چین کے ’خطرناک‘ سنکیانگ خطے میں 30 کروڑ سیاح: ’والدین نے اس علاقے کے قریب سے بھی گزرنے سے منع کیا تھا‘

بی بی سی اردو  |  Nov 05, 2025

Getty Images

جب اینا 2015 میں سنکیانگ کے پہلے دورے کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں تو ان کے دوست حیران رہ گئے۔ ’وہ سمجھ نہیں سکتے تھے کہ میں اس جگہ کیوں جا رہی ہوں جو اس وقت چین کے سب سے خطرناک علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔‘

35 سالہ چینی شہری نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی ایک دوست نے اس سفر پر جانے کا اپنا ارادہ ترک کر دیا اور انھیں ڈرانا جاری رکھا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے والدین نے انھیں سنکیانگ کے ’قریب کہیں بھی جانے سے منع کیا تھا اور وہ اس متعلق مزید کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔‘

اس کے باوجود اینا سنکیانگ چلی گئیں اور وہ رواں برس جون میں واپس آئیں۔ ان کی رائے میں یہ خطہ اب بدل چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سنکیانگ اتنا ہی خوبصورت ہے جتنا انھیں یاد ہے۔ تاہم ان کے مطابق اب سیاحوں کی بڑی تعداد نے اس طرف کا رخ کر دیا ہے خاص طور پر بڑے پرکشش مقامات پر بہت سیاح نظر آتے ہیں۔

کئی سال تک سنکیانگ میں بیجنگ حکومت کے خلاف ناراضگی رہی، بعض اوقات تشدد بھی پھوٹ پڑا جس نے بہت سے چینی سیاحوں کو یہاں سے دور رکھا گیا۔

اس کے بعد یہ چینی آمریت کے خلاف کچھ بدترین الزامات کی وجہ سے بدنام ہو گیا جن کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ اویغر مسلمانوں کو نام نہاد ’ری ایجوکیشن کیمپوں‘ میں حراست میں رکھا گیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم کے دعوے بھی کیے گئے۔

چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے لیکن اس خطے کو بین الاقوامی میڈیا اور مبصرین سے بڑی حد تک منقطع کردیا گیا، جبکہ جلاوطن اویغر خوفزدہ یا لاپتہ رشتہ داروں کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔

اس کے باوجود حالیہ برسوں میں سنکیانگ ایک سیاحتی مقام کے طور پر ابھرا ہے، چین کے اندر اور تیزی سے ملک سے باہر بھی۔

بیجنگ نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور کبھی کبھار غیر ملکی میڈیا کو منظّم دوروں پر خوش آمدید کہا ہے۔

Anna

چین کے شمال مغرب میں پھیلے ہوئے سنکیانگ کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملتی ہیں۔

یہ خطہ شاہراہ ریشم کے ساتھ واقع ہے جس نے صدیوں سے مشرق اور مغرب کے مابین تجارت کو فروغ دیا۔

یہ ناہموار پہاڑوں، شاندار گھاٹیوں، سرسبز گھاس کے میدانوں اور قدیم جھیلوں کا گھر بھی ہے۔

سنگاپور کے سن شینگیاؤ، جنھوں نے مئی 2024 میں یہاں کا دورہ کیا، کہتے ہیں کہ ’گویا سوئٹزر لینڈ، نیوزی لینڈ اور منگولیا سب ایک جگہ پر ہیں۔ نظارے میری توقعات سے زیادہ تھے۔‘

چین کے بیشتر حصوں کے برعکس جہاں ہان اکثریت ہے، سنکیانگ میں زیادہ تر ترک زبان بولنے والے مسلمان ہیں، جس میں اویغر سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔

سنہ 1990اور 2000کی دہائی میں یہاں کشیدگی میں اضافہ ہوا جب ہان چینیوں پر اویغر اقلیتکے ساتھ کم تر سلوک کے الزامات نے علیحدگی پسند جذبات اور حملوں کو فروغ دیا۔ بیجنگ نے یہاں کریک ڈاؤن کو تیز کردیا۔

لیکن شی جن پنگ کے دور میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے پہلے کی طرح کنٹرول سخت کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے اویغوروں کو ہان چینی ثقافت میں زبردستی ضم کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

