Getty Imagesفائل فوٹو
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں آٹزم سے متاثرہ ایک خاتون کو 45 سال تک ’غلطی سے‘ ذہنی صحت کے ہسپتال میں رکھا گیا۔
سیکھنے کی صلاحیت سے محروم یہ خاتون محض سات برس کی عمر سے ایک طبی مرکز میں قید رہی ہیں۔
خیال ہے کہ خاتون کا تعلق مغربی افریقہ کے ملک سیرا لیون سے ہے۔ برطانیہ کی مقامی اتھارٹی نے انھیں کسیبا نام دیا تاکہ ان کی شناخت محفوظ رکھی جا سکے۔ انھیں ان کی زندگی کے 25 برس تنہا اور سب سے الگ تھلگ رکھا گیا۔
کسیبا بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور ان کی کوئی فیملی بھی نہیں جو ان کے لیے آواز اٹھائے۔ ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ نے فائل آن فور انویسٹیگیٹس کو بتایا کہ کیسے انھوں نے کسیبا کی رہائی کے لیے نو سال جنگ لڑی۔
محکمۂ صحت اور سوشل کیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ آج بھی کئی معذور افراد کو ذہنی صحت کے ہسپتالوں میں رکھا جا رہا ہے جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔ اسے امید ہے کہ مینٹل ہیلتھ ایکٹ غیر مناسب حراست کو روکے گا۔
انگلینڈ میں آٹزم اور سیکھنے کی صلاحیت سے محرومی سے متاثرہ دو ہزار سے زیادہ افراد کو آج بھی ذہنی صحت کے ہسپتالوں میں قید رکھا گیا ہے۔ ان میں قریب 200 بچے بھی شامل ہیں۔
حکومت کئی برسوں سے وعدہ کر رہی ہے کہ ان میں سے کئی افراد کو کمیونٹی کیئر میں منتقل کیا جائے گا کیونکہ درحقیقت یہ لوگ ذہنی طور پر بیمار نہیں ہیں۔
جب 2011 کے دوران بی بی سی کی انڈر کور تحقیقات میں برسٹل کے قریب ایک نجی ہسپتال میں سیکھنے کی صلاحیت سے محروم لوگوں سے مجرمانہ استحصال کا انکشاف ہوا تھا تو اس وقت بھی حکومت نے کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم انگلینڈ میں تمام تر اہم اہداف حاصل نہ ہو سکے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران انگلینڈ میں صحت عامہ کے ادارے این ایچ ایس نے سال 2025-26 کے منصوبے سے متعلق بتایا کہ آٹزم اور سیکھنے کی صلاحیت سے محروم لوگوں کے لیے ذہنی صحت کے نظام پر انحصار کم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
تاہم مینکیپ نامی خیراتی ادارے سے منسلک ڈین سکورر کے لیے یہ متاثر کن نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’سینکڑوں زیرِ حراست لوگ اس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ انھیں اب تک آزاد ہو جانا چاہیے تھا اور انھیں کمیونٹی کی ہمدردی حاصل ہونی چاہیے۔ ہم نے اب تک وہ بہتری نہیں دیکھی جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔'
’خطرناک‘ ہونے کا الزام اور قید تنہائی
ڈاکٹر پیٹسی سٹیٹ کو 2013 کے دوران کسیبا کو قید میں رکھے جانے کے حوالے پتا چلا۔ اس وقت وہ ایک ناتجربہ کار ماہرِ نفسیات تھیں اور ان کی نگرانی کا جائزہ لے رہی تھیں۔ مگر اس کے بعد کسیبا کو آزاد کرانے میں انھیں نو سال لگے۔
ڈاکٹر سٹیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'میں نے کسی کو ایسے حالات میں نہیں دیکھا جیسے حالات میں انھیں رکھا جا رہا تھا۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ سب قانونی تھا۔'
ڈاکٹر سٹیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر اس ہسپتال نے اس حقیقت کو چھپایا کہ کسیبا کو 'دن میں کبھی کبھار 23 گھنٹوں سے زیادہ وقت کے لیے قید رکھا جاتا تھا۔'
