اسرائیل حزب اللہ کو کچلنے کا جُوا کھیل رہا ہے مگر اس کا سامنا ایک مشتعل اور مسلح دشمن سے ہے: جیریمی بوون کا تجزیہ

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2024

Getty Imagesاسرائیل نے گذشتہ دو دنوں میں لبنان پر ایک ہزار سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں

اسرائیل کے رہنما حزب اللہ کے خلاف کارروائی میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں خوش ہیں، وہ کارروائی جو دھماکہ خیز مواد سے لیس پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے سے شروع ہوئی اور شدید اور مہلک فضائی حملوں کی شکل میں اب بھی جاری ہے۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ پیر کے روز جنوبی لبنان کے علاقوں پر کیے گئے فضائی حملوں کے بعد اپنی تعریف سے باز نہیں رہ سکے۔ اُن کا کہنا تھا ’آج ایک شاہکار تھا۔۔۔ حزب اللہ کے قیام کے بعد سے یہ (اُن کے لیے) بدترین ہفتہ تھا، اور نتائج خود ہی بولتے ہیں۔‘

گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں کی مدد سے ایسے ہزاروں راکٹ بھی تباہ کیے گئے جن سے اسرائیلی شہری ہلاک ہو سکتے تھے جبکہ لبنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 50 بچوں سمیت اس کے 550 سے زائد شہریوں کو اس حملوں میں قتل کیا ہے۔ یہ سنہ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی ایک ماہ کی جنگ کے دوران لبنان میں ہونے والی ہلاکتوں کا لگ بھگ نصف ہے۔

اسرائیل کا خیال ہے کہ ایک زبردست حملہ حزب اللہ کو وہ کرنے پر مجبور کرے گا جو وہ (اسرائیل) چاہتا ہے یعنی یہ اسے اس قدر تکلیف پہنچائے گا کہ اس کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایران میں اس کے اتحادی اور حمایتی فیصلہ کریں گے کہ مزاحمت کی یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔

اسرائیل کے سیاستدانوں اور جرنیلوں کو فتح درکار ہے۔ تقریباً ایک سال کی جنگ کے بعد غزہ اُن کے لیے دلدل بن چکا ہے۔ حماس کے جنگجو اب بھی اسرائیلی فوجیوں کو مارنے اور زخمی کرنے کے لیے سرنگوں اور کھنڈرات سے نکلتے ہیں اور اب بھی اسرائیلیوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔

حماس نے گذشتہ اکتوبر میں بڑے حملے کر کے اسرائیل کو حیران کر دیا تھا۔ اسرائیلیوں نے حماس کو ایسے بڑے خطرے کے طور پر نہیں دیکھا تھا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ لبنان مختلف ہے اور اسرائیل کی فوج ہو یا اس کی خفیہ ایجنسی موساد، وہ سنہ 2006 میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کے بعد اُن کے خلاف اگلی جنگ کی منصوبہ بندی میں مصروف تھیں۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا خیال ہے کہ اُن کے ملک کا تازہ حملہ اُن کی جانب سے طاقت کا توازن حزب اللہ کے مخالف پلڑے میں ہونے کے اعلان کردہ مقصد کی طرف بڑی پیش رفت ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے کا سلسلہ ختم ہو۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حزب اللہ کو سرحد سے پیچھے ہٹانے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے کا ہے۔

ایک اور غزہ؟

لبنان میں گذشتہ ہفتے پیش آئے واقعات غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ کی بازگشت یاد دلاتا ہے۔ اسرائیل نے لبنانی شہریوں کے لیے ویسا ہی انتباہ جاری کیا، جیسا کہ اس نے غزہ میں کیا تھا کہ وہ اُن علاقوں سے نکل جائیں جہاں وہ حملہ کر سکتا ہے۔ وہ حماس کی طرح حزب اللہ پر بھی الزام لگا رہا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

کچھ ناقدین کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو بھیجے جانے والے یہ انتباہی پیغامات بہت مبہم ہیں اور شہریوں کو انخلا کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا۔ جنگ کے قوانین کے تحت لازم ہے کہ شہریوں کی حفاظت کی جائے اور طاقت کے اندھا دھند اور غیر متناسب استعمال سے گریز کیا جائے۔

