امریکہ نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہ کو ’عالمی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا فیصلہ اب ہی کیوں کیا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 18, 2025

Getty Imagesانڈین وزیر خارجہ نے اس امریکی اقدام کی تعریف کی ہے

امریکی محکمہ خارجہ نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے کالعدم عسکریت پسند گروہ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔

اس ضمن میں محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’دا ریزسٹنس فرنٹ، لشکرِ طیبہ کا فرنٹ اور نمائندہ گروہ ہے جس نے 22 اپریل 2025 کو پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اس حملے میں 26 شہری ہلاک ہوئے تھے۔ پہلگام حملہ انڈیا میں 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد شہریوں پر کیا گیا سب سے مہلک حملہ تھا، ممبئی حملے لشکرِ طیبہ نے کیے تھے۔ دا ریزسٹنس فرنٹ نے انڈین سکیورٹی فورسز پر کئی دیگر حملوں کی بھی ذمہ داری بھی قبول کی ہے، جس میں تازہ ترین حملہ 2024 میں کیا گیا ہے۔۔۔‘

انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امریکہ کے اس اقدام پر اُن کی تحسین کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکہ اور انڈیا کے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کا اظہار ہے۔ ’ایکس‘ پر اپنے پیغام نے انڈین وزیر خارجہ نے مزید لکھا کہ ’زیرو ٹالرینس فار ٹیررازم۔‘

امریکی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’محکمہ خارجہ کے یہ اقدامات ٹرمپ انتظامیہ کے اس عزم کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ، دہشت گردی کا مقابلہ، اور پہلگام حملے کے متاثرین کے لیے انصاف کی فراہمی کے لیے پُرعزم ہے۔‘

یاد رہے کہ 22 اپریل 2025 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح عسکریت پسندوں کے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری ابتدائی طور پر ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک بیان میں قبول کی تھی۔ تاہم 25 اپریل 2025 کو اس گروپ نے ٹیلی گرام پر جاری کردہ اپنے بیان میں پہلگام حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔

پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور مئی 2025 میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر فضائی حملے کیے تھے اور بعدازاں امریکی ثالثی کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

Getty Imagesپہلگام حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھےپہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرنے پر شکوک و شبہات

پہلگام حملے کے فوراً بعد انڈین میڈیا میں 27 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کے حوالے سے جو نام بار بار لیا گیا تھا وہ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا تھا۔

ان دعووں کی بنیاد اِس تنظیم کے نام سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک بیان تھا۔

بی بی سی مانیٹرنگ نے ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) سے منسوب اس بیان کا جائزہ لیا تھا تو پتا چلا کہ اِس بیان میں نہ تو دا ریزسٹنس فرنٹ کے نام کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کالعدم گروپ کا لوگو موجود تھا۔ جبکہ اس گروپ نے ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات میں اپنا نام اور لوگو کا استعمال کیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داری قبول کرنے کی غرض سے جو بیان سوشل میڈیا پر جاری کیا گیا تھا وہ ماضی میں اس گروپ کے جاری کردہ ایسے بیانات سے بالکل مختلف بھی ہے جن میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔

اگرچہ انڈین میڈیا نے بڑے پیمانے پر ’ٹی آر ایف‘ کا نام لیا لیکن بیان میں اس نام کا ذکر بالکل نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کے بجائے اپنی شناخت صرف 'کشمیر ریزسٹنس' کے طور پر کروائی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں انڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس گروپ نے سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ’کشمیر ریزسٹنس‘ کا نام استعمال کیا تاہم، اس گروپ نے ماضی میں اپنے پروپیگنڈے میں ’ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام استعمال کیا اور ’کشمیر ریزسنٹس‘ کی اصطلاح گذشتہ بیانات میں اس گروپ کی جانب سے استعمال ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔

بی بی سی مانیٹرگ کے مطابق نامناسب برانڈنگ اور محدود مواد کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر جہادی گروپوں، جیسے کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے برعکس ٹی آر ایف کا میڈیا آپریشن زیادہ مربوط نہیں اور یہ گروپ ٹیلی گرام کے ذریعے 'ریزٹسنس میڈیا' کے نام سے اپنا پروپیگنڈا کرتا ہے۔

Getty Imagesامریکہ کو ’ریزسٹنس فرنٹ‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

انڈیا میں تجزیہ کاروں نے امریکہ کے ذریعے دی ریزسٹنس فرنٹ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ انڈیا کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