اس ہسپتال کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا تاکہ کسیبا کی شناخت کو محفوظ رکھا جاسکے۔ ڈاکٹر سٹیٹ بتاتی ہیں کہ اس ہسپتال کی دیوار میں ایک سوراخ تھا تاکہ کسیبا اپنی قید سے باہر چلتے پھرتے لوگوں کو دیکھ سکیں۔
مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات’اپنے پارٹنر کی خوشی کے لیے کولہوں میں انجیکشن لگوایا، اب برسوں سے ناقابل برداشت درد میں مبتلا ہوں‘اگر بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کی کمزوری سے بچنا ہے تو یہ چار عادات فوراً چھوڑ دیںکولیسٹرول، وزن اور فالج کے خطرے میں کمی سمیت کاجو کے دس حیران کن فوائد
خیال ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کی کسیبا کو سیرا لیون سے انسانی سمگلنگ کے ذریعے برطانیہ لایا گیا۔ اب ان کی عمر 50 برس سے زیادہ ہے۔ انھیں قلیل مدت تک بچوں کے حفاظتی مرکز رکھا گیا۔ مگر سات سالہ کسیبا کو طویل عرصے تک رہائش کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر سٹیٹ کے مطابق عملے نے کسیبا کو 'خطرناک' اور 'آنکھوں پر وار کرنے والی' قرار دیا تھا۔
انھیں ریکارڈ میں ایسا صرف ایک واقعہ ملا جس نے بظاہر ان پر پُرتشدد ہونے کا دھبہ لگا دیا۔ جب کسیبا 19 برس کی تھیں تب ایک بار فائر الارم بج رہا تھا اور لاک شدہ وارڈ کو خالی کرایا جا رہا تھا۔
کسیبا پریشانی میں دوسرے مریض کے پاس گئیں اور انھیں زور سے چھووا جس سے مریض کی آنکھ زخمی ہوگئی۔ اس کے بعد کسیبا کو دیگر مریضوں سے الگ کر دیا گیا۔
ڈاکٹر سٹیٹ کا کہنا ہے کہ 'اس کے بعد اس واقعے کے بارے میں یہی بات کی جاتی تھی کہ وہ 'آنکھوں پر وار کرتی ہیں اور انھوں نے دوسرے شخص کو بہتنقصان پہنچایا'۔'
لیکن ڈاکٹر سٹیٹ کو اس بات میں صداقت نظر نہیں آئی کیونکہ ایک اوسط عمر کی خاتون جو سیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور دہائیوں تک ہسپتال میں رہ رہی ہیں وہ کیسے کسی اور کے لیے خطرناک ہو سکتی ہیں۔
مہینوں کی تیاری کے بعد ڈاکٹر سٹیٹ نے کیمڈن کونسل میں 50 صفحات پر مشتمل رپورٹ دائر کی۔ یہ شمالی لندن کی وہ مقامی اتھارٹی تھی جس نے کسیبا کو ہسپتال منتقل کیا تھا۔ ڈاکٹر سٹیٹ کے مطابق یہ پہلے سے تسلیم شدہ تھا کہ کسیبا میں کوئی ذہنی بیماری نہیں۔ ان کی رپورٹ میں اخد کیا گیا کہ وہ خطرناک نہیں ہیں اور باقی لوگوں میں رہ سکتی ہیں۔
2016 میں صحت اور سوشل کیئر کے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی جس کا مشن کسیبا کو آزاد کرانا تھا۔
BBCڈاکٹر پیٹسی سٹیٹ اس ٹیم میں شامل تھیں جس نے نو سال تک کسیبا کی آزادی کی جنگ لڑی
معذور افراد کی تنظیم چینجنگ آور لائیوز سے منسلک لوسی ڈنسٹن کو کسیبا کی آزادانہ وکالت کی ذمہ داری سونپی گئی تاکہ ان کی ہسپتال سے محفوظ رہائی کی راہ ہموار ہو سکے۔
لیکن کسیبا کی رہائی کے لیے کورٹ آف پروٹیکشن کی منظوری درکار تھی۔ یہ ادارہ ایسے لوگوں کے لیے فیصلے لیتا ہے جو اپنی ذہنی حالت کے باعث اپنے لیے فیصلے نہیں لے پاتے۔
ڈنسٹن نے کہا کہ جب وہ پہلی بار کسیبا سے ملیں تو ہسپتال عملے نے ان کا تعارف 'آنکھوں پر وار کرنے والی' کے طور پر کرایا۔
وہ تنہا قید کسیبا کو دروازے میں ایک چھوٹی کھڑکی سے دیکھ رہی تھیں۔ 'وہ صوفے پر لیٹی ہوئی تھیں۔ کمرہ خالی تھا۔ ان کی زندگی پوری طرح پسماندہ تھی۔'
