’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیلنے والا ’ٹک ٹاک کا جنون‘ نوجوانوں کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 24, 2023

BBC

بی بی سی تھری کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک اپنے صارفین میں جنون کی ایک کیفیت پیدا کر رہا ہے جو حقیقی دنیا میں سماج مخالف رویوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

ٹک ٹاک کے سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپ کے کاروبار کی ’ترقی کی رفتار کم ہونے کے خوف سے‘ اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹا نہیں جا رہا۔

جنون کی اس کیفیت کے دوران ٹک ٹاک کا استعمال کرنے والے بلاوجہ اور بلاضرورت اپنے آپ کو اس کے استعمال میں مصروف رکھتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت ٹک ٹاک کے سابق ملازمین، ایپ صارفین کے انٹرویوز اور بی بی سی کی جانب سے کیے جانے والے سوشل میڈیا ڈیٹا کے تجزیے سے ملتا ہے۔

اس جائزے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رجحان روزمرہ زندگی کے معاملات میں خلل اور خرابی کا باعث بن رہا ہے۔

بی بی سی کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ٹک ٹاک کے مخصوص الگوردھم اور ڈیزائن کے باعث لوگ ایسی ویڈیوز دیکھ رہے ہیں جو انھیں عام طور پر نہیں دیکھنی چاہییں اور اس کے نتیجے میں وہ پلیٹ فارم پر جو ویڈیوز خود شائع کرتے ہیں ان میں میں وہ لوگوں کو ایسے ہی کام کرنے ترغیب دیتے ہیں جو انھوں نے ان ویڈیوز میں دیکھے ہوتے ہیں۔

ٹک ٹاک نے ماضی میں اپنے آپ کو خرابی پیدا کرنے کے رجحان کا باعث بننے کے الزامات کی تردید کی ہے جیسے کہ گذشتہ ماہ لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ میں افواہوں کے باعث لوٹ مار کی دھمکیاں سامنے آنے کے بعد برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک سمیت دیگر سیاستدانوں نے اس کا الزام اربوں صارفین والی اس ایپ پر لگایا تھا۔

تاہم بی بی سی نے حالیہ مہینوں میں چار ایسے مواقع کی نشاندہی کی ہے جب ٹک ٹاک پر ضرورت سے زیادہ موادپوسٹ کرنا نقصان دہ رویے سے منسلک ہوتا ہے:

امریکہ کے شہر ایڈاہو میں ایک قتل کے مقدمے سے متعلق شائع ہونے والا مواد جس کی وجہ سے بے گناہ لوگوں پر جھوٹا الزام لگایا گیا۔ برطانیہ کے لنکا شائر میں لاپتہ ہونے والی نکولا بلی سے متعلق پولیس کی تفتیش میں مداخلت کی کوششبرطانیہ بھر کے سکولوں میں احتجاج اور اس دوران ہونے والی توڑ پھوڑ فرانس میں ہونے والے فسادات اور اس کا غیر متوقع طور پر ملک کے دیگر حصوں تک پھیلنا۔

ٹک ٹاک کے سابق کارکنان اور عملہ جنون سے بھری ان تمام کارروائیوں میں ٹک ٹاک کے کردار کو ’جنگل کی آگ‘ سے تشبیہ دیتے ہیں اور انھیں ’خطرناک‘ بیان کرتے ہیں، خاص طور پر اس وجہ سے کہ اس ایپ کے استعمال کرنے والوں میں بڑی تعداد جوشیلے نوجوانوں کی ہے اور وہی اس سے سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتے ہیں۔

ٹک ٹاک کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا الگوردھم حفاظت کو ترجیح دیتے ہوئے مختلف گروہوں کو اکٹھا کرتا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہی جیسا مواد دکھانے کے سلسلے کو توڑنے کے لیے مختلف قسم کا مواد لوگوں کو متعارف کرواتا ہے تاہم اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ نقصان دہ یا غلط معلومات کو ہٹایا جا سکے اور غیر تصدیق شدہ معلومات والی ویڈیوز تک رسائی کو کم کیا جا سکے۔

ایڈاہو کے قتل - نومبر 2022

میں نے گذشتہ سال نومبر سے پہلے کبھی ماسکو، ایڈاہو کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ پھر اچانک میری ٹک ٹاک فیڈ چار طلبہ کے ان کے بیڈ رومز میں ہونے والے قتل کی تفصیلات سے بھر گئیں۔ ان کے دو زندہ بچ جانے والے دوست قتل کے دوران اسی گھر میں سو رہے تھے۔ یہ سب مجھے میڈیا کی جانب سے اس کیس کی کوریجسے پہلے ٹک ٹاک سے معلوم ہو گیا۔

قتل کس نے کیا؟ اس سوال کے ارد گرد قیاس آرائیوں پر مبنی نظریات نے ٹک ٹاک کو اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر ٹک ٹاک صارفین ایک جنون میں مبتلا ہو گئے۔