حزب اللہ نے جہاں اسرائیلی فوج کو نشانہ بنایا ہے وہیں اسرائیل پر کچھ حملوں کے دوران شہری علاقوں بھی نشانہ بنے ہی جو شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سمیت اہم مغربی اتحادی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں جبکہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ اُس کی فوج قوانین کا احترام کرتی ہے لیکن دنیا کے بیشتر ممالک نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے طرز عمل کی مذمت کی ہے۔

لبنان میں بھی پیجر حملوں کے بعد یہ بحث چھڑی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد حزب اللہ کے کارندوں کو نشانہ بنانا تھا جنھیں وہ پیجرز دیے گئے تھے لیکن اسرائیل یہ نہیں جان سکتا تھا کہ جب پیجرز کے اندر نصب بم پھٹیں گے تو وہ (کارندے) کہاں ہوں گے، جس کی وجہ سے گھروں، دکانوں اور دیگر عوامی مقامات پر عام شہری اور بچے بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے۔

کچھ سرکردہ وکلا کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق کیے بغیر مہلک طاقت کا استعمال کر رہا تھا جو کہ جنگ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لڑائی 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ لیکن حالیہ سرحدی جنگ گذشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے اگلے دن شروع ہوئی، جب حسن نصر اللہ نے اپنے جوانوں کو حماس کی حمایت کے لیے سرحد پر ایک محدود تعداد میں لیکن تقریباً روزانہ کی بنیاد پر راکٹ داغنے کا حکم دیا۔

اس عمل نے جہاں اسرائیلی فوجیوں کو باندھ کر رکھ دیا وہیں ملک کے سرحدی قصبوں میں تقریباً 60 ہزار لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

ماضی کے حملوں کے سائے

اسرائیلی میڈیا میں حزب اللہ پر حالیہ فضائی حملوں کے اثرات کا موازنہ ’آپریشن فوکس‘ سے کیا ہے جو جون 1967 میں مصر پر اسرائیل کا اچانک حملہ تھا۔ یہ ایک مشہور حملہ تھا جس نے مصری فضائیہ کو اُس وقت تباہ کر دیا جب اُس کے طیارے زمین پر کھڑے تھے۔ اگلے چھ دنوں میں اسرائیل نے مصر، شام اور اُردن کو تین مختلف محاذوں پر شکست دی۔

اس فتح نے ہی موجودہ تنازع کو جنم دیا کیونکہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیوں سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔

یہ ایک بہتر موازنہ نہیں ہے۔ لبنان اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ الگ ہے۔ اسرائیل نے اگرچہ شدید ضرب لگائی لیکن ابھی تک وہ حزب اللہ کی اسرائیل پر گولہ باری کرنے کی صلاحیت یا ارادے کو ختم نہیں کر سکا ہے۔

ماضی میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی لڑائی میں کبھی بھی دونوں فریق ایک فیصلہ کُن فتح حاصل نہیں کر سکے۔ اس بار بھی معاملہ اسی طرح چل سکتا ہے، تاہم جارحانہ کارروائی کا آخری ہفتہ اسرائیل، اس کی انٹیلیجنس سروسز اور اُس کی فوج کے لیے اطمینان بخش رہا ہے۔

حزب اللہ کیسے وجود میں آئی اور اس کی عسکری قوت کتنی ہے؟لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی حملے: ڈیوائسز بنانے والی ’جعلی کمپنی‘ اور اس کی ’پُراسرار‘ خاتون بانی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟اسرائیلی حملے میں مارے گئے حزب اللہ کے ’سیکنڈ ان کمانڈ‘ ابراہیم عقیل جن کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر تھیلبنان میں اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کو ’اشتعال‘ دلایا: یہ تنظیم اسرائیل پر حملے کے لیے کتنی تیار ہے؟

اسرائیل کی جارحیت ایک مفروضے پر منحصر ہے - ایک جُوا - یعنی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب حزب اللہ کچلی جائے گی، سرحد سے پیچھے ہٹ جائے گی اور اسرائیل پر حملے بند کر دے گی۔ حزب اللہ کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ وہ نہیں رُکے گی کیونکہ یہی لڑائی اُس کے وجود کی بنیادی وجہ ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل، جس طرح شکست تسلیم کرنے سے گریزاں ہے، اسے جنگ کو مزید بڑھانا پڑے گا۔ اگر حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کو اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرناک بنانا جاری رکھا تو اسرائیل کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا زمینی کارروائی شروع کی جائے تاکہ شاید بفر زون کے طور پر کام کرنے کے لیے زمین کی ایک پٹی پر قبضہ کیا جا سکے۔

