Getty Imagesٹرانسپلانٹ کے لیے جگر مردہ یا زندہ عطیہ دہندگان سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
جگر انسانی جسم کے اہم ترین اعضاء میں سے ایک ہے، لیکن جب اس میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے اور یہ اپنے افعال انجام دینے کے قابل نہ رہے تو کئی صورتوں میں جگر کی پیوند کاری کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
لیور ٹرانسپلانٹ یعنی جگر کی تبدیلی کی سرجری میں خراب جگر کو مریض کے جسم سے نکل کر اسے کسی دوسرے شخص سے صحت مند جگر یا اس کے کچھ حصے سے تبدیل کرنا شامل ہے، جسے ڈونر کہا جاتا ہے۔
جگر کی پیوند کاری کب ضروری ہے؟ لیور ٹرانسپلانٹ کی شرائط و ضوابط کیا ہیں؟ لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد کن چیزوں پر توجہ کرنی چاہیے؟
اسے سمجھنے کے لیے ہم نے کنسلٹنٹ اور ہیڈ، ڈپارٹمنٹ آف لیور ٹرانسپلانٹ اینڈ ایچ پی بی سرجری، لیلاوتی ہسپتال اور ریسرچ سینٹر ممبئی کی ڈاکٹر ویبھا ورما اور چیئرمین اور لیور ٹرانسپلانٹ سرجن میکس سینٹر فار لیور اینڈ بلیری سائنسز دہلی ڈاکٹر سبھاش گپتا سے بات کی۔
جگر کی پیوندکاری یا ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کب پڑتی ہے؟Getty Imagesلیور ٹرانسپلانٹ کے بعد، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ نیا جگر ٹھیک سے کام کر رہا ہے۔
دونوں ماہرین نے سیروسس یعنی جگر میں شروع ہونے والے کینسر، پرائمری لیور کینسر، جگر کی ناکامی، اور بچوں میں بعض پیدائشی حالات میں لیور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے۔
لیور ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر سبھاش گپتا کا کہنا ہے کہ لیور ٹرانسپلانٹ بنیادی طور پر تین بیماریوں میں کیا جاتا ہے۔
1. سروسس، جگر پر بننے والے ایسے داغ ہیں یا یوں کہہ لیں کہ سروسس میں جگر کے اوپر جروثیم سے بھرپور ٹیشو جگر کے صحت مند ٹیشوز کی جگہ لے لیے ہیں اور اس کے کام کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ عام طور پر الکوحل، ہیپاٹائٹس بی یا ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ موٹاپا اور ذیابیطس بھی خطرے کے عوامل ہیں۔
2. جب جگر کی نالیوں میں کوئی مسئلہ ہو، جسے ’کولیسٹیٹک‘ جگر کی بیماری کہتے ہیں۔ اس صورت میں جگر تو صحت مند ہوتا ہی ہے لیکن اس کی نالیوں میں رکاوٹ یا اس میں بہاؤ مناسب نہیں ہوتا۔
3. جگر کا کینسر: ڈاکٹر سبھاش گپتا بتاتے ہیں کہ جگر کے کینسر کی دو قسمیں ہیں پرائمری لیور کینسر کا مطلب ہے جب کینسر خود جگر کے اندر سے شروع ہوتا ہے اور ثانوی جگر کا کینسر کا مطلب ہے جب کینسر جسم کے کسی دوسرے حصے میں شروع ہو کر جگر تک پھیل جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پرائمری لیور کینسر میں لیور ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔
’میرا بچہ مر گیا لیکن اس نے ایک بچے کو زندگی دی‘جس کا دنیا میں کوئی نہیں اس کا ٹرانسپلانٹ کیسے ہوگا؟ہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیںڈاکٹروں نے دھڑکتے دل کا آپریشن کرنا کیسے سیکھا
ڈاکٹر ویبھا ورما بتاتی ہیں کہ ’لیور ٹرانسپلانٹ سیروٹک کے مریضوں میں جگر کے کچھ کینسر کو مکمل طور پر ٹھیک کر سکتا ہے۔ بعض صورتوں میں جب کینسر بڑی آنت یا ریکٹم یعنی بڑی آنت کے نچلے حصے میں شروع ہوتا ہے اور صرف جگر تک پھیل جاتا ہے تو ایسے میں جگر کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے۔‘
اس کے علاوہ لیور ٹرانسپلانٹ کی چوتھی وجہ جگر کی شدید خرابی ہے۔
ڈاکٹر ویبھا ورما کہتی ہیں کہ ’جگر کی شدید ناکامی کی صورت میں ہنگامی ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ وائرل انفیکشن جیسے ہیپاٹائٹس اے یا ای یا کچھ ادویات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔‘
