Getty Images
پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں افغانستان اپنی ناقابلِ شکست حیثیت کو اجاگر کرنے کے لیے خود کو ’سلطنتوں کا قبرستان‘ قرار دے رہا ہے جبکہ پاکستان کا موقِف ہے کہ ’افغانستان کبھی سلطنتوں کا قبرستان نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ ان کا کھیل کا میدان رہا۔‘
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے انڈیا کے اپنے ایک حالیہ دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں افغانستان میں غیر ملکی طاقتوں بشمول 19ویں اور 20ویںصدی میں برطانیہ اور سوویت یونین اور حالیہ دور میں امریکہ کے ’حشر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اسی بیانیے کو دہرایا۔
دوسری جانب، پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان یقیناً خود کو کوئی سلطنت نہیں سمجھتا مگر افغانستان بلاشبہ ایک قبرستان ہے اور وہ بھی اپنی ہی قوم کے لیے۔‘
ایسے بیانات کے تناظر میں، آئیے دیکھتے ہیں کہ تاریخ کس بیانیے کی تائید کرتی ہے۔
’سلطنتوں کا قبرستان‘ کی اصطلاح کب اور کیسے وجود میں آئی
نیو یارک ٹائمزکے نامہ نگار راڈ نارڈ لینڈ نے سنہ 2017 میں اپنے ایک مضمون ’دی ایمپائرسٹاپر‘ میں لکھا تھا کہ افغانستان کو طویل عرصے سے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ کہا جاتا ہے، اتنے طویل عرصے سے کہ یہ بھی واضح نہیں کہ اس متنازع اصطلاح کو سب سے پہلے کس نے استعمال کیا۔
لیکن عرب اور اسلامی مطالعات کے ادارے یونیورسٹی آف ایکسیٹرکے محقق الیگزینڈر ہینی خلیلی کے مطابق افغانستان کے لیے یہ اصطلاح بظاہر سنہ 2001 میں ’فارن افیئرز‘ جریدے میں سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) پاکستان کے سابق سٹیشن چیف ملٹن بیئرڈن کے ایک مضمون سے پہلے استعمال میں نہیں آئی جس کا عنوان ہی ’افغانستان: گریو یارڈ آف ایمپائرز‘ تھا۔
ایک اور روایت کے مطابق یہ اصطلاح پہلے میسوپوٹیمیا کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ اسی طرح ایک نہایت مشابہلقب ’قوموں اور سلطنتوں کا قبرستان‘ علامتی طور پر عہد نامہ عتیق کی کتابِ یسعیاہ کو بھی دیا گیا۔
ماہرِ بشریات تھامس بارفیلڈ کے مطابق افغانستان کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بیانیہ افغانوں نے خود بیرونی حملہ آوروں کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔
’اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کے بانی اور رہنما ملا محمد عمر نے اسے وہی انجام بھگتنے کی دھمکی دی جس کا سامنا برطانوی سلطنت اور سوویت یونین کو ہوا تھا۔‘
سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی سنہ2021 میں کابل کے سقوط کے بعد ایک عوامی خطاب میں اسی اصطلاح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی مزید فوجی موجودگی سے افغان حکومت کو طالبان کے خلاف مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔
Getty Imagesکیا افغانستان ناقابلِ شکست رہا؟
کتاب ’افغانستان: واٹ ایوری ون نیڈز ٹو نو‘ میں بارنیٹ آر روبن لکھتے ہیں کہ ’یہ تصور دراصل نسبتاً حالیہ ہے کہ افغانستان ہمیشہ سے ناقابلِ تسخیر سرزمین ہے جو ہر اُس طاقت کو شکست دیتی ہے جو اس میں داخل ہو۔‘
اپنی کتاب ’دی اسینڈنسی آف افغانستان: اے نیو ڈان اِن دی ہارٹ آف ایشیا‘ میں پاسکوالے ڈی مارکو لکھتے ہیں کہ وسطی، جنوبی اور مشرقی ایشیا کے سنگم پر افغانستان کا محلِ وقوع اسے تاریخ بھر میں سلطنتوں کے لیے ایک مطلوب انعام بناتا رہا ہے۔
