حزب اللہ کیا ہے اور وہ عسکری لحاط سے کتنی طاقتور ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 25, 2024

Reutersحزب اللہ کا لغوی مطلب ’خدا کی جماعت‘ ہے

سنہ 2006 میں عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کی اسرائیل سے جنگ کے بعد 23 اکتوبر کا دن لبنان کے لیے قیامت خیز تھا جب اسرائیل کی جانب سے لبنان کے مشرقی، جنوبی اور شمالی علاقوں میں ایک ہزار سے زیادہ فضائی حملے کیے گئے جن میں عورتوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

لبنان کی حکومت کے مطابق اسرائیل کی اس جارحیت کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے اور بمباریجاری رہنے سے یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے حزب اللہ کے ’درجنوں ٹھکانوں، ہتھیاروں کے ذخیروں اور ان راکٹ لانچروں کو نشانہ بنایا ہے جن سے اسرائیل پر حملے کیے جاتے ہیں۔ دوسری جانب حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیلی فوجی تنصیبات اور اڈوں پر راکٹ داغے ہیں۔

اسرائیل کی یہ کارروائی گذشتہ ہفتے حزب اللہ اراکین کے زیر استعمال مواصلاتی آلات، جن میں پیجر اور واکی ٹاکیز شامل ہیں، پھٹنے کے واقعات کا تسلسل ہے۔ حزب اللہ نے ان حملوں کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا تاہم اسرائیل کی جانب سے اب تک کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے۔

اس تحریر میں آپ جان سکتے ہیں کہ حزب اللہ نامی تنظیم ہے کیا، یہ کس طرح وجود میں آئی اور اس کے پاس کتنے فوجی اور کیسے ہتھیار ہیں؟

حزب اللہ کیسے وجود میں آئی اور لبنان میں اسے کیسی حمایت حاصل ہے؟

حزب اللہ کا لغوی مطلب ’خدا کی جماعت‘ کے ہیں۔ یہ لبنان کی ایک طاقتور تنظیم ہے جسے نہ صرف ملک کی پارلیمان اور حکومت میں قابلِ ذکر نمائندگی حاصل ہے بلکہ یہ ملک کی فوج کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔

ایران کی پشت پناہی سے سنہ 1980 کی دہائی میں تشکیل پانے والی یہ تنظیم لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلا کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہے۔

سنہ 1985 میں حزب اللہ نے باضابطہ طور پر ایک 'کُھلا خط' شائع کرکے اپنے قیام کا اعلان کیا جس میں امریکہ اور سوویت یونین کو اسلام کے بنیادی دشمنوں کے طور پر شناخت کیا گیا اور اسرائیل کے 'خاتمے' کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہا ہے۔

ایران کی طرف سے حزب اللہ کو ایک طویل عرصے تک مالی اور عسکری مدد فراہم کی جاتی رہی ہے جبکہ مغربی ممالک، اسرائیل اور خلیجی عرب ریاستیں اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتی رہی ہیں۔

لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور ملک کے سرحدی علاقے پر اسرائیلی قبضے کے بعد شیعہ علما کے ایک چھوٹے سے گروہ کی اعانت سے اُبھرنے والی اس تنظیم کے اولین مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور لبنان سے غیرملکی فوجوں کا انخلا تھا۔

سنہ 1989 کے طائف معاہدے نے، جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور ملیشیاؤں کو غیر مسلح کرنے پر زور دیا، اس نے حزب اللہ کو اپنے فوجی ونگ کو ایک 'اسلامی مزاحمت' فورس کے طور پر تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جو اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے کے لیے وقف ہے، اور اسے اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی۔

1990 کی دہائی تک بھی اسرائیل سرحد کے ساتھ لبنانی زمین کے ایک وسیع حصے پر قابض تھا تاہم مئی 2000 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے نام نہاد ’سکیورٹی زون‘ سے دستبرداری اختیار کر لی جسے حزب اللہکے عسکری ونگ کی کامیابی سے تعبیر کیا گیا۔

Getty Imagesلبنان میں سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے بھی اس تنظیم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی ہے

1990 میں شامی فوج کی طرف سے لبنان میں امن قائم کرنے کے بعد حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اپنی گوریلا جنگ جاری رکھی، لیکن لبنان کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ 1992 میں اس نے پہلی بار قومی انتخابات میں کامیابی سے حصہ لیا۔

حزب اللہ نے 1992 سے لبنان کے قومی انتخابات میں حصہ لیا ہے اور ایک بڑی سیاسی طاقت بن چکی ہے۔

گروپ اور اس کے اتحادیوں نے 2022 کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی، لیکن اس کے بعد سے نئی حکومت نہیں بن سکی ہے اور اس کے پاس نگران انتظامیہ میں وزرا موجود ہیں۔

لبنان میں سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے بھی اس تنظیم نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ ایک طاقتور سیاسی ادارے کے طور پر، حزب اللہ پورے لبنان میں سکول، ہسپتال، ثقافتی ادارے اور خیراتی ادارے بھی چلاتی ہے جبکہ تنظیم کا اپنا ٹی وی سٹیشن ’المنار‘ کے نام سے قائم ہے۔

