فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی وادی تیراہ میں ایک حملے میں 23 افراد کی اموات ہوئی ہیں۔اے ایف پی نے پولیس اور سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یہ واقعہ پیر کو تیراہ کے اس علاقے میں پیش آیا جہاں عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور انہوں نے پاک افغان شاہراہ پر دھرنا دے دیا۔حزب اختلاب کے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے سلسلے میں رات کو یہ حملہ کیا ہے۔تاہم حکومت یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے اس واقعے پر تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔دوسری جانب وزیراعلی کے پی نے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لیے ایک ایک کروڑ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا۔واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ چند ماہ کے دوران افغانستان سے متصل صوبہ خیبرپختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے خلاف اپنے حملوں میں تیزی لائی ہے۔رکن قومی اسمبلی اور حزب اختلاف کے ایک رہنما اقبال آفریدی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’بمباری کرنے والے جہاز سکیورٹی فورسز کے تھے جس کے نتیجے میں 23 افراد کی جان چلی گئی۔‘اس کے علاوہ خبیر پختونخوا اسمبلی میں سہیل خان آفریدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حملہ سویلین پر حملے کے مترادف ہے۔‘ان دونوں ارکان اسمبلی کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔تیراہ میں تعینات ایک سینیئر پولیس آفیسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں چار بچے اور سات خواتین بھی شامل ہیں تاہم انہوں نے یہ نہیں واضح کیا کہ یہ حملہ کس نے کیا ہے۔ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لئے ایک ایک کروڑ روپے معاوضوں کا اعلاندریں اثنا وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے تیراہ ضلع خیبر کے وفد نے ملاقات کی۔وزیراعلی ہاؤس کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں ایم این اے اقبال آفریدی، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، کمشنر پشاور اور دیگر متعلقہ حکام بھی ملاقات میں موجود تھے۔ملاقات میں تیراہ میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کے تناظر میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔وزیر اعلی کا واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے لئے ایک ایک کروڑ روپے معاوضوں کا اعلان کیا۔علی امین نے کہا کہ واقعے میں عام شہریوں کی شہادت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔’دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی شہادت ناقابل قبول ہے۔‘