’صدیوں تک دنیا بھر کی افواج اس کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے گزرتی رہیں اور اپنی موجودگی کا ایسا نقش چھوڑ گئیں جو آج بھی اس سرزمین اور اس کی ثقافت پر نمایاں ہے۔‘
بارفیلڈ لکھتے ہیں کہ سنہ 1840 تک افغانستان کو ’سلطنتوں کا قبرستان‘ نہیں بلکہ ’فتح کی شاہراہ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پچھلے ڈھائی ہزار برسوں تک یہ ہمیشہ کسی نہ کسی سلطنت کا حصہ رہا، جس کی ابتدا پانچویں صدی قبلِ مسیح میں فارسی سلطنت سے ہوئی۔
عدنان خان کاکڑ کی تحقیق ہے کہ افغانستان ڈھائی ہزار سال پہلےایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی ہخامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔
پھر سکندر اعظم اور ان کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں اوران کے بعد ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریا بادشاہوں چندر گپت موریا اور ان کے جانشینوں کی سلطنت میں موجودہ افغانستان ایک مفتوحہ علاقہ تھا۔ چند سو سال بعد ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض دکھائی دیتے ہیں۔
اسلام کے ظہور پر خلفائے راشدین کے دور ہی میں خراسان فتح ہو گیا۔ اموی خلافت میں بھی افغانستان ایک مفتوحہ علاقہ تھا۔
پھر سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ، ترک نسل کے غزنوی، وسطی ایشیا کے سلجوق ترک اور پھر 50 برس کے لیے دور افتادہ افغان علاقے غور سے غوری یہاں حکمران رہے۔ محققین کا عمومی اتفاق ہے کہ غوری تاجک النسلایرانی تھے۔ خود کو شنسبانی کہتے تھے۔
’پھر شہر سبز اور سمرقند سے امیر تیمور نامی تاتاری اٹھے اور افغانستان ان کی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔ ازبک سلطان شیبانی خان بھی اس پر قابض رہے‘۔
روبن کے مطابق کابل، بلخ، قندھار اور ہرات جیسے شہر اور خطے بارہا مختلف سلطنتوں کے زیرِ اقتدار آئے اور کبھی کبھار خود بھی اقتدار کا مرکز بنے۔
ہینی خلیلی لکھتے ہیں کہ سکندرِ اعظم اور چنگیز خان نے نہ صرف افغانستان کو فتح کیا بلکہ ان کے جانشینوں نے صدیوں تک یہاں حکومت کی اور خود کو اس کی ثقافت اور مذہب کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا۔
روبن نے لکھا ہے کہ بلخ جسے یونانی ’باختر‘ کہتے تھے زرتشتی اور بدھ مت کے زمانے کا ایک نمایاں مذہبی و ثقافتی مرکز تھا۔
’سکندرِ اعظم نے جب اس کے عظیم مندر کو لوٹا تو اُنھوںنے مقامی بادشاہ کی بیٹی روکسانہ یا رخسانہ سے شادی کی۔قندھار لفظ ’سکندریہ‘ (الیگزینڈریا) کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جو سکندرنے 329 قبلِ مسیح میں قائم کیا تھا۔
’یونانی حکومت تقریباً دو صدیوں تک قائم رہی اور اسی دورانمیں مجسمہ سازوں نے ’گندھارا‘ کے نام سے معروف یونانی فنِ تعمیر (گریکو-بدھ آرٹ) کو فروغ دیا، جس کا مرکز موجودہ پشاور کے قریب ایک قدیم ریاست تھی‘۔
روبن ہی کے مطابق ہرات، سمرقند کے ساتھ، تیموری دور میں فارسی تہذیب و فنون کا مرکز رہا۔
’پہلے مغل بادشاہ بابر آج کے ازبکستان کی وادیِ فرغانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے کابل فتح کیا اور اسے مغل سلطنت کا پہلا دارالحکومت بنایا۔ کابل سے واقف ہر شخص ’باغ ِبابر‘ کے بارے میں جانتا ہے۔‘
یہاں بابر کے علاوہ ان کی بڑی بہن خانزادہ بیگم، ان کی بیٹیاں فخر النسا اور ہمایوں نامہ کے مصنف گل بدن بیگم، ان کے بیٹے ہندل مرزا، اکبر کی بیوی رقیہ سلطان بیگم اور ہمایوں کے بیٹے مرزا محمد حکیم دفن ہیں۔