جگر کی پیوند کاری کی کتنی اقسام ہیں؟Getty Images
جگر کی پیوند کاری کسی مردہ ڈونر یا زندہ ڈونر سے کی جا سکتی ہے۔
مردہ یا برین ڈیڈ ڈونر سے ٹرانسپلانٹ
اس میں ڈاکٹر مریض کے بیمار یا غیر فعال جگر کو نکال کر اس کی جگہ عطیہ کردہ جگر لگاتے ہیں۔
ڈاکٹر ویبھا ورما بتاتی ہیں کہ ’اس میں عطیہ کرنے والے کے پورے جگر کو مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے، یا جگر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ایک حصہ بالغ مریض اور دوسرے حصے کو کسی کم عُمر یعنی بچے میں ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔‘
زندہ ڈونر ٹرانسپلانٹ
ایک صحت مند شخص اپنے جگر کا کچھ حصہ عطیہ کر سکتا ہے۔ ایسے عطیہ دینے والے کو زندہ ڈونر یا لائیو ڈونر کہا جاتا ہے۔ زندہ عطیہ دہندگان صرف مریض کے خاندان کے افراد ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سبھاش کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کا کوئی فرد جگر کا ایک حصہ عطیہ کرے گا، کوئی اور نہیں۔ جیسے ماں یا باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے ماں یا باپ کو۔ شوہر، بیوی، بھائی، بہن بھی جگر کے عطیہ کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اس میں بھی قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر ویبھا ورما بتاتی ہیں کہ انڈیا میں جگر کی پیوند کاری انسانی اعضاء کے ٹرانسپلانٹیشن ایکٹ کے تحت ہوتی ہے۔
جگر کا عطیہ کرنے والا مریض کا خاندانی فرد ہونا چاہیے، بالغ ہونا چاہیے اور وہ ایسا بنا کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے رضاکارانہ طور پر کر رہا ہو۔
حکومت سے منظور شدہ کمیٹی مریض اور عطیہ دہندہ کے درمیان تعلق کی تصدیق کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس سارے معاملے میں کوئی دباؤ یا زبردستی نہیں ہے۔
قانونی منظوری کے بعد عطیہ کرنے والے اور جگر کی پیوند کاری کی ضرورت والے مریض دونوں کا تفصیلی طبی معائنہ کیا جاتا ہے تاکہ سرجری کے لیے ان کی فٹنس یعنی صحمت مند ہونے کی تصدیق کی جا سکے۔
ڈاکٹر ویبھا ورما کا کہنا ہے کہ ’زندہ عطیہ کرنے والے کا خون کا گروپ مریض کے خون کے گروپ سے ہم آہنگ یعنی میچ کرنا چاہیے۔ عطیہ کرنے والا صحت مند ہونا چاہیے اور اس کی عمر 18 سے 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔‘
زندہ ڈونر لیور ٹرانسپلانٹ میں، ڈونر کے جگر کا صرف ایک حصہ لیا جاتا ہے یا تو دائیں یا پھر بائیں جانب کا۔
وقت کے ساتھ عطیہ کرنے والے اور وصول کنندہ دونوں کا جگر اپنے مکمل سائز میں واپس آجاتا ہے۔
ڈاکٹر سبھاش گپتا بتاتے ہیں کہ ’پیوند کاری کے بعد جگر دو ہفتوں میں اپنے سائز کا تقریباً 70 فیصد اور ایک ماہ میں تقریباً 80 سے 90 فیصد تک واپس آجاتا ہے۔ عطیہ کرنے والے اور وصول کنندہ دونوں کا جگر ایک سال میں 95 سے 100 فیصد تک واپس اپنی اصل شکل میں آجاتا ہے۔‘
ڈاکٹر سبھاش گپتا کا کہنا ہے کہ انڈیا میں زیادہ تر جگر کی پیوند کاری زندہ عطیہ دہندگان سے کی جاتی ہے۔
نیشنل آرگن اینڈ ٹشو ٹرانسپلانٹ آرگنائزیشن آف انڈیا کے مطابق سال 2024 میں 952 جگر کی پیوند کاری مردہ عطیہ دہندگان سے اور 3946 جگر کی پیوند کاری ملک میں زندہ عطیہ دہندگان سے کی گئی۔
ڈاکٹر سبھاش گپتا کہتے ہیں کہ انڈیا میں اعضاء کے عطیہ کرنے کے بارے میں اتنی آگاہی موجود نہیں ہے جتنی کہ ہونی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اعضاء کا عطیہ بہت ضروری ہے۔ اس سے بہت سی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ آج کل زیادہ تر لوگ ہسپتالوں میں مر جاتے ہیں اس کے باوجود اعضاء کے عطیہ کی بہت زیادہ کمی ہے۔‘
