کیا مشرقی پاکستان میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے یہ تصویر دیکھ کر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 29, 2025

1971 کی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ کرنل رام موہن راؤ اس وقت کے انڈین آرمی چیف جنرل مانیک شا کے دفتر میں تعلقات عامہ کے افسر کے طور پر کام کر رہے تھے جب 10 دسمبر کو اچانک ہیڈکوارٹر میں ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز میجر جنرل اندرجیت سنگھ گل سے ان کی ملاقات ہوئی۔

میجر جنرل گل نے ان سے کہا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ کل ایک بڑا آپریشن ہونے والا ہے، ہمیں اچھی تشہیر کرنی ہے۔‘

لیفٹیننٹ کرنل راؤ نے بعد میں لکھا کہ ’میں جانتا تھا کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ اور یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ جنگ کے لیے کتنا اہم ہے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے کلکتہ میں مشرقی کمان کے چیف پبلک ریلیشن آفیسر کو فون کیا اور انھیں یاد دلایا کہ اگلے دن کے بہت اہم آپریشن کی خبر تمام اخباروں میں چھپنی چاہیے۔‘

اس وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کے آغاز کو چار دن گزر چکے تھے۔ مشرقی پاکستان میں لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی دفاع کی کوشش میں مصروف تھے۔

جس آپریشن کی جانب جنرل گل نے اشارہ کیا تھا، انڈین فوج نے اس آپریشن کی تیاری بہت پہلے شروع کر دی تھی۔ اور یہ اس جنگ کا ایک اہم موڑ ثابت ہونے والا تھا۔

اس سے قبل میگھالیہ کے علاقے سے انڈین فوج کے 101 کمیونیکیشن زون کے تحت 95 ماؤنٹین بریگیڈ گروپ مشرقی پاکستان کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا جسے ڈھاکہ کی طرف تورہ-جمال پور-تنگیل کے راستے سے ہو کر پہنچنا تھا۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی فوج کی 93ویں انفنٹری بریگیڈ موجود تھی۔

ایسے میں انڈیا کی فوجی حکمت عملی کے مطابق دریائے جمنا پر واقع پنگلی پل کو فوری طور پر تحفظ فراہم کرنا ضروری تھا ورنہ ڈھاکہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی انڈین افواج کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہ رہتا۔

انڈین فوج کی ہائی کمان نے یہ طے کیا کہ فوجیوں کو مشرقی پاکستان کی سرحدوں کے اندر تنگیل کے قریب کسی طیارے سے پیراشوٹ کے ذریعے گرایا جائے گا۔ یہ انڈین فوج کی تاریخ میں پہلا ایسا بڑا چھاتہ بردار آپریشن تھا۔

ایسی صورت حال کا اندازہ لگاتے ہوئے، انڈین فوج نے تنگیل کے علاقے میں مکتی باہنی کے کمانڈر قادر صدیقی کی قیادت سے رابطہ قائم کیا اور انڈین فوج کے ایک بنگالی افسر کو ان کے پاس بھجوا دیا گیا۔

میجر جنرل سکھونت سنگھ اپنی کتاب 'India's Wars since Independence' میں لکھتے ہیں کہ ’50 پیرا بریگیڈ گروپ کے دستے پہلے ہی بیرک پور، پانا گڑھ میں جمع ہو چکے تھے۔ ان میں سے دوسری (مراٹھا) پارا بٹالین کو تنگیل کے لیے چنا گیا اور ضروری ہتھیار اور رسد فراہم کی گئی تھی۔ اس بٹالین کی کمان لیفٹیننٹ کرنل کلونت سنگھ پنوں کر رہے تھے۔‘

میجر جنرل سکھونت سنگھ نے لکھا کہ ’11 تاریخ کو دوپہر 2:30 بجے، دمڈم کے شہری ہوائی اڈے اور کالائی کنڈا کے ایئر بیس سے 50 طیاروں نے آسمانوں کی طرف پرواز کی۔‘