یہ بتاتے ہوئے کہ بابر سے اورنگزیب عالمگیر تک مغل اس پر حکمران رہے، کاکڑ لکھتے ہیں کہ مغلوں کے کمزور پڑنے پر ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے افغانستان پر تسلط جمایا۔
’نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد افغانستان نامی ملک پہلی مرتبہ وجود میں آیا جب نادر شاہ افشار کے سردار احمد شاہ ابدالی نے 1747 میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعوی کر دیا۔‘
اس سے پہلے کابل اور قندھار عام طور پر ہندوستانی تخت کا حصہ رہتے تھے۔ ہرات وغیرہ ایرانی سلطنتوں کا اور مزار شریف وغیرہ کے علاقے وسطی ایشیائی سلطنتوں وغیرہ کے صوبے ہوا کرتے تھے۔ ’احمد شاہ ابدالی کی سلطنت میں ایرانی شہر نیشا پور، موجودہ افغانستان، موجودہ پاکستان اور راجستھان کے کچھ علاقے شامل تھے۔‘
Getty Images’سلطنتیں افغانستان میں فنا نہیں ہوئیں بلکہ پروان چڑھیں‘
ہینی خلیلی کے مطابق افغانستان کسی ایسی سرزمین کے بجائے، جہاں سلطنتیں آ کر فنا ہو جاتی ہیں،ہزاروں سال تک وہ مقام رہا جہاں سلطنتیں پروان چڑھتی اور پھلتی پھولتی رہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ اس کا ایشیا کے سنگم پر واقع ہونا تھا۔
تاریخ کی کئی عظیم سلطنتیں افغانستان ہی سے ابھریں اور انھوں نے دنیا کی تاریخ پر گہرا نقش چھوڑا۔
مثلاً کشانی سلطنت جو 30ء سے 350ء تک قائم رہی، نے افغانستان، وسطی ایشیا اور شمالی ہندوستان کے وسیع علاقے پر حکومت کی۔ ان کا دارالحکومت بگرام تھا۔ کشانی سلطنت نے روم، ہندوستان اور چین کے ساتھ تجارت کے راستے قائم کیے۔
ان کے دور میں افغانستان ایک ایسی زرخیز تہذیب کا مرکز تھا جس نے یونانی اور ہندوستانی اثرات کو بدھ مت کی روح کے ساتھ جوڑ کر ایک نادر اور جامع فنِ تعمیر و مصوری کو جنم دیا۔
بدھ کی انسانی شکل میں بنائی گئی ابتدائی ترین مجسمہ نگاری اسی دور کی پیداوار سمجھی جاتی ہے۔
خلیلی لکھتے ہیں کہ کشانی محض ان کئی تاریخی تہذیبوں میں سے ایک تھے جو آج کے افغانستان میں پروان چڑھیں۔غزنوی سلطنت جو 977ء سے 1186ء تک غزنی میں قائم رہی، ایک ترک النسل مسلم سلطنت تھی جو فنِ تعمیر اور فنونِ لطیفہ کی سرپرستی کے لیے مشہور تھی۔
ان کے دور میں فارسی زبان اسلامی مشرق میں شاعری اور اعلیٰ ادب کی زبان بن کر ابھری۔ فردوسی نے اپنی شہرۂ آفاق مثنوی شاہ نامہ جو فارسی دنیا کا قومی رزمیہ ہے، سلطان محمود غزنوی کے نام معنون کی۔
اسی طرح تیموری سلطنت جو 1370ء سے 1526ء تک قائم رہی، اپنی شاندار عمارات اور علمی سرپرستی کے لیے معروف تھی۔ تیموری دارالحکومت ہرات اُس زمانے میں فنکاروں، کاریگروں اور اہلِ علم سے گونجتا رہتا تھا۔ بابر، جو بعد میں مغل سلطنت کے بانی بنے،کا یہ کہا مشہور ہے کہ ’ہرات میں اگر کوئی اپنے پاؤں پھیلائے تو لازماً کسی شاعر کو ٹھوکر مار بیٹھے گا۔‘
افغان درّانی سلطنت، جو آج کے افغانستان کی پیشرو تھی، نے 1747 میں قندھار کو اپنا دارالحکومت بنایا اور 1775 میں کابل منتقل ہو گئی۔
خلیلی کے مطابق پہلی اینگلو-افغان جنگ (1839–1842) میں برطانوی افواج کو سخت سردیوں میں جلال آباد کی برفانی وادیوں میں پسپا ہونا پڑا اور یہی واقعہ ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے تصور کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اکثر یہ بات نظرانداز کی جاتی ہے کہ برطانوی بعد میں دوبارہ کابل لوٹے، شہر کے بازاروں کو مسمار کیا، اپنے قیدی چھڑائے اور اپنی شرائط پر افغانستان سے انخلا کیا۔
