خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے علیمہ خان کے بارے میں ایک نئے بیان سے نہ صرف پی ٹی آئی میں اختلافات سامنے آئے ہیں بلکہ ایک نیا تنازعہ بھی کھڑا کردیا ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے 30 ستمبر کی رات کو ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے اڈیالہ میں بانی چئیرمین عمران خانکے ساتھ 29 ستمبر کو ہونے والی اپنی ملاقات کا احوال بیان کیا مگر ان تمام باتوں میں سب سے اہم علیمہ خان پرعائد کیے گئے الزامات تھے۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو پارٹی کے اندر اختلافات اور سازشوں سے متعلق آگاہ کیا اور بتایا کہ علیمہ خان کو ایجنسیاں سپورٹ کر رہی ہیں، وہ پارٹی کو تقسیم کررہی ہیں تاکہ عمران خان کی آزادی کی تحریک متاثر ہو۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’علیمہ خان کی نگرانی میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی جا رہی ہے اس کے علاوہ ان کو چئیرپرسن بنانے سے متعلق بھی سوشل میڈیا پر باتیں کی جا رہی ہیں اور ان کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان سے کہا کہ اگر آپ علیمہ خان کو پارٹی کی سربراہ بنانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں سب کے لیے قابل قبول ہو گا مگر ان باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
ان کے مطابق ’عمران خان کو اپنے خلاف سازشوں کا بھی بتایا کہ انہیں غدار کہا گیا حالانکہ حقیقت میں ان کی رہائی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔‘
علیمہ خان کا ردعمل گزشتہ روز عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’علی امین گنڈا پور نے جیل میں عمران خان سے میری شکایت لگائی کہ میں پارٹی کا چیئرپرسن بننا چاہتی ہوں اور یہ بھی الزام عائد کیا کہ سوشل میڈیا میرے کنٹرول میں ہے۔‘علیمہ خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پارٹی کا چیئرمین صرف عمران خان ہیں اور وہی رہیں گے۔‘ انہوں نے نہ صرف ان تمام الزامات کو مسترد کیا بلکہ علی امین گنڈا پور سے ان باتوں کے ثبوت بھی مانگے۔علی امین گنڈا پور نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد ویڈیو بیان میں علیمہ خان پر الزامات لگائے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور سے ان کے ثبوت بھی مانگے۔
علیمہ خان پارٹی کی سربراہ بن سکتی ہیں؟
اس پر سینیئر تجزیہ کار شمیم شاہد کا موقف ہے کہ علیمہ خان کا کوئی سیاسی بیک گراونڈ نہیں ہے نہ وہ سیاست میں آنا چاہتی ہیں بلکہ وہ اپنے بھائی کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کے مطابق ’اگر پی ٹی آئی کو کوئی کنٹرول کر رہا ہے وہ علی امین گنڈا پور ہے نہ بیرسٹر گوہر، جبکہ کوئی ایسا رہنما بھی موجود نہیں جو علی امین گنڈا پور کے سامنے کھڑا ہو سکے۔‘
شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ ’گنڈا پور جو موقف اپنا رہے ہیں وہی پارٹی کا ہو گا کیونکہ ان کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے اور پارٹی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بیشتر کارکنوں کو علی امین گنڈا پور پر اعتماد نہیں ہے اس لیے اب وہ الزامات لگا کر علیمہ خان کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن درحقیقت میں ایسا نہیں لگتا۔
علیمہ خان نے علی امین گنڈا پور کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ثبوت مانگے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ علیمہ خان سیاست میں نہیں آئیں گی اور نہ ہی دوسری بہنوں کا کوئی ارادہ لگتا ہے۔
شمیم شاہد کے مطابق’ پارٹی میں اسد قیصر اور شہرام ترکئی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اسی لیے صوابی سے تعلق رکھنے والے دو وزیروں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس سے عیاں ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید اختلافات کھل کر سامنے آئیں گے۔‘
’کس کا پلڑابھاری ہے فیصلہ عمران خان کریں گے‘
سینیئر صحافی محمود جان بابر اس بارے میں کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے بیان سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ پارٹی میں شدید اختلافات اور تقسیم پائی جاتی ہے، دوسری بات یہ کہ جن کے ساتھ پی ٹی آئی کی لڑائی ہے ان کے بندے پارٹی کے اندر موجود ہیں، اس لیے الزامات میں کسی حد تک سچائی تو ہے۔
ان کے مطابق ’اچانک علی امین گنڈاپور کو جیل میں ملاقات کی اجازت مل گئی اور پھر اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر ریاستی ادارے کا نام لے کر علیمہ خان پر الزام لگانا سوالیہ نشان ہے۔‘
شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ ’گنڈا پور کارکنوں کو اعتماد نہیں اس لیے وہ علیمہ خان کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ (فوٹو: پی ٹی آئی سوشل میڈیا)
محمود جان کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈاپور اور علیمہ خان میں کس کا پلڑا بھاری ہوگا اس کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔
ان کے خیال میں پارٹی کے اندر یہ رسہ کشی تب تک چلے گی جب تک عمران خان رہا نہیں ہو جاتے۔