چھاتہ بردار طیاروں کی آمد سے قبل اس دن چند مگ لڑاکا طیارے تننگیل کے اوپر آسمان پر چکر لگا رہے تھے۔ جیسے ہی زمین سے سگنل ملا، آپریشن شروع کر دیا گیا۔

پہلے جہازوں سے سامان گرایا گیا، پھر بھاری ہتھیار اور جیپیں۔ آخر کار چھاتہ بردار نیچے اترنے لگے۔ اس دن دو طیارے فوجیوں اور سامان کو اتارنے میں ناکام رہے، لیکن باقی طیارے کامیاب رہے۔

اگرچہ میجر سکھونت سنگھ سمیت مختلف فوجی افسران نے لکھا کہ 46 طیارے سامان، ہتھیار اور فوجیوں کو گرانے میں کامیاب رہے لیکن دو طیاروں میں سے ایک سے گرنے والی جیپ مقررہ جگہ سے کافی فاصلے پر ایک تالاب میں گر کر تباہ ہو گئی۔ ایک اور طیارے نے فوجیوں کو 15 میل شمال کی طرف گرایا۔

پاکستانی فوج کی طرف سے ان پر فائرنگ بھی کی گئی لیکن اگلے دن وہ مرکزی فورس میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ اہم آپریشن، جسے ’تنگیل ایئر ڈراپ‘ کہا جاتا ہے، شام 4:30 بجے ختم ہو گیا تھا۔ لیکن زمین پر اترنے والوں کے لیے جنگ ابھی شروع ہو رہی تھی۔

جنرل نیازی: انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا جرنیل یا دھرتی کا ’بہادر سپوت‘بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟جب انڈیا کے آرمی چیف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کو بہادری کا تمغہ دینے کی ’سفارش‘ کیہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیا

اس دن تقریباً ایک ہزار ٹن سامان اور گولہ بارود آسمان سے گرا تھا اور نا صرف جیپیں اور سامان، بلکہ کئی چھاتہ بردار بھی تالاب میں گر گئے۔

اس وقت تک تقریباً اندھیرا چھا چکا تھا لیکن مکتی باہنی کی مدد سے انڈین فوجیوں کی اکثریت دو گھنٹے میں ایک جگہ جمع ہونے میں کامیاب ہوگئی۔

میجر جنرل سکھونت سنگھ نے لکھا کہ ’مرکزی فورس نے پنگلی پل کی طرف پیش قدمی کی۔ اگرچہ دور سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن انھوں نے پل کے دونوں طرف پوزیشنیں سنبھال لیں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ رات 8 بجے کے قریب، ’جب ہمارے فوجی ایک دفاعی لائن قائم کر رہے تھے، شمال کی طرف سے ہیڈ لائٹس دکھائی دیں۔ ان گاڑیوں میں پاکستانی فوجی موجود تھے جنھیں دیکھ کر انڈین فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ اگلی چند گاڑیوں کو نقصان پہنچا جس کے بعد پاکستانی فوجیوں نے جوابی فائرنگ شروع کر دی۔‘

اس دن بھیجی گئی انڈین رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’جھڑپ میں 143 پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔ چار انڈین فوجی بھی مارے گئے تھے۔‘

12 تاریخ کو ہی، تقریباً 4:30 بجے، پیرا بٹالین نے انڈین فوج کی 95ویں ماؤنٹین بریگیڈ کے سپاہیوں سے ریڈیو رابطہ قائم کیا۔

لیفٹیننٹ کرنل راؤ نے بعد میں لکھا کہ ’لیکن 12 دسمبر کے اخبارات میں ہمارے فوجیوں کے اس اہم آپریشن کی تقریباً کوئی خبر نہیں تھی۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’میں نے ایسٹرن کمانڈ کے تعلقات عامہ کے افسر کے دفتر میں فون کیا کہ آپریشن کی تفصیلات کیوں شائع نہیں کی گئیں؟ جواب ملا کہ کوئی تصویر نہیں مل سکی، اس لیے صحافیوں تک نہیں پہنچائی جا سکی۔‘