دوسری اینگلو افغان جنگ (1878-80) میں فتح کے باوجود برطانیہ نے افغانستان پر براہ راست حکمرانی کرنے کے بجائے وہاں اپنی پسند کا حکمران یا امیر مقرر کرکےافغانستان کو تقریباً ایسی دست نگر ریاست یا ’کلائنٹ سٹیٹ‘ میں تبدیل کردیا جو برطانیہ کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔
سنہ 1879میں گندمک معاہدے کے تحت امیر یعقوب خان نے افغانستان کی خارجہ پالیسی کا کنٹرول برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ مشرقی افغان صوبے برطانوی ہند کے زیرِ اثر آئے اور ’سرحدی قبائل‘ کے لیے ایک بفر زون قرار پائے۔
افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہےافغانستان کی بادشاہت سے جمہوریت بننے کی کہانیافغانستان کا وہ الگ تھلگ خطہ جہاں داعش اور طالبان بھی نہیں پہنچ پاتےامریکہ بگرام فوجی اڈہ کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس پر چین کو تشویش کیوں ہے؟
سنہ 1893میں سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے امیر عبدالرحمٰن خان کے ساتھ معاہدہ کر کے برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان سرحد یعنی ’ڈیورنڈ لائن‘ طے کی۔ سنہ 1919میں امیر امان اللہ خان نے سرحد پر ایک مختصر جھڑپ کے بعد آزادی حاصل کی لیکن 1921 کے معاہدہ راولپنڈی میں اسی نوآبادیاتی لکیر کو تسلیمکیا گیا۔‘
’افغانوں نے اکیلے سوویت یونین کو شکست نہیں دی، ان کی مزاحمت کو سرد جنگ کے تناظر میں عالمی طاقتوں کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی۔‘
سی این این کے لکھاری بیری نیلڈ نے لندن کے کنگز کالج کے دفاعی امور کے لیکچرر پیٹرک پورٹر کے حوالے سے لکھا ہے کہافغانستان لڑنے، فتح کرنے اور حکومت کرنے کے لیے ایک مشکل جگہ ہے اور اسی لیےاس ملک کا ’سلطنتوں کا قبرستان‘ ہونے کا افسانہ سمٹ نہیں پا رہا۔
لیکن پورٹر کہتے ہیں کہ اگرچہ سلطنتیں افغانستان میں اپنی مہمات کے بعد زوال کا شکار ہوئیں لیکن برطانوی سلطنت کے لیے یہ زوال زیادہ تر دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں آیا، سوویت یونین کے لیے مشرقی یورپ میں نظریاتی بحران اس کی وجہ بنا اور سکندرِ اعظم کے لیے یہ ان کی ایشیائی سلطنت میں مستحکم جانشینی قائم نہ کر سکنے کا نتیجہ تھا۔
نیلڈ نے برطانوی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے عسکری علوم کے ڈائریکٹر مائیکل کاڈنر کے حوالے سے لکھا کہ افغانستان کی خودمختاری کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا دعویٰ تاریخی شواہد سے متصادم ہے۔
وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ اٹھارویں صدی میں فارسی سلطنت نے افغان سرزمین پر اپنی عملداری قائم کی تھی اور دو صدی قبل کابل پر مبنی مغلیہ سلطنت کے زوال میں حصہ ڈالا تھا۔
نارڈلینڈ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ کوئی عظیم سلطنت صرف افغانستان کی وجہ سے تباہ نہیں ہوئی۔
خلیلی لکھتے ہیں کہ ’سلطنتوں کا قبرستان‘ کا بیانیہ یہ وضاحت کرنے میں بھی ناکام رہتا ہے کہ بادشاہت کی پانچ دہائیوں یعنی 1929 سے 1978 کے دوران میں باوجود عالمی طاقتوں کے درمیان جاری مقابلہ بازی کے افغانستان میں امن کیوں قائم رہا؟
