اخبارات میں ان کی وفات کی خبریں چھپ چکی تھیں۔

اینیٹ کہتی ہیں کہ ان خبروں لو دیکھ کر ان کے گھر والے بھی ہمت ہار چکے تھے لیکن ان کے دوست جمائم نے ہار نہیں مانی۔ ان ہی قائل کرنے کے سبب اینیٹ کو ڈھونڈنے ان کے گھر والے ویتنام پہنچے تھے۔

’جب میں نیدرلینڈ واپس آئی تو میرا جبڑا خراب ہو چکا تھا اور میرا پھیپھڑا پھول گیا تھا۔‘

تاہم ویتنام میں ڈاکٹروں نے ان کی صحت پر خاصی توجہ دی تھی۔ اینیٹ کو نیدرلینڈز میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ’اگر ویتنام میں ڈاکٹروں نے ان کی ٹانگوں پر توجہ نہ دی ہوتی تو شاید آپ کی ٹانگیں بھی کاٹنی پڑ سکتی تھیں۔‘

اینیٹ کہتی ہیں کہ ’میں ویتنام کے لوگوں کی بہت شکر گزار ہوں۔‘

شدید ٹربیولینس میں ہوائی جہاز کو اڑانا کتنا مشکل ہوتا ہے؟جہاز کا ایمرجنسی دروازہ کھول کر ونگ پر چلنے والا شخص، جسے ساتھی مسافروں نے خوب سراہاامریکی پائلٹ جس نے مشرومز کے نشے میں دورانِ پرواز جہاز کے انجن بند کرنے کی کوشش کیدس آبدوز شکن جنگی جہاز بحری بیڑے میں شامل کرنے کا منصوبہ: انڈین نیوی کی عسکری طاقت ہے کتنی؟’ہمارے پاس چند ہی سیکنڈز کا وقت تھا‘: پرتگالی کارگو جہاز امریکی فوج کے لیے ایندھن لے جانے والے بحری جہاز سے کیسے جا ٹکرایا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More