میں نے مقدمے کے بارے میں جو ویڈیوز دیکھی ہیں انھیں یوٹیوب پر صرف 80 ہزار مرتبہ دیکھا گیا مگر اس کے مقابلے میں ٹک ٹاک پر نومبر 2022 سے اس سال اگست تک انھیں دو ارب سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

ٹک ٹاک کے سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ سب صرف ٹک ٹاک کے ڈیزائن کی وجہ سے ہوتا ہے۔

صارفین زیادہ تر اپنے لیے ایلگوردھم کے ذریعے ڈیزائن کردہ ’فار یو پیج‘ پر مواد دیکھتے ہیں۔ یہ منتخب کردہ مختصر ویڈیوز کی ایک فیڈ ہوتی ہے جو ہر فرد کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے الگوردھم کا استعمال کرتی ہے۔

BBC

جب آپ ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو پوسٹ کرتے ہیں تو وہ دوسرے صارفین کی فیڈ پر بھی نظر آتی ہے جن کے بارے میں ٹک ٹاک کے ایلگوردھم کو گمان ہوتا ہے کہ انھیں یہ ویڈیو اچھی لگ سکتی ہے۔ یعنی اسے سوشل میڈیا پر صرف آپ کے دوستوں اور فالوئرز تک ہی نہیں پہنچایا جاتا۔

ایلگوردھم اس دوران یہ جانچتا ہے کہ اس ویڈیو کے ساتھ صارفین کس طرح انگیج کر رہے ہیں اور پھر اسے اس مناسبت سے کروڑوں صارفین تک پہنچا دیتا ہے جو کسی بھی دوسرے سوشل میڈیا نیٹ ورک سے رفتار اور صارفین کی تعداد کے اعتبار سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔

سابق ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں اکثر سوشل میڈیا صارفین صرف مواد کو دیکھتے ہیں ٹک ٹاک صارفین میں ان کے برعکس اپنی ویڈیوز بنانے کا رجحان کافی زیادہ ہے۔

کتاب ’ٹک ٹاک بوم‘ کے مصنف کرس سٹوکل واکر نے اپنی کتاب میں سنہ 2021 میں ایک اندرونی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹک ٹاک کے لیے صارفین کی مواد بنانے میں حصہ لینا ’اولین ترجیح‘ ہے۔ شرکت کا یہ پہلو جیک شووالٹر جیسے افراد کے لیے خوفناک شکل بھی اختیار کر سکتا ہے جن پر اڈاہو میں متعدد قتل کی وارداتوں کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا اور انھیں ’ہوڈی پہنے ہوئے شخص‘ کا نام دیا گیا تھا۔

ان کی بہن نے ان کو ملنے والی دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کے واقعات کی مذمت کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی جھوٹی ویڈیوز متعدد متاثرین کو جنم دیتی ہے۔‘

ایک ٹک ٹاکر اولیویا اپنے گھر سے ہزاروں میل دور ہونے والے اس ڈرامے میں اس قدر دلچسپی لینے لگیں کہ وہ چھ گھنٹے طویل پرواز کے ذریعے فلوریڈا سے اڈاہو آئیں اور ایک ہفتے تک جائے وقوعہ پر شوٹنگ کرتی رہیں۔ ان کی ایک ویڈیو کو اس دوران دو کروڑ صارفین نے دیکھا۔

اولیویا نے مجھے بتایا کہ ’مجھے محسوس ہوا کہ مجھے وہاں جانا چاہیے اور جواب ڈھونڈنے چاہییں اور دیکھنا چاہیے کہ میں کسی بھی طرح سے مدد کر سکتی ہوں یا نہیں۔‘

ایک تجربہ کار مواد بنانے والی صارف جنھوں نے جرائم کے متعدد واقعات پر ویڈیوز پوسٹ کی ہیں، یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ جب وہ جائے وقوعہ پر جاتی ہیں تو ایسے میں بننے والا ٹک ٹاک کا مواد ’بہت بہتر پرفارم کرتا ہے۔‘

اولیویا نے لوگوں پر جھوٹے الزامات نہیں لگائے لیکن انھوں نے کہا کہ روایتی نیوز میڈیا کے برعکس، وہ بغیر تصدیق کے متنازعہ دعوے پوسٹ کر سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کے ’میرے پاس ایسا کرنے کی طاقت موجود ہے۔‘

اولیویا کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر اڈاہو جیسے موضوعات پر ملنے والے ویوز اور انگیجمنٹ صارفین کو خود ویڈیوز بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ٹک ٹاک پر اگر ایک ویڈیو کروڑوں مرتبہ پلے کی جائے تو اس کے برعکس اس ویڈیو کو انسٹاگرام پر صرف 200 افراد دیکھیں گے۔ یہ صرف ٹک ٹاک کے ایلگوردھم کا کمال ہے۔‘