لبنان میں حزب اللہ پر گہری تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ اس گروپ کو کافی مقبول حمایت حاصل ہے وہیں بہت سے مخالفین اس پر سیاسی بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں، اس کی فوجی صلاحیتوں کی مخالفت کرتے ہیں اور انھیں ملک میں جاری تنازعات میں ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

Reutersکہا جاتا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو حماس سے زیادہ تربیت یافتہ ہیںحزب اللہ اور اسرائیل ماضی میں کب مدِمقابل آئے

حزب اللہ کے مسلح ونگ نے لبنان میں اسرائیلی اور امریکی افواج پر مہلک حملے کیے ہیں تاہم ماضی میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی لڑائی میں کبھی بھی دونوں فریق ایک فیصلہ کُن فتح حاصل نہیں کر سکے۔

جب 2000 میں اسرائیلی فوجیوں کا لبنان سے انخلا ہوا تو حزب اللہ نے اس کا کریڈٹ لیا اور متنازع سرحدی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کی مخالفت جاری رکھی۔ اس گروپ نے غیرمسلح ہونے کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کی اور جنوب میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھا، شیبا فارمز اور دیگر متنازع علاقوں میں مسلسل اسرائیلی موجودگی کے جواز کے طور پر خود کو مسلح رکھا۔

سنہ 2006 میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے حملہ کیا جس میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور دو کو اغوا کر لیا گیا، جس کا نتیجہ جنگ کی شکل میں نکلا۔

اسرائیلی فوجیوں نے جنوبی لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ کے خطرے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان اور بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے مضبوط ٹھکانوں پر بمباری کی، جب کہ حزب اللہ نے اسرائیل پر تقریباً 4000 راکٹ داغے۔

34 روزہ لڑائی کے دوران 1,125 سے زیادہ لبنانی، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، مارے گئے جبکہ اسرائیل کو بھی اپنے 119 فوجیوں اور 45 عام شہریوں کی ہلاکت کا نقصان سہنا پڑا۔

اس جنگ کے خاتمے کے بعد حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر وہ جان لیتے کہ اسرائیل جواباً کیا کرے گا تو وہ چھاپے کی اجازت نہ دیتے۔

2006 کے بعد سے حزب اللہ نے اپنے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافہ کیا اور اپنے ہتھیاروں کو بہتر بنایا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟حسن نصراللہ: لبنان کو اپنی مٹھی میں لینے والے حزب اللہ کے سربراہ کون ہیں؟نازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاںاسرائیلی حملے میں مارے گئے حزب اللہ کے ’سیکنڈ ان کمانڈ‘ ابراہیم عقیل جن کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر تھیحزب اللہ کے سربراہ کون ہیں؟Getty Imagesحزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ

حسن نصر اللہ 1992 سے حزب اللہ کی قیادت کر رہے ہیں جنھوں نے اس تنظیم کو سیاسی اور عسکری طاقت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس گروپ کو اس وقت لبنان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کا اپنا مسلح ونگ بھی ہے۔

حسن نصراللہ، جو لبنان اور دیگر عرب ممالک دونوں میں مقبول ہیں، حزب اللہ کا مرکزی چہرہ سمجھے جاتے ہیں اور انھوں نے اس گروہ کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ایران اور ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای سے ان کے قریبی روابط ہیں۔ کئی برس سے حسن نصر اللہ عوامی سطح پر سامنے نہیں آئے ہیں جس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے ممکنہ قاتلانہ حملے بتائے جاتے ہیں۔

تاہم حسن نصر اللہ حزب اللہ کے لیے نہایت قابل احترام شخصیت ہیں جن کے خطابات باقاعدگی سے ہر ہفتے ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں۔

یہ تقاریر دراصل طاقت کے استعمال کے لیے نصر اللہ کا اہم ہتھیار ہیں اور اس طرح وہ لبنان اور دنیا کے مختلف مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں اور اپنے حریفوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حزب اللہ عسکری طور پر کتنی طاقتور ہےGetty Imagesحزب اللہ کے پاس ایک لاکھ 20 ہزار سے دو لاکھ تک میزائل اور راکٹ ہیں۔

حزب اللہ دنیا کی سب سے زیادہ مسلح، غیر ریاستی فوجی قوتوں میں سے ایک ہے۔

تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں جبکہ واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیزکا تخمینہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس تقریباً 30 ہزار فعال جنگجو اور 20 ہزار ریزرو فوجی ہیں، جن میں زیادہ تر ہلکی پیدل فوج کے چھوٹے چھوٹے یونٹوں کے طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے بہت سے جوانوں کو شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کا جنگی تجربہ بھی ہے۔

اس تھنک ٹینک کے مطابق حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ 20 ہزار سے دو لاکھ تک میزائل اور راکٹ ہیں۔

