سیلابی ریلے کی نذر ہونے والے کانسٹیبل حیدر علی: چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی جسے ’پولیس یونیفارم کا اتنا جنون تھا کہ رات کو بھی پہنے رکھتا‘

بی بی سی اردو  |  Jul 18, 2025

’شور مچ گیا کہ حیدر علی کے ہاتھوں سے رسی چھوٹ گئی ہے اور وہ تیز پانی میں بہہ گیا ہے۔۔۔ نوجوانوں نے حیدرعلی کو بچانے کے لیے پانی میں چھلانگیں بھی لگائیں لیکن قدرت کو اس کی شہادت مطلوب تھی۔‘

گذشتہ دو روز کے دوران ہونے والی شدید بارشوں کے نتیجے میں پانی میں پھنسے سینکڑوں شہریوں کو بچانے کے لیے کیے گئے آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکار حیدر علی دریائے جہلم میں بہہ گئے تھے۔

ان کی تدفین جمعے کو ان کے آبائی علاقے ’سیدپور‘ میں کر دی گئی ہے۔

جہلم پولیس کے ڈی ایس پی شہباز احمد ہنجرا اس ٹیم کی قیادت کررہے تھے جس نے جمعرات کے روز دریائے جہلم میں آنے والے سیلابی پانی میں گھرے چار سو سے زائد شہریوں کو ریسکیو کیا اور اسی آپریشن کے دوران کانسٹیبل حیدر علی دوسروں کو بچاتے ہوئے خود پانی میں بہہ گئے تھے۔

ڈی ایس پی شہباز احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حیدر علی اپنے نام کی طرح بہادر تھا اور لوگوں کو ریسکیو کرتے وقت وہ جوش اور جذبے کا مظاہرہ کر رہا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ لوگوں کو بچاتے وقت اس کے اندر کس قدر خوشی کے جذبات ہیں، جب چھوٹے بچوں کو سیلابی پانی سے باہر نکالا گیا تو حیدر علی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو میں نے خود دیکھے اور اس کا کندھا تھپتھپا کر شاباش بھی دی۔۔۔ لیکن شاید یہ اس کی زندگی کے آخری لمحات تھے۔‘

والدین کا اکلوتا بیٹا، چھ بہنوں کا بھائی اور پولیس میں بھرتی ہونے کا جنون

حیدر علی کے کزن غلام رسول نے بی بی سی کو بتایا کہ حیدر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، اس کے والد کراچی میں مزدوری کرتے تھے جبکہ یہ اپنی والدہ اور چھ بہنوں کے پاس آبائی گاؤں سید پور میں رہتا تھا۔

ان کے مطابق ’حیدر علی کو محکمہ پولیس میں بھرتی ہونے کا جنون تھا، وہ جب سرکاری گاڑی دیکھتا تو کہتا کہ دیکھنا ایک دن میں بھی اس گاڑی میں بیٹھوں گا۔

’اس کو پولیس کی وردی کے ساتھ عشق تھا، جس کا اظہار وہ کرتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ جب میں پولیس میں بھرتی ہو جاؤں گا تو میں شلوار قمیض نہیں پہنوں گا۔‘

غلام رسول بتاتے ہیں کہ ’وہ اکثر رات کو سوتا بھی پولیس یونیفارم میں تھا جس پر ہم کزنز اس کا مذاق اڑاتے تھے کہ تم تو 24 گھنٹے ڈیوٹی پر ہی ہوتے ہو لیکن حیدر علی کہتا تھا کہ اتنی مشکل سے تو یہ وردی ملی ہے تو اب اسے چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔‘

حیدر علی کے بچپن کے دوست عامر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچپن میں حیدر کے پسندیدہ مشاغل دوڑ، تیراکی اور دیوار کے ذریعے چھت پر چڑھنا تھے۔‘

ان کے مطابق ’جب ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ تمھارا کرکٹ میں شوق نہیں تو وہ کہتا کہ میں ایسے کھیل کھیلتا ہوں جو کہ میری عملی زندگی میں کام آ سکے اور نوکری کے بعد ان سب چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، جب ہم اس سے پوچھتے کہ کون سی نوکری تو وہ کہتا پولیس کی نوکری۔‘

ان کے مطابق ’میں سمجھتا ہوں کہ اس کو جنون تھا پولیس کی نوکری کا، شاید یہی وجہ ہے کہ جب سال 2018 میں جہلم پولیس کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو وہ پیش پیش تھا اور بغیر کسی سفارش کے وہ منتخب ہو گیا۔‘

حیدر علی کے ہمسائے وجاہت علی کہتے ہیں کہ ’ایک غریب گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود حیدر علی نے اپنی غربت کو ڈھال نہیں بنایا اور محنت کی۔

’وہ سب کی خوشی غمی میں شریک ہوتا اور گاؤں والوں کے کام آ کر خوشی محسوس کرتا۔‘

ان کے مطابق ’وہ بچوں کا دوست اور بڑوں کا مہربان تھا، ہنس مکھ شخصیت کا مالک تھا، اس نے کبھی کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کیا۔‘

وجاہت علی کے مطابق ’محکمہ پولیس میں بھرتی ہونے کے بعد حیدر علی گاؤں والوں کو کہتا تھا کہ کوئی کام ہو تو مجھے بتا دیا کریں۔‘