Getty Imagesاسرائیلی وزیرِ دفاع نے لبنان میں اسرائیلی طیاروں کے حملوں کو شاہکار قرار دیا ہے

اسرائیل پہلے بھی لبنان پر حملہ کر چکا ہے۔ سنہ 1982 میں اس کی فوجیں بیروت تک پہنچ گئیں تاکہ اسرائیل میں فلسطینیوں کے حملوں کو روکنے کی کوشش کی جا سکے۔ تاہم وہ اس وقت ذلت آمیز پسپائی پر مجبور ہوئے، جب ان کے لبنانی عیسائی اتحادیوں نے بیروت کے صابرہ اور شتیلا پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا اور اسرائیل فوج نے اس عمل کے دوران انھیں تحفظ دیا۔

1990 کی دہائی تک بھی اسرائیل سرحد کے ساتھ لبنانی زمین کے ایک وسیع حصے پر قابض تھا۔ آج کے اسرائیلی جرنیل اُس وقت نوجوان افسر تھے، جنھوں نے اس حزب اللہ کے خلاف نہ ختم ہونے والی جھڑپوں میں حصہ لیا جو اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے نکالنے کے لیے لڑنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔

سنہ 2000 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے نام نہاد ’سکیورٹی زون‘ سے دستبرداری اختیار کر لی۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے اسرائیل کو زیادہ محفوظ نہیں بنایا جا سکتا اور اسرائیل کو بہت زیادہ فوجیوں کی جانوں کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

سنہ 2006 میں حزب اللہ کی طرف سے ایک سرحد پار کارروائی میں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور گرفتار کر لیا گیا جس کا نتیجہ جنگ کی شکل میں نکلا۔

پہلے اسرائیل کو اُمید تھی کہ اُس کی فضائی طاقت اسرائیل پر راکٹ حملوں کو روک دے گی۔ جب ایسا نہیں ہوا تو زمینی دستے اور ٹینک ایک بار پھر سرحد پر واپس چلے گئے۔ یہ جنگ لبنانی شہریوں کے لیے ایک تباہی تھی۔ لیکن جنگ کے آخری دن بھی حزب اللہ اسرائیل پر راکٹ داغ رہی تھی۔

اس جنگ کے خاتمے کے بعد حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر وہ جان لیتے کہ اسرائیل جواباً کیا کرے گا تو وہ چھاپے کی اجازت نہ دیتے۔

جنگ جاری ہے اور ابھی مزید بڑھنی ہے

اسرائیل کے کمانڈر جانتے ہیں کہ لبنان میں داخل ہونا غزہ میں حماس سے لڑنے کے مقابلے میں بہت بڑا فوجی چیلنج ہو گا۔ حزب اللہ بھی 2006 کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے منصوبہ بندی کر چکی ہے، اور جنوبی لبنان میں اپنے ’ہوم گراؤنڈ‘ پر لڑے گی جس میں کافی ناہموار، پہاڑی علاقے ہیں جو گوریلا حکمت عملی کے لیے بہترین ہیں۔

اسرائیل غزہ میں حماس کی کھودی گئی تمام سرنگوں کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں میں، حزب اللہ نے پچھلے 18 برس کو ٹھوس چٹانوں میں سرنگیں اور دفاعی پوزیشنیں تیار کرنے میں صرف کیا ہے۔ اس کے پاس ایران کا فراہم کردہ اسلحے کا زبردست ذخیرہ ہے اور غزہ میں حماس کے برعکس، اسے شام کے راستے زمینی راستے سے دوبارہ رسد فراہم کی جا سکتی ہے۔

سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز، واشنگٹن ڈی سی میں ایک تھنک ٹینک کا تخمینہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس تقریباً 30 ہزار فعال جنگجو اور 20 ہزار ریزرو فوجی ہیں، جن میں زیادہ تر ہلکی پیدل فوج کے چھوٹے چھوٹے یونٹوں کے طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے بہت سے جوانوں کو شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کا جنگی تجربہ بھی ہے۔

