گھر پر کسی نے قبضہ کرلیا تو مجبوراً سڑک پر بھیک مانگنا شروع کر دی ۔۔ یہ مشہور شخصیت کون ہیں جو سڑک پر آگئے؟

ہماری ویب  |  Nov 30, 2022

پاکستان نے بے شمار ادیب اور کہانی نویس پیدا کئے ہیں جنہوں نے اپنے قلم سے معاشرے میں شعور بیدار کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا، ایسا ہی ایک نام مشتاق احمد کاملانی بھی تھا جن کے افسانوں نے خوب شہرت پائی لیکن اس بہترین قلم کار کی حالت پر ہر انسان افسردہ ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ کے مطابق انتہائی خستہ حال فقیر کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر موجود ہے کہ "یہ کسی عام فقیر کی تصویر نہیں بلکہ سجاول تحصیل ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف کہانی نویس اور ناول نگار مشتاق کاملانی ہیں۔

مشتاق کاملانی سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ذہین ترین طالب علموں میں سے ایک تھے ،فر فر انگریزی بولتے، فارسی، پنجابی اور اردو تو جیسے ان کی مادری زبانیں ہوں۔

ان کی لکھی ہوئی کہانیاں آل انڈیا ریڈیو اور آکاشوانی پر بھی چلتی رہیں، مشتاق احمد کاملانی نے اپنے افسانے “گونگی بارش” اور “چپٹا لہو” لکھ کر سندھی افسانے نگاری میں وہ نام پیدا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا نام کہانی اور افسانہ نگاروں کی صفحہ اول میں شمار ہونے لگا۔

انہوں نے اپنا ناول “رو لو” عین گریجویشن کے امتحاں کے دوران ہی لکھا تھا ، جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء کے زمانے میں ایک کہانی “گھٹی ہوئی فضا” کے نام سے بھی لکھی۔

نامور ادیب کے چھوٹے سے گھر پر قبضہ کیا گیا جس کے بعد یہ سالوں سے دن کے وقت ٹھٹھہ کی گلیوں میں اور رات کو سجاول کے بس اسٹاپ پر بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

واقفان حال کہتے کہ مشتاق کاملانی کے چہرے پر آپ کو بیک وقت دو مخالف کیفیتیں دیکھنے کو ملیں گے ، یعنی آنکھوں میں آنسو ، اور ہونٹوں پر تمام انسانیت پر طنزیہ مسکراہٹ ہوتی ہے۔

کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس پوسٹ میں ارباب اختیار سے اپیل کی گئی کہ خدارا ! مشتاق کاملانی کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائیے ورنہ مشتاق کاملانی کے جملے پر ہی عمل کر لیجئے جو انہوں نے ایک کہانی میں لکھا۔

کہ اگر اللہ نے تمہارے منہ میں زبان رکھی ہے اور اسے سچ کہنے کے لیے اس کا استعمال نہیں کرتے ، تو ایک احسان کرو ، اسے کٹوا لو ۔۔ اور ہاں ۔۔ جہاں اتنی محنت ہوگی ، وہاں ایک کام اور بھی کروا لینا ۔۔ اپنی یہ ناک بھی کٹوا دینا ، انسانیت کو تم پر کم از کم شرم تو نہ آسکے "۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More