اس کا زیادہ تر اسلحہ خانہ چھوٹے، ان گائیڈڈ، زمین سے زمین پر مار کرنے والے راکٹوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے پاس طیارہ شکن اور جہاز شکن میزائلوں کے ساتھ ساتھ گائیڈڈ میزائل بھی ہیں جو اسرائیل کے اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس کے پاس غزہ میں سرگرم حماس سے کہیں زیادہ جدید ترین ہتھیار ہیں۔

اسرائیل حزب اللہ کو کیسے نشانہ بنا رہا ہے؟Getty Imagesاسرائیلی افواجنے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے علاوہ ٹینکوں اور توپ خانے سے گولہ باری کی ہے

حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ گذشتہ اکتوبر میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے اور اسرائیل کی تاحال جاری جوابی کارروئی کے آغاز سے ہی جاری تھا اور ان میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر حملے کے بعد سے شدت آئی تھی۔

غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے حزب اللہ نے اب تک شمالی اسرائیل اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر آٹھ ہزار سے زیادہ راکٹ داغے ہیں۔ اس نے بکتربند گاڑیوں کو ٹینک شکن میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے اور دھماکہ خیز مواد سے لدے ڈرونز سے فوجی اہداف پر حملہ کیا ہے۔

ادھر اسرائیلی افواجنے لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کے علاوہ ٹینکوں اور توپ خانے سے گولہ باری کی ہے۔

ان جھڑپوں کی وجہ سے جہاں لبنان اور اسرائیل کی سرحد سے متصل لبنانی علاقے میں ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے وہیں شمالی اسرائیل میں 70 ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا ہے۔

رواں برس 27 جولائی کو گولان کی پہاڑیوں میں ایک راکٹ حملے میں 12 اسرائیلی بچوں اور نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدگی بڑھ گئی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملہ حزب اللہ نے کیا ہے تاہم گروپ نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔

30 جولائی کو، اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے سینیئر فوجی کمانڈر فواد شکر کو ہلاک کر دیا ہے۔

اگلے دن حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا۔ اسرائیل نے اس کارروائی میں ملوث ہونے کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔

25 اگست کو، اسرائیلی فوجنے کہا کہ اس بات کی نشاندہی کرنے کے بعد کہ تنظیم فواد شکر کے قتل کے بدلے میں حملے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کے جیٹ طیاروں نے ہزاروں کی تعداد میں حزب اللہ کے راکٹ لانچروں کو نشانہ بنایا ہے۔

حزب اللہ نے کہا کہ وہ ان حملوں کے باوجود بھی اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغنے اور ڈرون حملے کرنے میں کامیاب رہی تاہم، اس نے اسرائیل کے بڑے شہروں کو نشانہ نہیں بنایا اور اپنے زیادہ جدید ہتھیار بھی استعمال نہیں کیے۔

17 اور 18 ستمبر کو کشیدگی اس وقت مزید بڑھی جب لبنان اور شام میں حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال پیجرز اور واکی ٹاکی پھٹنے سے 39 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔

حسن نصر اللہ نے حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا اور کہا کہ انھوں نے ’تمام حدیں پار کر لی ہیں‘۔ اسرائیل نے ان دھماکوں کے پیچھے بھی اپنا ہاتھ ہونے کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔

حزب اللہ کو 20 ستمبر کو ایک اور جھٹکا لگا، جب بیروت کے جنوبی مضافات میں اسرائیلی فضائی حملے میں اس کے اہم فوجی کمانڈر ابراہیم عقیل اور احمد وہبی سمیت کم از کم 16 ارکان مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے اور دیگر عام شہری بھی شامل ہیں۔

دو دن بعد، اس گروپ نے اسرائیل کے بہت اندر تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے حملہ کر کے اپنے کمانڈر کی موت کا بدلہ لینے کی کوشش کی۔ ان حملوں میں حیفہ کے قریب مکانات کو نقصان پہنچا جبکہ ہزاروں اسرائیلیوں کو پناہ گاہوں میں چھپنا پڑا۔

لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال واکی ٹاکی اور پیجر دھماکوں کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی حملے: ڈیوائسز بنانے والی ’جعلی کمپنی‘ اور اس کی ’پُراسرار‘ خاتون بانی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟اسرائیلی حملے میں مارے گئے حزب اللہ کے ’سیکنڈ ان کمانڈ‘ ابراہیم عقیل جن کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر تھینازی افسر کے اغوا سے ’فون بم‘ کے استعمال تک: موساد کی کامیاب اور ناکام رہنے والی کارروائیاںحماس کا ’سرپرائز اٹیک‘: دفاعی صلاحیت میں سرِفہرست اسرائیلی فوج فوری ردعمل دینے میں ناکام کیوں رہی؟شارٹ رینج پروجیکٹائل اور سات کلوگرام کا وارہیڈ: ’چوتھی منزل پر پہنچے تو اسماعیل ہنیہ کے کمرے کی دیواریں اور چھت گر چکی تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More