اسرائیلی بحریہ نے غزہ کی طرف امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا پر کارروائی کرتے ہوئے اس کے جہازوں کو گھیر لیا ہے۔ فلوٹیلا کے منتظمین کے مطابق اسرائیلی فوجی ایک جہاز میں داخل ہوگئے اور وہاں موجود تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔ شریک ارکان نے بتایا کہ اسرائیلی جنگی جہازوں نے خاص طور پر ’’الما‘‘ اور ’’سائرس‘‘ نامی کشتیوں کو گھیر رکھا تھا جبکہ منتظمین پہلے ہی اپنے جہازوں پر ایمرجنسی نافذ کر چکے تھے۔
اسرائیلی فوج کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں ریڈیو کے ذریعے فلوٹیلا کو خبردار کیا گیا کہ اگر وہ امداد پہنچانا چاہتے ہیں تو اپنا رخ اشدود کی بندرگاہ کی طرف کر لیں جہاں سے سامان کو غزہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ وزارتِ خارجہ اسرائیل کا بھی کہنا ہے کہ فلوٹیلا وار زون میں داخل ہو رہا ہے اور اسے راستہ بدلنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
فلوٹیلا کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے رکن تیاغو اویلا نے اپنے جہاز سے جاری آڈیو پیغام میں کہا کہ یہ مشن فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور وہ اسرائیلی ناکہ بندی کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ان کے بقول اسرائیلی بحری جہازوں کی بڑی تعداد موقع پر موجود ہے اور یہ وہی صورتحال ہے جس کی پیش گوئی اسرائیلی میڈیا نے پہلے ہی کی تھی۔
عرب صحافیوں کے مطابق کم از کم 12 اسرائیلی بحری جہاز فلوٹیلا کے قریب موجود ہیں جو تقریباً 4 بحری میل کے فاصلے پر ہیں۔ قبل ازیں فلوٹیلا کی ویب سائٹ پر بتایا گیا تھا کہ بیڑہ اس وقت غزہ سے 118 بحری میل کی دوری پر ہے، جو اس مقام کے قریب ہے جہاں جون میں امدادی جہاز ’’میڈلین‘‘ اسرائیلی فوج نے قبضے میں لے لیا تھا۔
ترک خبر رساں ادارے کے مطابق جہاز ’’الما‘‘ پر موجود کارکنان نے بتایا کہ رات بھر ڈرونز پرواز کرتے رہے جبکہ صبح پانچ بجے اس جہاز کے جی پی ایس اور انٹرنیٹ پر سائبر حملہ ہوا جس سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ترک کارکن متیہان ساری کے مطابق یہ اب تک کی سب سے بڑی دھمکی تھی لیکن وہ خوفزدہ نہیں ہوئے۔ ان کے مطابق اسرائیلی جنگی جہاز ’’الما‘‘ سے صرف پانچ سے دس میٹر کی دوری تک آگئے تھے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلوٹیلا کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی ریاستوں کی بے عملی کے باعث کارکنان کو پرامن طور پر محاصرہ توڑنے کی کوشش کرنا پڑ رہی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں محفوظ راستہ دیا جائے اور اسرائیلی محاصرہ ختم ہو۔
واضح رہے کہ اس فلوٹیلا میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شریک ہیں۔