ستمبر میں اپنے دورے کے دوران انھوں نے خطے کی ترقی کو سراہا اور چینی ثقافت اور معاشرے کی عکاسی کرنے کے لیے عقائد کی تبدیلی پر زور دیا۔

دریں اثنا خطے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ سنکیانگ میں ہلٹن اور میریٹ جیسے معروف ناموں سمیت تقریبا 200 بین الاقوامی ہوٹل یا تو پہلے ہی کام کر رہے ہیں یا کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

چینی حکام کے مطابق صرف سنہ 2024 میں اس خطے نے تقریبا 30 کروڑ سیاحوں کا خیرمقدم کیا جو 2018 کی تعداد سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔

اس عرصے کے دوران سنکیانگ سے سیاحت کی آمدنی تقریبا 40فیصد بڑھ کر 51 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ رواں سال کی پہلی ششماہی میں تقریبا 13 کروڑسیاحوں نے اس خطے کا دورہ کیا، جس سے آمدنی میں تقریبا 143ارب یوآن کا حصہ ڈلا۔

اگرچہ غیر ملکی سیاحت بڑھ رہی ہے لیکن اکثریت ملکی سیاحوں کی ہے۔ بیجنگ کا ہدف ہے کہ ایک سال میں 40 کروڑ سے زیادہ سیاح اور 2030تک سیاحت کی آمدنی ایک کھرب یوآن ہو جائے۔

Getty Images

کچھ لوگ اب بھی وہاں جانے سے ڈرتے ہیں۔ سن کا کہنا ہے کہ مئی 2024میں دوستوں کو سفر کے لیے اکٹھا کرنے میں انھیں کچھ وقت لگا کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ سنکیانگ کو غیر محفوظ سمجھتے تھے۔

انھوں نے مقامی دارالحکومت ارومچی کی سڑکوں سے سیاحتی سفر آغاز کیا۔ اس کے بعد انھوں نے پہاڑوں اور سرسبز میدانوں سے گزرتے ہوئے ایک چینی ڈرائیور کے ساتھ سڑک پر آٹھ دن گزارے، ان نظاروں نے سن کو حیرت میں ڈال دیا۔

سنکیانگ میں ڈرائیوروں اور ٹور گائیڈز کا ہان چینی ہونا عام بات ہے، جو اب خطے کی آبادی کا تقریبا 40 فیصد ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سن کے گروپ نے مقامی اویغر باشندوں کے ساتھ زیادہ بات چیت نہیں کی لیکن جن چند کے ساتھ وہ بات چیت کرنے میں کامیاب ہوئے انھوں نے انھیں ’خوش آمدید‘ کہا۔

جب سے وہ واپس آئے ہیں سنکیانگ کے کسی حد تک وکیل بن گئے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اسے خطرناک اور کشیدہ سمجھا گیا ہے۔

’اگر میں صرف ایک شخص کو بھی صوبے کے بارے میں مزید جاننے کی ترغیب دے سکتا ہوں تو، میں اس بدنما داغ کو تھوڑا سا کم کرنے میں مدد کروں گا۔‘

ان کے نزدیک ایک سیاح کی حیثیت سے وہ جن حیرت انگیز نظاروں سے لطف اندوز ہوئے وہ ان پریشان کن الزامات سے بہت دور لگتے ہیں جنھوں نے سنکیانگ کو عالمی سرخیوں میں رکھا۔

انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ سنکیانگ میں بہت زیادہ نگرانی کی جاتی ہے، پولیس چیک پوسٹیں اور سکیورٹی کیمرے ایک عام منظر ہیں اور غیر ملکیوں کو نامزد ہوٹلوں میں ہی رہنا ہوتا ہے۔

لیکن سن اس سے پریشان نہیں تھے۔ ’پولیس کی بھاری نفری ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘

ہر سیاح اس بات پر قائل نہیں ہے کہ وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ’حقیقی‘ سنکیانگ ہے۔ سنگاپور سے تعلق رکھنے والی تھینمولی سلواڈوری، جو مئی میں دوستوں کے ساتھ 10 دن کے لیے گئی تھیں، کہتی ہیں ’میں اویغر ثقافت کے بارے میں بہت متجسس تھی اور یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہاں چیزیں کس طرح مختلف ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہم کافی مایوس تھے۔‘