’سنہ 1920 میں امان اللہ خان کی بادشاہت سے شروع ہونے والی شاہی حکومتیں نہ صرف افغانستان کو آزاد رکھنے میں کامیاب رہیں بلکہ ساتھ ہی اسے ایک ’ماڈل نیشن سٹیٹ‘ بنانے میں بھی کوشاں رہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں جب ہمسایہ ملک ایران میں برطانوی اور روسی فوجیں قابض تھیں، افغانستان آزاد اور غیر جانبدار رہنے میں کامیاب رہا‘۔
سنہ 1973 میں ہونے والی بغاوت، جس کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوریہ افغانستان کی بنیاد رکھی گئی، کے دوران میں بھی کوئی خون خرابہ نہیں ہوا۔ ہاں مگر 1978 کے مارکسی ثور انقلاب اور بعد ازاں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد سے افغانستان جنگوں اور تنازعات کے باعث تباہی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا‘۔
بارنیٹ آر روبن لکھتے ہیں کہ آج کے افغانستان کے سامنے اصل چیلنج یہ ہے کہ ملکی پیداوار ملکی اخراجات پوراکرنے کے لیے ناکافی ہے۔
’افغانستان کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت کو بین الاقوامی منڈیوں سے جوڑے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرے‘۔
Getty Imagesافغانستان سلطنتوں یا افغان عوام کا قبرستان۔۔۔ ماہرین کیا کہتے ہیں؟
افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر تجزیہ کاروں سمیع یوسفزئی اور حق نواز خان نے افغانستان کو ’سلطنتوں کا قبرستان‘ قرار دینے کی اصطلاح کو درست قرار دیتے ہوئے خواجہ آصف کے حالیہ بیان پر تنقید کی۔
حق نواز خان نے بتایا کہ اگر افغانستان میں سلطنتوں کو شکست نہیں ہوئی مگر افغانستان پر حملے کے نتیجے میں حملہ آور بڑی طاقتوں کو مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ افغانستان کی جنگوں میں برطانیہ کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ افغانستان سے معاہدے پر مجبور ہوا، جو ان کے مطابق بالآخر 1919 میں افغانستان کی آزادی کا سبب بنا۔
اس طرح ان کے بقول افغانستان سے انخلا کے بعد سوویت یونین کا ٹکڑے ہونا اور 2021 میں امریکہ کا افغانستان سے معاہدے کی صورت میں نکلنا ان عالمی طاقتوں کی افغانستان کے ساتھ جنگ میں کامیابی نہیں بلکہ شکست رہی تاہم انھوں نے کہا کہ اگر غیر جانبدارانہ نظر ڈالی جائے تو ان جنگوں کے نتیجے میں افغان عوام کو نقصانات اور مشکلات بھی رہی ہیں۔
افغان تجزیہ کار یوسفزئی نے کہا کہ اگر افغانستان پر وقت کی عالمی طاقتیں حملہ آور ہونے کے بعد نکلنے پر مجبور ہوئیں تو یہ یقیناً افغان عوام کی تاریخ کا ایک فخر ہے۔
یوسفزئی نے خواجہ آصف پر افغان قوم سے تعصب کا الزام لگاتے ہوئے پاکستان اور طالبان حکومت کی حالیہ کشیدگی کی آڑ میں خواجہ آصف کا یہ بیان افغان عوام کی تضحیک کی کوشش قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مشکل یہ ہے کہ وہ افغانستان کے بعض عناصر کی حمایت کر کے انھیں تمام افغانستان کا نمائندہ سمجھتی ہے اور سارے افغان عوام سے اپنی ڈکٹیشن منوانے کی توقع رکھتی ہے۔
دونوں ممالک کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر پاکستانی سیاستدان افراسیاب خٹک کے مطابق افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان قرار دینے کا بیانیہ افغان عوام کا نہیں بلکہ پاکستان کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے۔
پاکستان میں نائن الیون کے بعد عسکریت پسندی کے آغاز پر گہری نظر رکھنے والے صحافی و مصنف فیض اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ 2001 میں افغانستان پر امریکی فورسز کے حملے کے جواب میں جب مذہبی تنظیموں کی جانب سے پاکستان کے بڑے شہروں میں ’ملین مارچ‘ کے نام سے مذمتی جلوس نکالے گئے تو اس میں سب سے اہم نعرہ ’افغانستان سلطنتوں کا قبرستان‘ ہوتا تھا۔
