جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی الیکشن کے بعد صوبائی امرا کے انتخاب کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا ہے۔بلوچستان میں جماعت اسلامی کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کے سپرد کردی گئی ہے جو پہلی بار یہ منصب سنبھالیں گے۔مولانا ہدایت الرحمان نے بلوچ قوم پرستوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے میں خود کو سیاسی طور پر منوایا ہے۔ اب جماعت اسلامی کا صوبائی امیر بننے کے بعد صوبے کی سیاست میں اُن کا کردار بڑھ گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کے لیے قوم پرستوں اور جمعیت علما اسلام جیسی مضبوط جماعتوں کی موجودگی میں صوبے میں جماعت اسلامی کو مزید فعال، مضبوط اور عوامی مقبولیت دلانا بڑا چیلنج ہوگا۔
جماعت اسلامی کے ترجمان کے مطابق صوبائی امیر کے لیے خفیہ رائے دہی گذشتہ ماہ ہوئی۔ مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان نے ارکان کی اکثریت کی رائے کے مطابق مولانا ہدایت الرحمان کو تین سال کے لیے امیر جماعت اسلامی بلوچستان مقرر کردیا۔وہ یکم نومبر 2024 کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور 31 اکتوبر 2027 تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔آئندہ مرحلے میں ضلعی سطح پر انتخابات ہوں گے۔مولانا ہدایت الرحمان کون ہیں؟مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق بلوچستان کے ضلع گوادر میں مچھیروں کی ایک بستی سربندن سے ہے۔ وہ مضبوط سیاسی خاندانی پس منظر نہیں رکھتے۔ان کے باپ دادا ماہی گیر تھے۔ اس کے برعکس مولانا ہدایت الرحمان نے میدان سیاست میں نام بنایا۔وہ زمانہ طالب علمی سے ہی جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور پھر جماعت اسلامی کا حصہ بن کر یونین کونسل کے امیر، ضلعی امیر، مرکزی شوریٰ کے رکن، صوبائی سیکریٹری جنرل اور صوبائی نائب امیر کے عہدوں تک پہنچے۔ مولانا ہدایت الرحمان نے درسِ نظامی یعنی عالم کورس کر رکھا ہے جو ایم اے اسلامیات کے برابر ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1994 میں لاہور میں دینی تعلیم کے حصول کے دوران ہی وہ جماعت اسلامی سے متاثر ہوئے اور اس کا حصہ بنے۔سنہ 2003 کے بعد گوادر میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ انہوں نے 2024 سے پہلے کئی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشست کا انتخاب لڑا مگر کامیاب نہیں ہوسکے۔مولانا ہدایت الرحمان کو اُس وقت مقبولیت ملی جب انہوں نے گوادر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مقامی افراد کو چیک پوسٹوں پر تلاشی کے نام پر تنگ کرنے اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف آواز بلند کی اور پھر ان مسائل کے حل کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی جسے ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کا نام دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ’مولانا ہدایت الرحمان کے لیے جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت دلانا بڑا چیلنج ہوگا‘ (فائل فوٹو: سمیرا صدیق)
انہوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں بڑی کشتیوں کے غیر قانونی شکار، ماہی گیروں کی سمندر میں نقل و حرکت اور سرحدی تجارت پر پابندیوں کے خاتمے کو بھی اپنے مطالبات کا حصہ بنایا۔اس مقصد کے لیے 2021 میں 32 روز اور 2022 میں مسلسل 56 روز تک دھرنا دیا۔انہوں نے بڑی احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا جن میں تاریخ میں پہلی بار خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔گوادر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ناصر رحیم سہرابی کا کہنا ہے کہ گوادر میں پورٹ کی تعمیر اور چین کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد لوگوں کے مسائل حل ہونے کے بجائے نئی مشکلات نے جنم لینا شروع کیا۔ سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو تنگ کرنا معمول بن گیا تھا، ماہی گیروں کو سمندر تک رسائی میں مشکلات تھیں، بڑی کشتیوں کے ذریعے مچھلیوں کے بے دریغ شکار سے چھوٹے ماہی گیروں اور ایران سے غیر رسمی سرحدی تجارت پر پابندیوں سے مقامی افراد کا روزگار متاثر ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ ان مسائل پر لوگوں کے حقیقی جذبات کی عکاسی کرنے میں سیاسی جماعتیں ناکام رہیں۔ لوگ روایتی سیاست دانوں سے مایوس ہوگئے اور ایک خلا پیدا ہوگیا۔مولانا ہدایت الرحمان نے اس خلا کا فائدہ اٹھایا اور نوجوانوں اور خواتین کو ساتھ ملاکر زبردست عوامی احتجاج سے ان مسائل کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کر کے پذیرائی حاصل کی۔
مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے مطالبات کے حق میں 2021 میں 32 جبکہ 2022 میں 56 روز دھرنا دیا (فائل فوٹو: عرب نیوز)
انہوں نے کہا کہ حق دو تحریک نے عوامی مقبولیت کی بنا پر نہ صرف مئی 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی بلکہ 2024 کے عام انتخابات میں مولانا ہدایت الرحمان خود بھی پہلی بار کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔انہوں نے گوادر کی سیاست پر کئی دہائیوں سے چھائے ہوئے مضبوط قوم پرست جماعتوں اور خاندانوں کے امیدواروں کو شکست دی۔اس احتجاج کے دوران مولانا ہدایت الرحمان اور اُن کے ساتھیوں نے سختیاں بھی برداشت کیں۔احتجاج کے دوران جھڑپوں میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کے الزام میں حق دو تحریک کے کئی کارکن گرفتار کیے گئے۔ مولانا ہدایت الرحمان خود بھی جنوری 2023 سے مئی 2023 تک چار ماہ تک جیل میں رہے۔مقامی مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کی گوادر میں پذیرائی اور کامیابی اُن کی مذہبی یا جماعتی وابستگی کی وجہ سے نہیں بلکہ گوادر کے دیرینہ مسائل پر کُھل کر آواز اٹھانے کی وجہ سے ہوئی۔’اسی لیے انہوں نے انتخاب بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا اور حق دو تحریک کو الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹر کروا کر خرگوش کے انتخابی نشان پر انتخاب لڑا۔ جماعت اسلامی کو اس پر سمجھوتہ بھی کرنا پڑا۔‘
مولانا ہدایت الرحمان نے اسمبلی کا انتخاب بھی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اب حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کو مولانا ہدایت الرحمان ساتھ ساتھ کیسے چلائیں گے؟ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے نومنتخب صوبائی امیر کا کہنا ہے کہ وہ حق دو تحریک سے اپنی وابستگی ختم نہیں کریں گے، کارکن کی حیثیت سے اس سے جُڑے رہیں گے لیکن توجہ اب پورے صوبے پر رہے گی۔ناصر رحیم سہرابی کے مطابق اسمبلی میں جانے اور بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں پارلیمانی سیاست کے مخالف طبقے کی احتجاجی تحریک اُبھرنے کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور مولانا ہدایت الرحمان کی پذیرائی کم ہوئی ہے۔ حق دو تحریک میں ایسے بہت سے نوجوان تھے جو قوم پرست خیالات کے حامل رہے، ان کی دلچسپی بھی حق دو تحریک میں کم ہوئی ہے جس کا مولانا ہدایت الرحمان کو نقصان ہوا ہے۔مولانا ہدایت الرحمان کو امیر بنانے سے جماعت اسلامی کو کیا فائدہ ملے گا؟جماعت اسلامی بلوچستان کی سیاست میں کبھی مقبول نہیں رہی، تاہم حالیہ انتخابات میں پہلی بار اس نے صوبائی اسمبلی تک نہ صرف رسائی حاصل کی بلکہ مولانا ہدایت الرحمان کو ملاکر دو نشستیں حاصل کیں۔ دوسری نشست جعفرآباد سے عبدالمجید بادینی نے جیتی اور مضبوط جمالی خاندان کو شکست دی۔مبصرین کا خیال ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے جماعت اسلامی سے زیادہ دونوں ارکان اسمبلی کی اپنی انفرادی کوششیں شامل ہیں۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی نظریں صوبے کی سیاست میں اپنا کردار بڑھانے پر ہیں۔