وہ اور ان کے دوستوں نے حجاب پہنا ہوا تھا اور وہ کہتی ہیں کہ اویغر کھانے کی دکانوں والوں نے ان کو کہا کہ انھیں ’حسد ہو رہا تھا کہ ہم آزادانہ طور پر حجاب پہن سکتی ہیں۔۔۔ لیکن بہت زیادہ گہرائی میں بات چیت نہیں ہوئی۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ انھیںمقامی مساجد میں جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

دیوارِ چین کے بارے میں وہ پانچ مفروضے جو بالکل غلط ہیںکوہ طور، دنیا کی سب سے قدیم خانقاہ اور پیغمبر اسلام کا خط: ایک مقدس مقام سے جڑا متنازع منصوبہ جس کے لیے قبروں سے لاشوں کو منتقل کر دیا گیادنیا کے ’محفوظ ترین ممالک‘ جہاں لوگ گھروں کے دروازے بند نہیں کرتے اور پولیس ہتھیار نہیں رکھتیازبکستان میں ’مقدس پھل‘ سے بھری ریشم کی وادی جو سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہےGetty Images

پھر بھی غیر ملکی سیاحوں کے لیے بہت زیادہ کشش ہے۔ چین خود ایک انتہائی مقبول مقام ہے۔

چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے مئی میں لکھا تھا کہ غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد 'کھلے ذہن اور سچائی کو دیکھنے اور اس کا جائزہ لینے کی حقیقی خواہش کے ساتھ سنکیانگ سے رجوع کر رہی ہے۔ً

جرمن ولاگر کین ابراڈ نے اپنی ایک حالیہ ویڈیو میں کہا کہ انھوں نے ’سنکیانگ میں امریکہ یا یورپ کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ مساجد دیکھی ہیں۔‘

لیکن دوسروں کا نظریہ مختلف ہے۔ سنہ 2010کی دہائی میں سنکیانگ میں رہنے والے مصنف جوش سمرز نے بی بی سی کو بتایا کہ کاشغر کے پرانے شہر کو ’مکمل طور پر منہدم کیا گیا اور اس طرح سے دوبارہ تعمیر کیا گیا جو اویغر ثقافت کی کسی بھی طرح سے عکاسی نہیں کرتا۔‘

ہیومن رائٹس واچ کی 2024کی ایک رپورٹ کے مطابق سنکیانگ کے سینکڑوں دیہاتوں کے نام (جو اویغروں کے مذہب ، تاریخ یا ثقافت سے متعلق تھے) کو 2009سے 2023 کے درمیان تبدیل کر دیا گیا تھا۔

اس گروپ نے حکام پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ سنکیانگ اور چین بھر میں اسلام پر عمل کو روکنے کے لیے مساجد کو بند کر رہے ہیں یا تباہ کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔

بی بی سی کی 2021اور 2022 کی رپورٹنگ میں حراستی کیمپوں کے وجود کی حمایت کرنے والے شواہد ملے، اور جنسی استحصال اور جبری نس بندی کے الزامات سامنے آئے۔

تاہم بیجنگ ان سب کی تردید کرتا ہے۔ ملک کے اندر پارٹی زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک پریشان کن صوبے کے طور پر دیکھے جانے والے صوبے کی تصویر کو دوبارہ بنا رہی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ طریقہ کام کر رہا ہے۔

Anna

جب اینا دوسری بار وہاں گئیں تو ان کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہ شمال میں خوبصورت پہاڑی مناظر میں فلمائی گئی ڈرامہ سیریز دیکھنے کے بعد وہاں جانے کے لیے بے چین تھیں۔

سیریز ’ٹو دی ونڈر‘ کو حکومت کی طرف سے مالی مدد فراہم کی گئی تھی اور اسے سرکاری میڈیا پر فروغ دیا گیا تھا۔

چینی انٹرنیٹ پر آلٹے نامی خطے کے بہت سارے مداح ہیں۔

ریڈ نوٹ پر ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’کون جانتا تھا کہ میں آلٹے میں خدا کے خفیہ باغ میں کھو جاؤں گا؟ کا ناسی جھیل میں، میں آخر کار سمجھ گیا کہ جنت میں رہنے کا کیا مطلب ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں پہاڑوں ، دریاؤں ، جھیلوں اور سمندروں کے لیے رومانس ایک ہی فریم میں ایک ساتھ بُنے ہوئے ہیں۔‘