دسمبر میں برائن کوہبرگر، جن کا نام اس سے پہلے کسی بھی ویڈیو میں سامنے نہیں آیا تھا، کو گرفتار کیا گیا اور پھر قتل کے جرم میں نامزد کر دیا گیا۔

نکولا بلی کا مقدمہ - جنوری 2023

اولیویا تو ایک تجربہ کار سوشل ویڈیو میکر تھیں لیکن یہ جنون ایسے افراد کو بھی متاثر کر سکتا ہے جنھوں نے اس سے پہلے کبھی اس طرح کا مواد پوسٹ نہ کیا ہو اور پھر اچانک انھیں بڑی تعداد میں ویوز مل جائیں۔

جب 45 سالہ نکولا بُلی لنکا شائر کے چھوٹے سے گاؤں میں لاپتہ ہو گئی تھیں تو ہیتھر اس پراسرار خبر کے بارے میں ٹک ٹاک پر مواد دیکھتے ہوئے اس جنون کا شکار ہو گئی تھیں۔

BBC

ہیتھر نے بتایا کہ ’جب آپ اس پرایک ہی موضوع سے متعلق ویڈیوز دیکھتے ہیں تو ٹک ٹاک کے لیے یہ سوچنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ آپ کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے ایک جھوٹی ویڈیو پوسٹ کی جس میں نکولا کی سب سے اچھی دوست ایما وائٹ کو گمشدہ خاتون کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس ویڈیو کو 72 گھنٹوں کے اندر 36 لاکھ ویوز ملے۔

میں نے نکولا بلی کے نام کے ہیش ٹیگ کا استعمال کرنے والی ویڈیوز کے ٹک ٹاک پر ان کے لاپتہ ہونے کے پہلے تین ہفتوں کے اندر سامنے آنے ویوز کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ تعداد 27 کروڑ تھی جو دیگر بڑی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ان ویڈیوز کو ملنے والے ویوز کے مقابلے میں بہت کم تھی۔

ہیتھر کبھی بھی اس جگہ نہیں گئیں جہاں سے نکولا ممکنہ طور پر لاپتہ ہوئی تھیں لیکن بہت سے دوسرے ٹک ٹاکرز نے ایسا ہی کیا۔

پولیس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو بنانے والوں کے بارے میں سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے یہ تمام لوگ اس مقدمے میں مداخلت کر رہے ہیں یہ مناسب نہیں ہے۔

نکولا بلی کی لاش 17 فروری کو دریا میں اس جگہ سے ملی جہاں سے وہ لاپتہ ہوئی تھیں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان کی موت حادثاتی طور پر ڈوبنے سے واقع ہوئی تھی۔

احتجاج اور فسادات - فروری 2023 اور جون 2023

برطانوی سکولوں اور فرانس کی سڑکوں پر پیش آنے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹک ٹاک کیسے حالات کو خراب کرنے میں استعمال ہو سکتی ہے۔

فروری 2023 میں میری سائیڈ کے رینفورڈ ہائی سکول میں لڑکیوں کے سکرٹ کی لمبائی چیک کرنے کے خلاف مظاہرہ جب ٹک ٹاک پر پوسٹ کیا گیا تو تین دن میں ہی 60 سکولوں میں طلبا نے ایسے ہی مظاہرے کیے۔ ایک ہفتے تک یہ معاملہ 100 سکولوں تک پھیل چکا تھا۔

ان میں سے چند مظاہروں کے دوران کھڑکیاں توڑی گئیں، درختوں کو جلایا گیا اور اساتذہ پر حملہ کیا گیا۔

BBC

ایک سابق ٹک ٹاک ماڈریٹر جیسمین کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ٹک ٹاک اب لوگوں کو جو کچھ کرنے کے قابل بنا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایک سکول میں وائرل ہونے والی ایک چیز کو لے کر اسے پورے خطے میں اس غرض سے پھیلایا جائے اور ایک ایسی مقابلے کی فضا پیدا کی جائے کہ کون دوسرے سکولوں سے آگے بڑھ سکتا ہے۔‘

ٹک ٹاک کے مطابق زیادہ تر ویڈیوز میں طلبا پرامن مظاہرے کر رہے تھے لیکن جن اساتذہ اور طلبا سے میری بات ہوئی، وہ ان ویڈیوز کے مجموعی اثر کے بارے میں فکرمند تھے۔

سکول کے مظاہروں کے دوران میں نے فیصلہ کیا کہ دیکھا جائے کہ ٹک ٹاک کا ایلگوردھم کسی ایسے اکاؤنٹ کو کیا مواد تجویز کرے گا جو 15 سال کا ایسا لڑکا ہو جسے فٹ بال پسند ہے۔