سنہ 2024 کے عام انتخابات میں مولانا ہدایت الرحمان پہلی بار بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے (فائل فوٹو: اے پی پی)
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ پہلے اُن کی جدوجہد کا محور گوادر اور مکران ڈویژن تھا، اب پارٹی کی صوبائی قیادت سنبھالنے کے بعد پورے صوبے کے مسائل پر بھرپور توجہ دیں گے اور عوام کی آواز بنیں گے۔جماعت اسلامی کے نومنتخب صوبائی امیر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ جماعت اسلامی کو بلوچستان کی ایک بڑی سیاسی قوت بنائیں گے۔سینیئر صحافی اور کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رِند سمجھتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان کی جانب سے مقبول سیاسی نعروں کے ساتھ سیاست کرنے کی حکمت عملی سے جماعت اسلامی کو چلائیں گے تو اس سے جماعت کو فائدہ ملے گا۔’تاہم ان سے یہ توقعات کرنا درست نہیں ہوگا کہ وہ جماعت اسلامی کو صوبے میں پارلیمانی سیاست میں مضبوط حصہ دِلا سکیں گے کیونکہ مضبوط الیکٹ ایبلز، قوم پرستوں اور جے یو آئی کے ساتھ مقابلہ آسان نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کے باقی حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی کبھی پارلیمانی سیاست میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ عبدالخالق رِند کے مطابق تاریخ میں پہلی بار انہوں نے صوبائی اسمبلی تک رسائی حاصل کی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جے یو آئی کا بلوچستان میں 70کی دہائی سے ایک مضبوط ووٹ بینک موجود ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ ’اب وہ پورے صوبے کے مسائل پر بھرپور توجہ دیں گے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وہ مستقبل میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا کوئی اتحاد بنتا نہیں دیکھ رہے۔ ان کے بقول حافظ نعیم الرحمان اتحاد کی سیاست کے قائل نہیں۔ جے یو آئی کی بھی بلوچستان میں جماعت اسلامی سے اتحاد میں دلچسپی نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کی بلوچستان کی ماضی کی قیادت دھیمے مزاج کی رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مولانا ہدایت الرحمان نسبتاً سخت اور جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔ وہ مسائل پر کُھل کر بولتے ہیں اور بلوچستان کے عوام ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو دو ٹوک بات کریں۔عبدالخالق رند کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان جماعت اسلامی کو کیسے چلاتے ہیں؟ اگر وہ نئے لوگوں کو جماعت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئے تو ان کے پاس نظم و ضبط کے پابند اور محنت کرنے والے کارکن موجود ہیں تو یہ سمت کا تعین کرسکیں گے۔مولانا ہدایت الرحمان نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ جارحانہ طرزِ سیاست برقرار رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حقوق پر کوئی مصلحت پوشی نہیں کریں گے، پہلے کی طرح دو ٹوک اور کُھل کر بات کریں گے۔ناصر رحیم سہرابی کہتے ہیں کہ حافظ نعیم کے امیر بننے کے بعد جماعت اسلامی خود کو زیادہ سے زیادہ عوامی بنانے کی پالیسی پر کاربند ہے، یہی پالیسی گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان کی بھی رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح مولانا ہدایت الرحمان نے عوامی مقبولیت کے سہارے گوادر میں بہتر سیاسی کارکردگی دکھائی ہے تو شاید جماعت اسلامی مولانا ہدایت الرحمان کو آگے لاکر چاہتی ہے کہ ایسے نتائج صوبے کے باقی حصوں سے بھی حاصل کرسکیں۔