ایک اور صارف کا کہنا تھا ’صبح کے وقت، میں گیسٹ ہاؤس سے دیکھتا ہوں کہ مویشی کھیتوں میں چرتے ہیں۔ جنگلات سورج کی روشنی میں چمکتے ہیں اور یہاں تک کہ ہوا بھی مٹھاس میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ خلل سے پاک خوبصورتی ہے یہ آلٹے، جس کی میں ہمیشہ خواہش کرتا رہا ہوں۔‘

ٹریول ایجنسیاں اس خطے کو ’انوکھا‘ اور ’پراسرار‘ قرار دیتی ہیں۔

ایسی ہی ایک ایجنسی ’دی وانڈرنگ لینس‘ کا کہنا ہے کہ یہ ’فطرت اور ثقافت کا جادوئی امتزاج پیش کرتا ہے جو آپ کو چین میں کہیں اور نہیں ملے گا۔‘

ان سیاحتی دوروں کی قیمتیں مختلف ہوتی ہیں۔ 10 دن کا سفر آپ کو پروازوں کو چھوڑ کر 1500 امریکی ڈالر اور2500 کے درمیان پڑتا ہے۔

شمال کے لیے ایک عام سفر میں کاناس نیشنل پارک شامل ہوگا، جس میں الپائن جھیلوں اور مشہور پانچ رنگوں والے ساحل سمندر کی سیر ہوگی اور ایک اویغر گاؤں کا دورہ ہوگا جہاں آپ گاڑیوں پر سوار ہو سکتے ہیں اور اویغر خاندان کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں۔

جنوب میں چیزیں زیادہ مہم جوئی والی ہیں، جہاں سیاحتی دوروں میں اکثر صحرا سے گزرنا، جھیل کی سیراور 2000 سال پرانے شاہراہ ریشم کے شہر کاشغر کا دورہ شامل ہوتا ہے۔

اگر آپ سنکیانگ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ریڈ نوٹ اور ویبو پر تلاش کرتے ہیں تو حسبِ توقع آپ کو اس کی خوبصورتی اور مشہور فن تعمیر کے بارے میں پوسٹس ملتی ہیں۔

ان الزامات کا کوئی ذکر نہیں ہے جو اس دلکش مقام سے متصادم ہیں۔ سال کے اس وقت چینی سوشل میڈیا سنکیانگ کے پوپلر جنگلات کی تصاویر سے بھرا ہوا ہے۔

سنہ 1998 میں اس علاقے کو چھوڑنے والی اویغر نژاد امریکی ارادے کاشغری کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی ’اویغر لوگوں کو سیاحوں کی توجہ کے مرکز کے طور پر پیش کر کے اویغر ثقافت کا اپنا ورژن بیچ رہی ہے۔‘

’وہ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم رقص کرنے والے، رنگین لوگوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں جو سوشل میڈیا پر اچھے لگتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں لوگوں سے یہ نہیں کہتی کہ وہاں نہ جائیں لیکن انھیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ وہاں جو کچھ محسوس کرتے ہیں وہ (سنکیانگ) کا نقلی رنگ ہے۔‘

’مجھ جیسے لوگ حقوق کی جنگ کی وجہ سے کبھی واپس نہیں جا پائیں گے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔۔۔ پھر بھی میں کیوں نہیں جا سکتی؟ یہ میرا وطن ہے۔‘

وہ ’معاشی معجزہ‘ جس نے چین کو غربت کی دلدل سے نکال کر عالمی طاقت بنا دیادنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟کیا پاکستان چین بس سروس قابلِ عمل ہے؟دیوارِ چین کے بارے میں وہ پانچ مفروضے جو بالکل غلط ہیںجیان کاؤ: دیوارِ چین کا دور دراز اور خطرناک ترین حصہسنکیانگ میں اویغور آئمہ کی گرفتاریاں: جب داڑھی رکھنا ہی جرم ہو تو ’مذہبی آزادی‘ کیسی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More