برطانیہ سے ’چوری شدہ‘ رینج روور کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف: ’یہ گاڑی یقینی طور پر زمینی راستے سے تو آئی نہیں ہو گی‘

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2025

Getty Imagesبرطانیہ میں رینج روور چوری ہونے والی گاڑیوں میں سرفہرست بتائی جاتی ہے (فائل فوٹو)

برطانیہ سے ’چوری‘ ہونے والی ایک بیش قیمت گاڑی رینج روور سپورٹس کی کراچی میں موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

برطانوی پولیس کے مطابق سیاہ رنگ کی رینج روور 22 نومبر 2022 کو نارتھ یارکشائر کے علاقے ہیروگیٹ برطانیہ سے چوری ہوئی تھی۔

انٹر پول نے ایک خط کے ذریعے حکومت پاکستان کو اس گاڑی کی کراچی میں موجودگی سے آگاہ کیا، جس کے بعد انٹرپول کے مقامی رابطہ کارنیشنلسینٹرل بیورو (این سی بی)نے کراچی پولیس کو تحریری طور پر اس سے آگاہ کیا۔

برطانوی پولیس نے بیورو کو رینج روور سپورٹس کی چوری کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ اس گاڑی کے کراچی کے علاقے صدر میں موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔

برطانیہ کی جانب سے فراہم کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گاڑی میں ٹریکر نصب تھا جس سے پتا چلا کہ گاڑی کراچی میں کورنگی سروس روڈ، اعظم بستی، صدر ٹاؤن میں دیکھی گئی ہے۔

خیال رہے کہ سنہ 2022 میں بھی ایک مہنگی گاڑیبینٹلے ملسین وی ایٹ آٹومیٹک کے لندن سے چوری ہونے کے بعد کراچی موجودگی کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

کسٹمز نے اس وقت اس کی قیمت 30 کروڑ سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس وقت حکام نے بتایا تھا کہ ایک غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر کسٹم اہلکاروں نے کراچی کے علاقے ڈیفنس سے یہ گاڑی قبضے میں لی تھی۔ پولیس نے چوری کے الزام میں دو افراد کو بھی حراست میں لیا تھا۔

حکام کا کہنا تھا کہ اس گاڑی کو کراچی میں غیر قانونی طور پر رجسٹر بھی کروا لیا گیا تھا، حالانکہ ایسی گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے وزارت خارجہ اور کسٹمز سے بھی منظوری لینا ضروری ہوتی ہے۔

’انٹر پول سے مزید تفصیلات طلب کی ہیں‘

کراچی میں ایس ایس پی امجد شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے انٹرپول سے اس معاملے میں مزید تفصیلات طلب کی ہیں کیونکہ صرف اسے ٹریکر کی ایک لوکیشن پر تلاش کرنا مشکل ہو گا، لہذا ان سے ٹریکنگ لاگ طلب کیا گیا ہے تاکہ اس تک رسائی حاصل کی جائے۔

ان سے پوچھا گیا کہ اس پر قانونی کارروائی کیا ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ گاڑی برآمد ہونے کی صورت میں چوری کی ایف آئی آر درج ہو گی، جو ملزمان نامزد ہوں گے انھیں گرفتار کیا جائے گا اور عدالت کے ذریعے گاڑی اصل مالک کے حوالے کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گاڑی یقینی طور پر زمینی راستے سے تو آئی نہیں ہو گی کسی نہکسی بندرگاہ سے روانہ ہوئی اور کراچی پہنچی ہے۔‘

اُن کے بقول سوال یہ بھی ہے کہ اس کے کاغذات کی جانچ پڑتال وہاں کیوں نہیں کی گئی۔

نومبر 2023 میں بلومبرگ نے اپنی ایک رپورٹ میں رینج روور چوری کو برطانیہ میں سب سے زیادہ چوری ہونے والی گاڑیوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔

برطانوی میڈیا کے مطابق 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بازیاب کرائی جانے والی چوری شدہ گاڑیوں میں اکثریت رینج روور اور لینڈ روور ماڈلز پر مشتمل تھی۔

جیگوار لینڈ روور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایڈرین مارڈیل نے اس بات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی کمپنی کی گاڑیاں زیادہ چوری ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔

گذشتہ برس فروری میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈرین مارڈیل کا کہنا تھا کہ ’رینج اوور برطانیہ کی سب سے زیادہ چوری ہونے والی گاڑی نہیں ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں دوسری کمپنیوں کی گاڑیاں بھی چوری ہوتی ہیں، لیکن صرف رینج روور کو نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔

لاکھوں ڈالر کی فراری ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران چوریآپ اپنی گاڑی کو چوری ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟جدید گاڑیاں صرف 10 سیکنڈ میں چوری کرنا ممکنلاکھوں ڈالر کی فراری ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران چوریچوری کی کار کراچی کیسے پہنچی تھی؟

سنہ 2022 میں بینٹلے ملسین وی ایٹ آٹومیٹک کراچی سے ملنے کے معاملے پر بی بی سی نے پاک وہیلز کے شریک بانی سنیل منج سے بات چیت کی تھی۔

سنیل منج کا کہنا تھا کہ ’یہ گینگ‘ کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ جہاں سے بھی گاڑی آتی ہے وہاں پہلے چوری رپورٹ نہیں کی جاتی کیونکہ جس ملک سے گاڑی نکل رہی ہے اور جس ملک میں آ رہی ہے دونوں میں اس کا سٹیٹس چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کے کاغذات پورے ہیں اور کہیں یہ اُس ملک میں چوری شدہ تو نہیں ہے۔

ان کا خیال ہے کہ اگر یہ کار واقعی چوری کی ہوتی تو سسٹم میں درج ہونے کے باعث یہ بندرگاہ پر ہی ضبط کر لی جاتی۔

سنیل کے مطابق 'کار لندن میں تھی، جب تک یہاں (پاکستان میں) شفٹ ہوئی تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ چوری کی ہے۔ یہاں جب کار کلیئر ہو گئی تو لندن میں چوری کی اطلاع دی گئی تاکہ انشورنس کا دعویٰ ہوسکے۔'

انھوں نے کہا کہ جو بھی گروہ یہ کام کرتا ہے وہ عام طور پر پہلے گاڑی دوسرے ملک منتقل کرتا ہے اور پھر جب اس ملک کی بندرگاہ پر گاڑی کلیئر ہو جائے تو اس کے بعد وہ اس ملک میں چوری رپورٹ کر دیتے ہیں اور پھر وہ ملک اس کی کھوج شروع کرتا ہے۔

سنیل منج کے مطابق یہ کوئی پہلا کیس نہیں بلکہ ایسی کئی گاڑیاں پاکستان میں رجسٹر ہوئی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ 'سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کار نان کسٹم نہیں تھی بلکہ کسی سفارتخانے کے کاغذات پر کلیئر ہوئی تھی۔ 'سفارتکاروں کو ڈیوٹی فری کار کی اجازت ہوتی ہے کہ جتنے برسوں کے لیے وہ قیام کریں گے اس کے لیے ڈیوٹی فری کار کی اجازت ہوتی ہے۔'

ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے حالات کے پیش نظر یہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ ان کاروں کے ذریعے کسی اصل مجرم تک پہنچنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔

’30 کروڑ کی چوری شدہ کار لندن سے کراچی کیسے پہنچی؟‘کراچی میں سٹریٹ کرائم کی بڑھتی وارداتیں: ’کہاں سے 90 ہزار لائیں اور نئی بائیک خریدیں‘آپ اپنی گاڑی کو چوری ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟جدید گاڑیاں صرف 10 سیکنڈ میں چوری کرنا ممکن
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More