چین کی مدد سے پاکستان میں سمارٹ فونز کی تیاری، کیا قیمتیں کم ہوں گی؟

اردو نیوز  |  Jul 02, 2024

پاکستان میں سمارٹ فونز کی اسیمبلنگ کے بعد اب مقامی سطح پر سمارٹ فونز کی تیاری کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور ان فونز میں استعمال ہونے والے مختلف پرزے مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔

چین کی مدد سے پاکستان میں تیار ہونے والے یہ سمارٹ فونز موجودہ مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت میں فروخت کیے جائیں گے۔

پاکستان کی چار بڑی سمارٹ فونز اسیمبلنگ کمپنیوں میں سے ایک ’ریئل می‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ملک میں آزمائشی طور پر سمارٹ فونز کی مینوفیکچرنگ شروع کر دی ہے۔

کمپنی کے مطابق ’پاکستان کی ضرورت کے مطابق کمپنی مقامی سطح پر سمارٹ فون تیار کر رہی ہے اور مارکیٹ میں کم قیمت پر فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔‘

کراچی میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رئیل می موبائل کمپنی کی پبلک ریلیشن منیجر عاصمہ حیات نے کہا کہ ’پاکستان میں مقامی سطح پر اسیمبل ہونے والے سمارٹ فونز کی مارکیٹ روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں اسیمبل ہونے والے سمارٹ فونز یہاں کی ضرورت اور صارف کی پسند کے مطابق ہی تیار کیے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ مالی سال کے دوران سمارٹ فون اسیمبلنگ انڈسٹری نے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بیرون ملک سے درآمد کیے جانے والے سمارٹ فونز کے مقابلے میں اب مقامی طور پر تیار کیے جانے والے سمارٹ فونز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔‘

عاصمہ حیات نے مزید کہا کہ ’پاکستان اپنی ضرورت کے تقریباً 80 فیصد سے زیادہ سمارٹ فون خود مینوفیکچر کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سمارٹ فون انڈسٹری سے منسلک کمپنیاں بیرون ملک سے خام مال درآمد کرکے سمارٹ فونز مینوفیکچر کر رہی ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ مینوفیکچرنگ ملک میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک مشکل قدم ضرور ہے لیکن ہم نے اپنی طرف سے آغاز کر دیا ہے۔‘

پاکستان کی مارکیٹ میں لوکل سمارٹ فونز کی کتنی مانگ ہے؟

پاکستان میں سمارٹ فونز اسیمبل کرنے والی کپمنی آئیکون ٹیلی کام کے ڈائریکٹر عبدالوہاب کے مطابق ’پاکستان اپنی ضرورت کے 80 سے 90 فیصد فون خود تیار کر رہا ہے۔ پاکستان میں تیار ہونے والے سمارٹ فون عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ چین کی مدد سے پاکستان میں یہ صنعت پروان چڑھ رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل ملک میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) ملنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن اب یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور سمارٹ فونز اسیمبلرز کو آسانی سے ایل سیز مل رہی ہیں اور بیرون ملک سے خام مال درآمد کر کے سمارٹ فونز کی اسیمبلنگ کا عمل جاری ہے۔‘

عاصمہ حیات کے مطابق پاکستان اب تقریباً تمام عالمی برانڈز کے سمارٹ فونز کو مقامی طور پر اسمبل کر رہا ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ ’مقامی ضرورت کے مطابق فون تیار کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، حکومت اگر اس شعبے کی طرف توجہ دے تو آنے والے دنوں میں پورا سمارٹ فون پاکستان میں ہی تیار کیا جا سکتا ہے۔‘

عبدالوہاب کا کہنا تھا ان کی کمپنی نے سمارٹ فونز سے آگے بڑھ کر مقامی سطح پر ایل ای ڈی بھی تیار کی ہے۔ یہ سمارٹ ایل ای ڈیز عالمی معیار کے مطابق ہی تیار کی گئی ہیں، ابھی کچھ نمونے مارکیٹ میں بھیجے ہیں اور ان پر عوامی رائے حاصل کی جا رہی ہے۔

عاصمہ حیات کے مطابق ’پاکستان اب تقریباً تمام عالمی برانڈز کے سمارٹ فونز کو مقامی طور پر اسمبل کر رہا ہے جس سے ’میڈ اِن پاکستان‘ کی پیداوار مقامی طلب کے 95 فیصد تک بڑھ گئی ہے جب کہ درآمد شدہ فونز کا حصہ کم ہو کر محض پانچ فیصد رہ گیا ہے۔ مقامی اسیمبلنگ پلانٹس نے سال 2024 کے پہلے پانچ مہینوں (جنوری،مئی) کے دوران 13.08 ملین ہینڈ سیٹس اسیمبل کیے جب کہ 0.76 ملین درآمد کیے گئے۔‘