انڈیا نے پہلگام حملوں کے لیے اس تنظیم کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہا تھا کہ یہ پاکستان کی پراکسی ہے۔ پاکستان حالانکہ اس دعوے سے انکار کرتا ہے۔

ویویک مشرا جو آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے اسٹریٹجک سٹڈیز پروگرام کے نائب ڈائریکٹر ہیں نے کہا کہ ’آپریشن سندور‘ کے بعد انڈیا اور امریکہ کے درمیان بیک چینل بات چیت کے تسلسل کو ظاہر کرنے کے علاوہ امریکہ کا یہ فیصلہ کئی اہم پیشرفتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’امریکہ کا فیصلہ عالمی سطح پر اس تنظیم کی تاثرات پر اثر ڈالے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تنظیم دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں تھی اور بظاہر یہ تنظیم ایک غیر دہشت گرد تنظیم جیسی تھی۔ یہ ایک ایسا باب تھا جو میرے خیال میں اب بند ہو چکا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں دہشت گردی کی کوئی ایک تعریف نہیں رہی ہے کیونکہ ہر ملک اسے اپنی اپنی نظر اور حالات کے مطابق دیکھتا رہا ہے اور اب بھی ایکھ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ قدم میرے خیال میں دیگر ملک کی دہشت گردی کی تعریف میں موجود اختلافات کو ہم آہنگ اور محدود کرے گا۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی کارروائی ممکنہ طور پر انڈیا کی اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کے تحت اس گروہ کے خلاف کارروائی کی کوششوں کو تقویت دے گی، جس کے تحت اس تنظیم اور اس کے رہنماؤں کے اثاثے منجمد کرنے، سفری پابندیاں لگانے اور اسلحہ کی ترسیل پر پابندی جیسے اقدامات لیے جا سکتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ میں اس قرارداد کو روکنے میں کامیاب رہا ہے۔

ویویک مشرا کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ اقوام متحدہ میں انڈیا کی بین الاقوامی انسداد دہشت گردی کی جامع کنونشن کو بھی تحریک دے گا جو کافی عرصے سے نظرانداز ہو رہی تھی۔‘

انھوں نے پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مذمتی پیغام میں اس گروپ کا نام لینے سے روکنے کی مبینہ کوشش پر انڈیا کی مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ کا یہ فیصلہ چین پر بھی دباؤ ڈالے گا کیونکہ چین ہی وہ واحد ملک رہا ہے جو پاکستان میں موجود مخصوص دہشت گرد گروپوں کے خلاف تمام قراردادوں کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہا ہے۔‘

انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے سابق پولیس سربراہ شیش پال وید نے بھی کہا کہ ’یہ انڈیا کی سفارتی کوششوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے پر سفارتی سطح پر بہت محنت کی گئی ہے اور اس کا نتیجہ سامنے آیا ہے۔

انھوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو کہا کہ ’یہ پاکستان کے لیے پر ایک دھچکا ہے جو کہ اس تنظیم کو ایک ’لوکل ریززسٹنس‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جو کہ ان کے مطابق درست نہیں ہے۔‘

انشو جوشی جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی پروفیسر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ انڈیا کے دہشت گردی کے خلاف مؤقف اور اس گروپ کو پاکستان کی پراکسی سمجھنے کو تسلیم کرتا ہے۔‘

لیکن کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ قدم مؤثر ثابت نہیں ہوگا کیونکہ یہ گروہ دوبارہ اپنی شناخت اور نام بدل کر کارروائی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔

واضح رہے کہ انڈیا نے اقوام متحدہ میں کئی مرتبہ اس تنظیم پر پابندی کا مطالبہ کر چکا ہے اور پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ اس کی مخالفت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پہلگام حملے کی مذمتی بیان سے اس گروہ کا نام ہٹا دیا گیا تھا۔

انڈین ارکان پارلیمنٹ نے بھی جو کہ پہلگام حملے کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے دیگر ممالک کے دورے پر گئے تھے بار بار اس گروہ کے مبینہ کردار کا ذکر کیا تھا اور پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

انڈیا اور امریکہ نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف تعاون کو بہتر بنایا ہے لیکن پہلگام حملے کے بعد یہ تعاون کمزور نظر آ رہا تھا اور امریکی صدر کے انڈیا اور پاکستان سے منسلک بیانیہ پر انڈیا میں اعتراض نظر آیا تھا۔