کسیبا سے اس پہلی ملاقات کے چھ سال بعد ڈنسٹن کو کورٹ آف پروٹیکشن کی وہ کال موصول ہوئی کہ اب انھیں ہسپتال سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ 'میں اس خوشی اور اطمینان میں روئی۔ مجھے ان کے لیے اچھا لگا، فخر کا احساس ہوا۔'
وہ کہتی ہیں کہ 'یہ میرے لیے نہیں۔ یہ ہم نے نہیں کیا۔ بلکہ انھوں نے کیا اور خود یہ ثابت کیا۔'
آزادی ملنے کے بعد کسیبا کی زندگی کیسی ہے؟
اب کسیبا معاون عملے کی مدد سے کمیونٹی میں رہتی ہیں۔ یہ عملہ ان کے ساتھ چھو کر، اشارے کر کے اور واضح زبان استعمال کر کے تعاون کرتا ہے۔ ان کی کیئر مینیجر کے مطابق انھیں فیشن میں دلچسپی ہے، اپنے گھر پر فخر ہے اور لوگوں میں ملنا جلنا بہت پسند ہے۔
مینیجر نے کہا کہ 'ان میں عمدہ حس مزاح ہے۔ وہ ایک خوبصورت انسان ہیں۔'
'یہاں دو ہفتے کام کرنے کے بعد وہ میرے پاس آئیں اور مجھے گلے لگایا۔ یہ کوئی ایسا شخص نہیں جو آنکھوں پر وار کرے۔'
پارلیمان میں موجود ذہنی صحت کے بل کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں آٹزم سے متاثرہ لوگ اور وہ افراد جن میں سیکھنے کی صلاحیت نہیں، انھیں علاج کے نام پر حراست میں نہیں رکھا جا سکے گا۔ ایسے لوگوں کو دراصل ذہنی بیماری سے مثاثرہ نہیں سمجھا جاتا۔
مگر حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت تک بڑی تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی جب تک یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ سماج میں مدد کے متبادل انتظامات موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود لوگوں کو جائزے کے لیے اب بھی قانونی طور پر 28 روز تک رکھا جا سکے گا۔
کیمڈن کونسل سے منسلک جیس میکگریگر نے کہا یہ 'المیہ' ہے کہ کسیبا نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہسپتال میں گزارا۔ 'میں ذاتی طور پر معذرت خواہ ہوں۔'
این ایچ ایس کے دماغی صحت کے ٹرسٹ، جس کا نام کسیبا کی شناخت کے تحفظ کے لیے نہیں دیا جا سکتا، نے کہا کہ کسی بھی موقع پر اس کے انتظامات پر سوالیہ نشان نہیں اٹھایا گیا اور سروس کو کیئر کوالٹی کمیشن نے شاندار قرار دیا تھا۔
ٹرسٹ نے فائل آن فور انویسٹیگیٹس کو بتایا کہ جب کسی کو طویل مدت کے لیے الگ تھلگ کیا جاتا ہے تو انھیں ذاتی بیڈروم، باتھ روم، لونگ روم اور باغ دیا جاتا ہے۔
ٹرسٹ نے کہا کہ 2010 سے وہ مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ تمام طویل مدتی رہائشیوں کو کمیونٹی کے اندر جہاں تک ممکن ہو بہتر نگرانی فراہم کی جائے۔ تاہم اس کے مطابق دوسرے مریضوں کے اہل خانہ کی طرف سے لائے گئے قانونی کیس کی وجہ سے انھیں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس کے مطابق بعد میں عملے نے برسوں تک انتھک محنت کی تاکہ مناسب انتظامات کیے جا سکیں اور اس سروس کو2023 میں بند کر دیا گیا تھا۔
اچھی سیکس لائف کا راز: جنسی تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟اگر بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت کی کمزوری سے بچنا ہے تو یہ چار عادات فوراً چھوڑ دیں’ورجینیٹی ٹیسٹ‘: پہلے والدہ کنوارپن ٹیسٹ کے لیے لے گئیں، پھر شادی کے بعد ساس کو بیڈ شیٹ دکھا کر میرے کنوارے ہونے کا ثبوت دیا‘مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات’اپنے پارٹنر کی خوشی کے لیے کولہوں میں انجیکشن لگوایا، اب برسوں سے ناقابل برداشت درد میں مبتلا ہوں‘