بارشوں کے باعث پیدا ہونے والے سیلابی ریلے میں پھنسے افراد کو نکالنے کے لیے ضلع جہلم میں ہنگامی اقدامات کیے گئے اور پولیس اور دیگر اداروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں تاہم ریلے میں چار سو کے لگ بھگ پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے کے لیے پولیس اور ریسکیو 1122 نے رسوں کی مدد لی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر طارق عزیز سندھو کہتے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے پولیس کو الرٹ کیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ شہریوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’ریسکیو آپریشن کے دوران اچانک پانی کے بہاؤ میں شدت آ گئی جس کی وجہ سے حیدر بہہ گیا۔‘

پنجاب میں شدید بارشوں کے باعث کم از کم 63 افراد ہلاک: کیا چکوال میں ’ریکارڈ‘ بارشوں کی وجہ واقعی ’کلاؤڈ برسٹ‘ تھا؟دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘پاکستان میں مون سون کی ’قبل از وقت‘ بارشوں اور سیلاب سے درجنوں ہلاکتیں، سیاحوں کو محتاط رہنے کی ہدایتسوات میں دریا کنارے غیر قانونی تعمیرات کیسے خطرہ بنیں؟جب ریسکیو آپریشن کے لیے کال کی تو ’حیدرعلی پیش پیش تھے‘

بارشوں کے باعث پیدا ہونے والے سیلابی ریلے کی قیادت کرنے والے ڈی ایس پی شہباز احمد ہنجرا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ 'جب اطلاع ملی کہ بہت سارے لوگ سیلابی ریلے میں پھنس گئے ہیں جن میں کچھ پولیس اہلکاران بھی شامل ہیں، تو میں نے فوری طور پر صدر سرکل کے تمام تھانوں کو نفری بھجوانے کی وائرلیس کال کی تاکہ آپریشن شروع کیا جاسکے۔‘

ان کے مطابق ’میرے دفتر سب سے پہلے جس تھانے کی نفری پہنچی اس میں حیدر علی پیش پیش تھا، چونکہ یہ میرے ساتھ پرسنل سٹاف میں بھی تعینات رہ چکا ہے تو میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں، حیدرعلی کمانڈو کے نام سے مشہور تھا، میں نے کہا کہ کمانڈو تیار ہو تو اس نے سلام کر کے کہا جی ہاں سر میں تیارہوں۔‘

شہباز احمد ہنجرا بتاتے ہیں کہ ’جس علاقے میں پانی میں تیزی تھی وہاں پولیس نے رسوں کی مدد سے ریسکیو آپریشن شروع کیا، جس میں ہمیں اللہ تعالی نے کامیابی دی اور ہم نے تمام پھنسے ہوئے لوگوں کو پانی سے باہر نکال لیا، کچھ لوگوں کے مکانات گر چکے تھے، کچھ لوگ مکانوں کی چھتوں پر تھے، ہم نے سب کو بہترین حکمت عملی سے باہر نکال لیا۔‘

ان کے مطابق ’جونہی کوئی کامیابی ملتی اور شہری خصوصاً خواتین اور بچے ریسکیو کر کے پانی سے باہر نکالے جاتے تو پولیس فورس کا جذبہ بڑھانے کے لیے سب 'اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے‘، ہمارا یہ آپریشن گھنٹوں تک جاری رہا تھا جس میں کسی شہری کی جان نہیں گئی تھی اور سب کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا لیکن آپریشن کے آخر میں جب ہم دو ٹیموں کی شکل میں واپس مڑنے لگے تو اچانک تیز پانی کا ریلا آیا جس سے حیدر علی کا پاؤں پھسل گیا اور رسہ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔‘

ڈی ایس پی شہباز احمد ہنجرا کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں پولیس اہلکاروں نے فوراً شور مچایا اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر رسے کو ازخود چھوڑ کر پانی میں چھلانگیں لگا دیں لیکن حیدر علی کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کدھر گیا، پانی کی رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس کے جوان ہمارے بچوں کی طرح ہوتے ہیں، ہم نے ان کے سہارے پر ہی تو ساری بھاگ دوڑ اور کارروائیاں کرنی ہوتی ہیں، ایسے میں آپ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ آپ کا کوئی بچہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پانی میں بہہ جائے۔

’وہاں موجود سب پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن قدرت کے سامنے سب بے بس تھے۔‘

دریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘پنجاب میں شدید بارشوں کے باعث کم از کم 63 افراد ہلاک: کیا چکوال میں ’ریکارڈ‘ بارشوں کی وجہ واقعی ’کلاؤڈ برسٹ‘ تھا؟ہنزہ میں نئی تعمیرات کے لیے جاری تمام این او سی منسوخ: ’ماحول دشمن سیاحت کسی کے مفاد میں نہیں‘قلات میں مسافر بس پر حملے میں صابری گروپ کے قوال ہلاک: ’ہمارے تین بندے ضائع ہو گئے، اب ہم کیا بولیں‘سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا واقعہ: ریسکیو اہلکار کتنی دیر میں پہنچے اور اب سوات میں کیا ہو رہا ہے؟جب سیلابی ریلے نے عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا رُخ کیا: ’راستے میں موجود گاڑیاں پھنس گئیں، لوگ اندر محصور ہو گئے تھے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More