زیادہ تر اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ 20 ہزار سے دو لاکھ تک میزائل اور راکٹ ہیں، جن میں ان گائیڈڈ ہتھیاروں سے لے کر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

Getty Imagesحزب اللہ کے حملوں نے کریات شمونہ جیسے شمالی اسرائیلی قصبوں سے دسیوں ہزار لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے

اسرائیل شاید جُوا کھیل رہا ہے کہ حزب اللہ اس سب کا استعمال نہیں کرے گی، اس ڈر سے کہ اسرائیلی فضائیہ لبنان کے ساتھ وہی کرے گی جو اس نے غزہ کے ساتھ کیا، یعنی پورے قصبوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا اور ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر دیا۔

ایران شاید یہ نہ چاہے کہ حزب اللہ وہ ہتھیار استعمال کرے جسے وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے خلاف انشورنس کے طور پر محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ ایک اور جُوا ہے۔ حزب اللہ اسرائیل کے ہاتھوں تباہی سے پہلے پہلے اپنے زیادہ تر ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

غزہ میں جاری جنگ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد میں اضافے ساتھ، اسرائیل کو لبنان پر حملے کی شکل میں تیسرا محاذ کھولنے کے فیصلے پر بھی غور کرنا پڑے گا۔ اس کے سپاہی بلند حوصلہ، تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس ہیں، لیکن ریزرو یونٹ جو اسرائیل کی جنگی طاقت کا زیادہ حصہ فراہم کرتے ہیں، ایک سال کی جنگ کے بعد پہلے ہی دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔

سفارتی لحاظ سے بند گلی

امریکہ کی قیادت میں اسرائیل کے اتحادی نہیں چاہتے تھے کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں اضافہ کرے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ وہ لبنان پر حملہ کرے۔ ان کا اصرار ہے کہ صرف سفارت کاری ہی سرحد کو اتنا محفوظ بنا سکتی ہے کہ شہری اس کے دونوں طرف اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔

ایک امریکی ایلچی نے ایک معاہدے پر کام کیا ہے، جو جزوی طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کی قرارداد 1701 پر مبنی ہے جس نے 2006 کی جنگ کو ختم کیا تھا۔ لیکن غزہ میں جنگ بندی کے بغیر سفارت کاروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ جب غزہ جنگ بند ہو جائے گی تو حزب اللہ اسرائیل پر حملے بند کر دے گی۔ اس وقت نہ تو حماس اور نہ ہی اسرائیل وہ ضروری رعایتیں دینے کے لیے تیار ہیں جس سے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ ہو۔

ایسے وقت میں کہ جب لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، پہلے ہی ٹوٹی پھوٹی معیشت میں اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے جدوجہد کر رہے شہریوں کو تکلیف اور غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

خوف محاذِ جنگ سے کہیں دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی جانتے ہیں کہ حزب اللہ انھیں پچھلے سال سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے حزب اللہ کو اپنی سرحدوں سے دور پھینک دیا جائے لیکن اسے ایک غیر سنجیدہ، مسلح اور ناراض دشمن کا سامنا ہے۔

حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے جنگ کے طویل سال میں یہ سب سے خطرناک بحران ہے اور اس وقت کوئی بھی چیز اسے مزید بدتر کی طرف بڑھنے سے نہیں روک رہی ہے۔

حزب اللہ کیسے وجود میں آئی اور اس کی عسکری قوت کتنی ہے؟لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی حملے: ڈیوائسز بنانے والی ’جعلی کمپنی‘ اور اس کی ’پُراسرار‘ خاتون بانی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟اسرائیلی حملے میں مارے گئے حزب اللہ کے ’سیکنڈ ان کمانڈ‘ ابراہیم عقیل جن کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر تھیلبنان میں اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کو ’اشتعال‘ دلایا: یہ تنظیم اسرائیل پر حملے کے لیے کتنی تیار ہے؟صلاح الدین محور: حماس کی ’لائف لائن‘ قرار دی جانے والی راہداری جہاں سڑک کی تعمیر امن مذاکرات میں رکاوٹ ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More