پیپلز پارٹی کے اراکین کی اپنی حکومت پر کھلی تنقید، سرفراز بگٹی کو خطرہ ہے؟

اردو نیوز  |  Sep 30, 2025

بلوچستان میں برسر قتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر اور رکن اسمبلی نے وزیراعلٰی سرفراز بگٹی پر کڑی تنقید کی ہے اور الزامات عائد کیے ہیں جبکہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رکن نے بھی کھل کر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

بلوچستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت ہے جس کی قیادت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میر سرفراز احمد بگٹی کر رہے ہیں تاہم اب انہیں اپنی ہی جماعت کے اندر سے مخالفت کا سامنا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ میر لیاقت لہڑی نے اسمبلی اجلاس اور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعلٰی، وزراء اور پارلیمانی سیکریٹریوں کے محکموں میں مداخلت  کر رہے ہیں۔ وزراء اور ارکان اسمبلی کو فیصلہ سازی میں اعتماد میں نہیں لیا جا رہا اور سارے معاملات سول اور وزیراعلٰی سیکریٹریٹ کے چار بیوروکریٹس سے چلائے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہے، لوگوں سے روزگار چھینا جا رہا ہے، صرف دعوے کیے جاتے ہیں لیکن عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

انہوں نے صدر مملکت آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان کے حالات پر خصوصی توجہ دیں اور خود آ کر دیکھیں کہ ’صوبے میں کس قدر مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔‘

صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے صوبائی وزیر زراعت علی حسن زہری نے بھی وزیراعلٰی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ حب میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب اور واٹس ایپ گروپس میں اپنے وائس پیغامات میں انہوں نے کھل کر اختلافات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلٰی تمام فنڈز اپنے علاقے بیکڑ میں خرچ کررہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور پارٹی کے اندر اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی پیپلز پارٹی کے پاس جا کر کہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ن لیگ والوں سے کہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ کے آٹھ آٹھ سینیٹرز کامیاب کراؤں گا لیکن حقیقت میں یہ کسی کے ساتھ نہیں۔ صرف اپنے مفاد کے ساتھ ہے۔ علی حسن زہری نے وزیراعلیٰ پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے۔‘

دوسری جانب ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سینیئر رہنماء رکن صوبائی اسمبلی نواب جنگیز مری نے بھی وزیراعلیٰ سے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’ہمیں زبردستی اتحادی بنایا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ہمت کی ہے کہ اپنی آواز بلند کی، مسلم لیگ میں ابھی یہ ہمت نہیں۔‘ ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر وزیراعلٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو کیا ساتھ دیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’سو فیصد۔‘

تجزیہ کار عرفان سعید سمجھتے ہیں کہ وزیراعلٰی کی تبدیلی کی خبریں خواہشات پر مبنی ہیں۔ فوٹو: اے پی پیتاہم ن لیگ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے اختلافات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلٰی کہیں نہیں جا رہے۔ ساٹھ پینسٹھ ارکان میں ایک دو کے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ہم سب اتحادی وزیراعلٰی کے ساتھ ہیں۔‘

وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کی جانب سے ان تمام بیانات پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری ربانی کاکڑ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے پارٹی رہنماؤں کے اختلافی بیانات کا نوٹس لیا ہے اور دونوں فریقین کو طلب کر لیا ہے۔

ان کے مطابق ’جمہوری پارٹیوں میں اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس کے اظہار کے لیے فورمز موجود ہیں۔ پارٹی نے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ بیان بازی کے بجائے متعلقہ فورمز پر اپنے تحفظات اور شکایات پیش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اختلافات اتنے سنگین نہیں۔ ہم مل بیٹھ کر مسائل حل کرلیں گے۔‘

بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ یہ اختلافات نظریاتی نہیں بلکہ زیادہ تر ترقیاتی فنڈز اور اختیارات کے گرد گھومتے ہیں۔

ان کے مطابق علی حسن زہری نے وزیراعلٰی پر پارٹی کو توڑنے جیسے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ اگر الزامات درست ہیں تو آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو نوٹس لینا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی ہونی چاہیے کیونکہ بیان بازی سے  پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ کئی حکومتیں غیرمستحکم رہی ہیں۔ ایک دہائی کے دوران دو وزرائے اعلٰی کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اندرونی اختلافات کی خبریں سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر وزیراعلٰی کی تبدیلی پر بحث کی جا رہی ہے تاہم شہزادہ ذوالفقار کا خیال ہے کہ فی الحال وزیراعلٰی کی تبدیلی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

علی حسن زہری نے وزیراعلٰی پر پارٹی کو توڑنے جیسے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پیانہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے اندر اٹھنے والی آوازیں اس وقت تک وزیراعلٰی کے لیے خطرہ نہیں جب تک پارٹی کی مرکزی قیادت نہ چاہے۔‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان سعید  بھی سمجھتے ہیں کہ وزیراعلٰی کی تبدیلی کی خبریں حقیقت سے زیادہ خواہشات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اصل اختلافات فنڈز، نوکریوں، اختیارات اور زمینوں کی تقسیم جیسے معاملات پر ہیں۔ اس بار وزرا اور اراکین کو پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کم فنڈز ملے ہیں۔

’پہلے  تین سے چار ارب روپے ترقیاتی فنڈز ملتے تھے اس بار کسی کو 65 کروڑ سے زائد نہیں ملے۔ یہ سب کچھ جن طاقتور قوتوں کے کہنے پر ہوا ان کے خلاف کہنے کی کسی کی جرأت نہیں اور سارا ملبہ وزیراعلیٰ پر ڈالا جا رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کا کردار محدود ہو چکا ہے۔ طاقت کا محور اب مقتدرہ ہے ان کی مرضی کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اس وقت صوبے میں امن و امان کا چیلنج سب سے بڑا ہے۔ جس میں وزیراعلٰی اکیلے فرنٹ پر کھڑے نظر آتے ہیں اور باقی وزراء خاموش نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں مقتدرہ اور نہ ہی دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ بلوچستان میں کسی سیاسی بحران کا رسک لے سکتے ہیں۔

میر لیاقت لہڑی 2024 کے عام انتخابات میں پہلی بار آزاد حیثیت سے کوئٹہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ فائل فوٹوعلی حسن زہری صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں اور دسمبر 2024 میں کراچی سے متصل بلوچستان کے شہر حب سے پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان کی اہلیہ اور ہمشیرہ بھی سینیٹر ہیں۔ ان کا ماضی تنازعات کا شکار رہا  ہے۔

علی حسن زہری کے سرفراز بگٹی کے ساتھ اختلافات پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ وزارت کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے ترقیاتی فنڈز نہ ملنے پر وزیراعلٰی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ فروری 2025 میں دونوں کے درمیان وزیراعلٰی ہاؤس میں تلخ کلامی تک نوبت آ گئی تھی۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے نوٹس لے کر تمام ارکان اسمبلی کو کراچی طلب کر لیا تھا۔

میر لیاقت لہڑی 2024 کے عام انتخابات میں پہلی بار آزاد حیثیت سے کوئٹہ سے کامیاب ہوئے تھے اور بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ وہ بلوچستان کے معروف ٹرانسپورٹر ہیں۔ ان کے پاس پارلیمانی سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ کا عہد ہ ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More