ٹرانسپلانٹ یا پیوند کاری کے بعد کیا احتیاط کرنی چاہیے؟Getty Imagesڈاکٹر اعضاء کو مسترد کرنے سے بچنے کے لیے امیونوسوپریسنٹ تجویز کرتے ہیں۔
لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ مریض کو ملنے والا نیا جگر ٹھیک سے کام کر رہا ہے۔
آپ کو اپنے ڈاکٹر کے ساتھ باقاعدگی سے رابطے میں ہرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد آپ کے ڈاکٹر اس بات کا اندازہ آپ کے معائینے سے لگا سکتے ہیں کہ پیوندکاری کامیاب رہی ہے یا یہ کہ کسی پیچیدگی کا کا سامنا تو نہیں کرنا پڑ رہا۔
عضو کو جسم کی جانب سے قبول نہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟
اعضاء کو مسترد کرنے کا عمل اس وقت ہوتا ہے جب جسم کا مدافعتی نظام ٹرانسپلانٹ شدہ جگر کو ’کوئی پرائی یا جسم سے باہر کی چیز سمجھتا ہے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس بات کا امکان پیوند کاری کے پہلے تین سے چھ ماہ کے دوران زیادہ ہوتا ہے۔
اگر پیوند کردہ جگر کو جسم قبول نہیں کر رہا تو اس کی علامات کیا ہو سکتی ہیں؟
یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق غیر معمولی جگر کے خون کے ٹیسٹ اعضاء کے جسم کی جانب سے مسترد ہونے کی پہلی علامت ہو سکتے ہیں۔ اعضاء کے مسترد ہونے کی علامات ہمیشہ فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق جب عضو کو جسم قبول نہیں کرتا تو اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، جن میں:
تھکاوٹ محسوس کرنا
پیٹ میں درد بخار
جلد کا زرد ہونا اور آنکھوں کی سفیدی۔
گہرے زرد رنگ کا پیشاب آنا
ہلکے رنگ کے پاخانے ہونا اور چند دیگر علامات شامل ہیں
جسم کی جانب سے اس عمل سے بچنے کے لیے ڈاکٹر دوائیں تجویز کرتے ہیں جسے ’امیونوسوپریسنٹ‘ کہتے ہیں۔ یہ دوائیں ٹرانسپلانٹ شدہ جگر کے خلاف مدافعتی نظام کے ردعمل کو کم کرکے اعضاء کے رد ہونے کو روکتی ہیںاور جسم میں اسے نئے عضو کو قبول کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
ڈاکٹر ویبھا ورما بتاتی ہیں کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد پہلے تین مہینے سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں کیونکہ اس عرصے کے دوران امیونوسوپریسنٹ کی وجہ سے انفیکشن کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
ان کے مطابق ایسی صورتحال میں مریض کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
مریض کو ماسک پہننا چاہیے اور ہجوم یا آلودہ جگہوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔اعضاء کے مسترد ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جس کا پتہ خون کے ٹیسٹ یا جگر کی بایپسی سے ہوتا ہے اور امیونوسوپریسنٹس کی خوراک کو ایڈجسٹ کرکے علاج کیا جاتا ہے۔ٹرانسپلانٹ کے بعد پہلے تین مہینوں کے دوران بھاری جسمانی سرگرمیوں سے گریز کرنا چاہیے۔اس مدت کے بعد ادویات اور فالو اپ آہستہ آہستہ کم ہو جاتے ہیں اور مریض اپنی معمول کی زندگی کی جانب واپس لوٹنے لگتا ہے۔وقت پر ادویات لینا، ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق خون کے ٹیسٹ کروانا اور کسی بھی غیر معمولی علامات کی فوری اطلاع دینا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر ویبھا ورما کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مریض لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد نارمل اور فعال زندگی گزارنے لگتے ہیں اور انھیں کسی بھی قسم کی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
’میرا بچہ مر گیا لیکن اس نے ایک بچے کو زندگی دی‘جس کا دنیا میں کوئی نہیں اس کا ٹرانسپلانٹ کیسے ہوگا؟ڈاکٹروں نے دھڑکتے دل کا آپریشن کرنا کیسے سیکھاہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیںسؤر کا دل لگائے جانے والے شخص کی ٹرانسپلانٹ کے دو ماہ بعد موت