ویویک مشرا نے صدر ٹرمپ کی قیادت میں دوطرفہ تعلقات میں غیر یقینی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک تجارتی مذاکرات جاری رہیں گے، کیونکہ یہ گفتگو آسان نہیں ہوتیں۔‘

لیکن انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ امریکہ کا حالیہ قدم انڈیا پاکستان کے تعلق میں یقینی طور پر مثبت ہے، جس میں کچھ وقت سے تناؤ نظر آ رہا تھا۔

لیکن ویلینا چکارووا، جو کی انڈیا کی او آر ایف تھنک ٹینک کی وزیٹنگ فیلو ہیں کا کہنا ہے کہ ’یہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان ممکنہ تجارتی معاہدے کے لیے ایک مضبوط اشارہ ہے۔‘

لیکن انشو جوشی نے خبردار کیا کہ حالانکہ دونوں ممالک تجارتی معاہدہ چاہتے ہیں، لیکن یہ فرض نہیں کیا جانا چاہیے کہ حالیہ فیصلہ انڈیا-امریکہ کے جاری تجارتی مذاکرات سے متعلق ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ امریکہ کا یہ خاص فیصلہ فوری انڈیا امریکہ تجارتی مذاکرات میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہ کئی دیگر عوامل پر منحصر ہوگا اور یہ اپنا وقت لے گا۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں باہمی تعلقات میں کچھ منفی رجحانات ضرور دیکھنے کو ملے ہیں لیکن امریکہ کا ریزسٹینس فرنٹ کے خلاف قدم ایک مثبت پیش رفت ہے اور اس سے مزاکرات میں آسانی ہوگی۔

لیکن کئی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا کو امریکہ کے اس قدم کو اسکی نیت میں تبدیلی نہیں سمجھنا چاہیے۔

قومی سلامتی کے تجزیہ کار پرفل بکشی کے مطابق ’امریکہ دیکھے گا کہ اس کا مفاد کہاں ہے اور اگر میں امریکہ ہوتا تو میں بھی یہی کرتا۔‘

انھوں نے خبر رساں ایجینسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’آپ کو اپنے قومی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور انڈیا کو بھی اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرنا چاہیے۔‘

’ریزسٹنس فرنٹ‘ کیا ہے؟

ٹی آر ایف، جسے امریکی وزارت خارجہ نے کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم یا پراکسی قرار دیا ہے، ماضی میں عام شہریوں، خاص طور پر دوسری ریاستوں سے آنے والے تارکین وطن کارکنوں اور کشمیر میں اقلیتی ہندو برادری پر حملوں کا دعویٰ کرتی رہی ہے، تاہم متعدد مواقع پر اس گروپ نے بڑے پیمانے پر اس سے منسوب ہونے والے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید بھی کی۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ جموں کشمیر میں انڈین حکمرانی کے خلاف لڑنے والا ایک عسکریت پسند گروپ ہے جو سنہ 2020 کے ابتدائی مہینوں میں اُبھر کر سامنے آیا تھا۔ یہ گروپ مبینہ طور پر اگست 2019 میں انڈین حکومت کی جانب سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی قانونی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد قائم کیا گیا تھا۔

انڈین میڈیا میں بڑے پیمانے پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ٹی آر ایف کو پاکستان کی سپورٹ دستیاب ہے، تاہم پاکستان اس قسم کے الزامات اور دعوؤں کی تردید کرتا ہے۔ ٹی آر ایف ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات میں متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ وہ صرف انڈین ’قابض‘ فورسز کو نشانہ بناتا ہے اور کشمیر میں ان انڈین آباد کاروں پر حملوں کی دھمکی بھی دیتا ہے جو وہاں مستقل بنیادوں پر آباد ہو چکےہیں۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق اس گروپ کی جانب سے 12 اکتوبر 2019 کو پہلی مرتبہ کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔ انھوں نے سرینگر ہری سنگھ ہائی سٹریٹ میں ہونے والے ایک گرینڈ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

18 اپریل 2020 کو انڈین ریزرو پولیس فورس کے تین اہلکار بارہ مولا ضلع میں ہوئے ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی اس گروپ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔

گذشتہ سات سال کے دوران اس گروپ نے کشمیر میں سکیورٹی فورسز، پولیس اہلکاروں اور آبادکاروں پر ہوئے بہت سے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس کالعدم گروپ کے سربراہ کیا لیڈر کون ہیں، اس حوالے سے کوئی مصدقہ معلومات موجود نہیں ہیں۔

دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکآپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More