’ان جلسوں میں سٹیج سے مسلسل ہونے والی تقاریر میں بتایا جاتا کہ تاجِ برطانیہ اور سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی اور ایسی ہی شکست امریکہ اور نیٹو کو ہو گی۔ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں میں افغانستان کو سلطنتوں یا عالمی طاقتوں کے قبرستان کے طور پر جانا جانے کا بیانیہ بہت عام تھا۔‘
اسلام آباد میں واقع پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس تھنک ٹینک کے سربراہ عامر رانا نے خواجہ آصف کے بیان کو ریاستی پالیسی کی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ’اب نئی پالیسی کے لیے ماضی کے بیانیے کو رد کرنے کے لیے سلطنتوں کی بجائے عوام کے قبرستان کا بیانیہ سامنے لایا گیا۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی ماجد نظامی نے خواجہ آصف کے بیان کو پاکستان کی پانچ دہائیوں سے جاری افغان پالیسی سے ’یوٹرن‘ قرار دیا۔
نظامی کے مطابق ’پانچ دہائیوں میں افغانستان میں جاری جنگوں میں پاکستان کی ریاست نے طالبان سمیت افغان جنگجوؤں کی حمایت کی، جس کے لیے ایسے تاریخی حقائق پیش کیے گئے کہ وہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کے خلاف جنگ میں عوامی حمایت حاصل کر سکیں تاہم اب بدلتی پالیسی کی وجہ سے سلطنتوں کے قبرستان کی بجائے افغان عوام کا قبرستان قرار دیا جا رہا ہے، جو ان کے بقول پاکستان کی غیر مستحکم خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔‘
صحافی حامد میر نے خواجہ آصف کے بیان پر ردِ عمل کے جواب میں بتایا کہ افغانستان کے بارے میں ان کی وہی رائے ہے جو علامہ اقبال کی تھی۔ ’اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا۔ اگر افغانستان ایشیا کا دل ہے تو اس دل میں خرابی پورے ایشیا میں خرابی پیدا کرے گی۔ اس لیے ایشیا کے دل سے لڑائی میں پاکستان کا نقصان ہی نقصان ہے۔ بیمار دل کے لیے دوا تلاش کریں، دل کو تباہ کرنے کی کوشش خودکشی کے مترادف ہے۔‘
ماجد نظامی نے بھی خواجہ آصف کے بیان کو موثر ہونے کی بجائے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس قسم کی بیانات کی بجائے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو ایک وسیع البنیاد افغان پالیسی بنانے پر زور دیا۔
ان کے مطابق مختلف ادوار میں فوجی آمروں اور ریاست کے طاقتور افراد کی خواہشات پر خارجہ پالیسی، خصوصاً افغان پالیسی، ترتیب دی گئی اور شخصیات کے تبدیل ہوتے ہی ریاستی پالیسی بھی نیا رخ اختیار کر لیتی ہے۔
’اس لیے جب تک پارلیمان، سیاست دانوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی وسیع البنیاد مشاورت سے افغان پالیسی ترتیب نہیں دی جائے گی، مسئلہ جوں کا توں رہے گا بلکہ اس کی خرابی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
سٹنگر میزائل: افغان جنگ کا فیصلہ کن ہتھیار جو روسی افواج پر قیامت بن کر ٹوٹاجب طالبان نے سابق افغان صدر نجیب اللہ کو مار کر لاش کھمبے سے لٹکا دیافغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہےافغانستان کا وہ الگ تھلگ خطہ جہاں داعش اور طالبان بھی نہیں پہنچ پاتےامریکہ بگرام فوجی اڈہ کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس پر چین کو تشویش کیوں ہے؟افغانستان میں ’لاوارث خواتین‘ کا قلعہ جس کے بارے میں مقامی لوگ بہت کم بات کرتے ہیں