فٹ بال اور گیمنگ کی ویڈیوز کی تجویز کے بعد مجھے چوتھی ویڈیو ایک 25 سالہ انفلوئنسر کی دکھائی گئی جس کا نام ایڈریان مارکووچ تھا۔ ان کی چند ویڈیوز میں سکول قوانین کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا تھا جیسا کہ یونیفارم، ہوم ورک یا ٹائلٹ جانے کے لیے اجازت مانگنے کا اصول۔ وہ اساتذہ کو برے ناموں سے بلانے کی ترغیب بھی دے رہے تھے۔

ان کی ویڈیوز کے نیچے برطانیہ کے چند کم عمر صارفین نے لکھا تھا کہ اس مشورے پر عمل کرنے کے بعد ان کو سکول سے معطل کر دیا گیا یا نکال دیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایڈریان نے کہا کہ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ’مضحکہ خیز اصولوں کے خلاف بغاوت کریں‘ لیکن انھیں صارفین کی ایک اقلیت کے برے فیصلوں کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

سکول مظاہروں کے چند ماہ بعد فرانس باالخصوص پیرس میں 17 سالہ ناہل کی پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت پر فسادات ہوئے۔ اس پولیس افسر پر قتل کا مقدمہ چلا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فسادات کا الزام ٹک ٹاک اور سنیپ چیٹ پرعائد کیا۔

BBC

لیکن کیا واقعی ٹک ٹاک کا کوئی کردار تھا یا فرانسیسی صدر صرف توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے؟ ناہل کی ہلاکت کے بعد ناانصافی کا احساس موجود تھا اور یہ فسادات سوشل میڈیا کی مدد کے بغیر ہی شروع ہو گئے تھے۔

تاہم ٹک ٹاک پر اسے جو توجہ ملی وہ کسی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے زیادہ تھی۔ سنیپ چیٹ پر ناہل کے نام سے تقریبا ایک لاکھ 67 ہزار 700 سو ویڈیوز ملیں جبکہ ٹک ٹاک پر 850 ملین عوامی ویڈیوز موجود تھیں جن میں ناہل کا ہیش ٹیگ استعمال ہوا تھا۔

پیرس کی مضافات میں وری شیٹیلون نامی قصبے کی ویڈیوز میں ایک جلتی ہوئی بس نظر آئی۔ مقامی میئر جین ماری ولیان کا کہنا ہے کہ ایسے مظاہرے بہت کم ہوتے ہیں۔

ان کی رائے میں ’یہ بات کافی ڈرامائی تھی کہ فسادات ایسے چھوٹے قصبوں تک بھی پہنچے جہاں کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور سب کچھ ٹھیک تھا۔‘

BBCوری شیٹیلون میئر جین ماری ولیان

جین ماری ولیان نے کہا کہ ’ایک بار جب فسادات شروع ہوئے تو ٹک ٹاک ایک آلہ بن گیا جس کی مدد سے یہ دکھایا گیا کہ دیکھو، میں یہ کر سکتا ہوں، کیا تم مجھ سے زیادہ بہتر کر سکتے ہو؟‘

ان کا یہ دعوی ٹک ٹاک پر موجود ایسی ویڈیوز سے بھی ثابت ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ زیادہ پرتشدد ہوتی جاتی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹک ٹاک پر تباہی کی ویڈیوز دیکھنا ’چند لوگوں کے لیے روزمرہ کی بات بن گئی تھی۔‘

’یہ بہت تیزی سے پھیلا‘

امریکہ اور برطانیہ میں سابق ٹک ٹاک ملازمین نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی ایسے مواد کو محدود کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی کیوں کہ ایسا کرنے سے اس ایپ کی ترقی کی رفتار کم ہو گی۔

ان میں سے ایک، جنھیں لوکاس کا نام دیا جا رہا ہے، ٹک ٹاک میں ڈیٹا سٹریٹجی اور تجزیہ کرنے کا کام کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹک ٹاک اتنی تیزی سے پھیلا کہ کمپنی سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور انھیں علم ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ ایپ کس طرح استعمال ہو گی۔‘

’لیکن خطرناک مواد کے معاملے میں کم از کم میں نے کبھی ان سے یہ نہیں سنا کہ وہ اسے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عام طور پر وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتے۔‘

ٹک ٹاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس 40 ہزار سیفٹی پروفیشنل ہیں جو مواد پر نظر رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ ’نقصان دہ غلط معلومات پر مبنی ویڈیوز کی بڑی تعداد کو کوئی نہیں دیکھ پاتا۔‘

ٹک ٹاک ترجمان نے کہا کہ ’حفاظت کو یقینی بنانا درست ہی نہیں بلکہ کاروباری اعتبار سے بھی بہتر قدم ہے۔‘

کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ’شعبہ تعلیم، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور دیگر ماہرین کی مدد سے بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More