ملکی پیداوار سے زرمبادلہ میں تقریباً 15-20 فیصد کی بچت ہو رہی ہے کیونکہ مقامی اسیمبلرز اب بھی تقریباً تمام سمارٹ فون پارٹس غیرملکی مینوفیکچررز سے ہی درآمد کر رہے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت تقریباً 20 عالمی سمارٹ فونز برانڈز موجود ہیں جن میں سے بہت سی کمپنیاں مقامی اسیمبلنگ میں شامل ہیں۔

کیا ملکی سطح پر سمارٹ فونز کے اسمبل ہونے سے درآمد کیے گئے فونز کی مانگ ختم ہو گئی ہے؟

کراچی موبائل اینڈ الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر منہاج گلفہام کے مطابق پاکستان میں تیار ہونے والے سمارٹ فونز اس وقت مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔

سمارٹ فونز کی صنعت بھی حکومت کے بڑھائے گئے ٹیکسز کے سرکل میں شامل ہے (فوٹو اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر بننے والے فونز کی لاگت کم ہے، اس لیے وہ باہر سے درآمد کیے گئے فونز کے مقابلے میں کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ صارفین کم پیسوں میں نیا فون خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تیار ہونے والے سمارٹ فونز کی بڑھتی ہوئی مانگ دیکھ کر کئی برانڈڈ سمارٹ فونز بنانے والی کمپینوں نے بھی پاکستان میں اسیمبلنگ کا آغاز کر دیا ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ سام سنگ بھی پاکستان کی ضرورت کے سمارٹ فون ملک میں ہی تیار کر رہا ہے۔

منہاج گلفہام کے مطابق یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں برانڈڈ فون رکھنے والے افراد اب بھی برانڈڈ فونز کی خریداری میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ان افراد کی تعداد 10 سے 20 فیصد کے درمیان ہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی ایسے سمارٹ فونز ہیں جو پاکستان میں تیار نہیں ہوتے جن میں آئی فون سمیت دیگر فونز شامل ہیں۔ ان سمارٹ فونز کے خریدار آج بھی درآمدی فونز کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

کیا بجٹ میں نئے ٹیکسز سے مقامی سطح پر تیار ہونے والے سمارٹ فون مہنگے ہوں گے؟

وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں کئی شعبوں پر نئے ٹیکسز بھی لگائے گئے ہیں جب کہ کئی شعبوں پر ٹیکسز میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ سمارٹ فونز کی صنعت بھی حکومت کے بڑھائے گئے ٹیکسز کے سرکل میں شامل ہے۔

عاصمہ حیات کا کہنا ہے کہ حکومت نے حال ہی میں سمارٹ فونز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے، جس پر صنعت کے سٹیک ہولڈرز اور صارفین کے حقوق کی انجمنوں نے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

عاصمہ حیات کا کہنا ہے کہ ’ہماری کوشش ہے کہ ٹیکسز کا پورا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)انہوں نے کہا کہ ’ٹیکس محصولات سے معیشت کو طویل مدت میں فائدہ ہوتا ہے اس لیے اسیمبلرز ملک کے قوانین اور ضوابط کی تکمیل پر یقین رکھتے ہیں۔

عاصمہ حیات نے مزید کہا کہ ’نئے ٹیکسز کے بعد مقامی سطح پر تیار ہونے والے فون مہنگے ہوں گے لیکن ہماری کوشش ہے کہ ٹیکسز کا پورا بوجھ عوام پر نہ ڈالیں۔‘

سابق وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور موجودہ سربراہ سٹینڈنگ کمیٹی برائے آئی ٹی سید امین الحق کا کہنا ہے کہ ’ہمارا ویژن بالکل واضح ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ شہر میں رہنے والے صارف بھی سمارٹ فون استعمال کریں اور دیہی علاقے میں رہنے والا صارف بھی سمارٹ فون استعمال کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سابق دور حکومت میں ہم نے ایسے اقدامات کیے جب کئی مشہور کمپنیوں نے پاکستان میں اپنی پروڈکشن شروع کی۔ یہ ایک اہم سنگ میل تھا جو عبور کیا۔ اب بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں بہتری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سمارٹ فونز کی تیاری سے سمارٹ فون یوزرز کو فائدہ پہنچا ہے، آئی ٹی کے شعبے سے ملکی معیشت میں اب نمایاں کام نظر آنے لگا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس سیکٹر کو مزید بہتر اور موثر بنانے کے لیے کام کریں کیونکہ ساری دنیا اب آئی ٹی میں آگے بڑھ کر آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر کام کر رہی ہے۔ اور ہمیں بھی اپنے نوجوانوں کو اس کے لیے تیار کرنا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More