مسٹر راؤ کو اچانک ایک خیال آیا۔ وہ ایک سال قبل اسی پیرا بریگیڈ کی ایک مشق میں شرکت کے لیے آگرہ گئے تھے اور اس دوران ہوائی جہازوں سے اترتے ہوئے سینکڑوں چھاتہ برداروں کی تصاویر لی گئی تھیں۔

’میں محکمہ دفاع کے فوٹو ڈپارٹمنٹ میں بھاگا، مجھے اس مشق کی تصویر ملی جو میں نے ایک سال پہلے لی تھی۔ میں نے اسے تشہیر کے لیے میڈیا میں تقسیم کیا۔ تصویر کے کیپشن میں میں نے لکھا کہ انڈین پیرا بریگیڈ کے سپاہی مشرقی پاکستان میں اترے ہیں۔‘

’میں نے بس یہ نہیں بتایا کہ تصویر ایک فائل فوٹو تھی۔ کیپشن جھوٹا نہیں تھا، لیکن یہ مکمل طور پر درست بھی نہیں تھا۔‘

لیفٹیننٹ کرنل رام موہن راؤ نے لکھا کہ ’یہ تصویر اگلے دن لندن ٹائمز، نیویارک ٹائمز سمیت دنیا بھر کے تمام اہم اخبارات میں چھپی تھی۔‘

ایک ہفتے بعد، انھیں ڈھاکہ سے واپس آنے والے ایک افسر سے معلوم ہوا کہ جنرل نیازی نے اتنی جلدی ہتھیار کیوں ڈالے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کی وجہ کے طور پر اپنے سامنے ٹیبل پر پڑے لندن ٹائمز کے اخبار کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر وہ تصویر تھی جو میں نے ہی چھپوائی تھی جس میں سینکڑوں پیراشوٹ آسمان سے اتر رہے ہیں۔‘

انڈین فوج کی مشرقی کمان کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق، اس دن ایک بٹالین، یا تقریباً 700 چھاتہ بردار فویوں کو پیراشوٹ کی مدد سے تنگیل میں اتارا گیا تھا۔

لیکن انڈیا اسٹریٹجک ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں، گلشن لوتھرا نے کہا کہ ’540 انڈین فوجی 11 دسمبر کو تنگیل میں زمین پر اترے۔‘

لیکن لیفٹیننٹ کرنل رام موہن راؤ کی جانب سے جو تصویر فراہم کی گئی اور جسے بین الاقوامی اخباروں نے بھی درست سمجھ کر چھاپ لیا تھا،اس سے ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بریگیڈ، یعنی تقریباً چار سے پانچ ہزار انڈین فوجی، تنگیل میں اتارے گئے ہوں۔

انڈین فوج کی مشرقی کمان کے دعوے کے مطابق اس سے جنرل نیازی قدرے گھبرا گئے۔

لیفٹیننٹ کرنل راؤ کو بعد میں انڈین ہائی کمان کو اس بات کی وضاحت دینی پڑی کہ تصویر کے کیپشن میں مکمل معلومات کیوں نہیں دی گئیں۔

جنرل نیازی: انڈیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا جرنیل یا دھرتی کا ’بہادر سپوت‘بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟جب انڈیا کے آرمی چیف نے ایک پاکستانی فوجی افسر کو بہادری کا تمغہ دینے کی ’سفارش‘ کیجنرل اندرجیت سنگھ گل جنھوں نے 1971 کی جنگ کے دوران اندرا گاندھی، آرمی چیف سیم مانیکشا سے ٹکر لیہنگور: جب پاکستانی ’شارک‘ نے انڈین ’کھکری‘ کا شکار کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More