پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے سروسز چیف کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد دگنی کرنے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کرنے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے بلوں کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے معمول کا ایجنڈا معطل کرتے ہوئے حکومت نے پے در پے بل پیش کیے۔سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے بل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ جبکہ سروسز چیز کی مدت ملازت میں توسیع کے بل وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کیے۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیے گئے جہاں سے بھی کثرت رائے سے ان کی منظوری ہوگئی۔ اب یہ بل صدر مملکت کے پاس جائیں گے، اور ان کی جانب سے توثیق ملنے کے بعد باضابطہ قانون کی شکل اختیار کر لیں گے۔
قانون سازی کے دوران اپوزیشن کا احتجاجقومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے بل پیش کیے جانے کے خلاف اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا۔ جو ہی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بل پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور بیرسٹر گوہر نے سپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی، تاہم وزیر قانون اعظم وزیر تارڑ نے کہا کہ ’اگر یہ ہماری بات سنیں گے تو ان کی بات سنی جائے گی بصورت دیگر مجھے بات کرنے دی جائے میں انہیں بات نہیں کرنے دوں گا۔‘جب اپوزیشن کو بات کرنے کی اجازت نہ ملی تو اپوزیشن ارکان سپیکر ڈائز کے سامنے جمع ہو گئے اور بھرپور انداز میں احتجاج اور نعرے بازی کرنے لگے۔ اس دوران وزیراعظم کی نشست کے سامنے حکومتی ارکان بھی آ کر کھڑے ہو گئے۔ احتجاج کے دوران حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کے درمیان کئی بار ہاتھا پائی بھی ہوئی جسے قومی اسمبلی میں موجود سکیورٹی سٹاف نے روکا۔سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطلب کیا ہے؟سروسز چیف کی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے آرمی ایکٹ 1952، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی ایکٹ 1961 میں ترامیم کے الگ الگ بل پیش کیے گئے۔ان تمام بلوں میں سروسز چیف جن میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، پاک فضائیہ کے سربراہ اور پاک بحریہ کے سربراہ کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔بل میں واضح کیا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ، ایئر فورس ایکٹ اور نیوی آرڈیننس کے تحت ریٹائرمنٹ کے دیگر قواعد و ضوابط سروسز چیف پر لاگو نہیں ہوں گے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان فورسز کے ملازموں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال ہے اور ان میں سے جو کوئی بھی چیف تعینات ہوگا یا اسے ملازمت میں توسیع دی جائے گی تو اس پر ریٹائرمنٹ کی عمر کا اطلاق نہیں ہو گا۔ بلکہ اپنی فورس کا چیف مقرر ہونے کے بعد پانچ سال تک وہ اپنے عہدے پر موجود رہے گا چاہے اس کی عمر جتنی مرضی ہو جائے۔پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ میں ججزکی تعداد بڑھانے کا بل 2024 منظور کر لیا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہپارلیمنٹ نے اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں ججزکی تعداد بڑھانے کا بل 2024 منظور کر لیا ہے۔ جس کے تحت ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کی جائے گی۔اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں ججز کی تعداد کو بڑھا دیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد اب نو کی بجائے 12 ہو گی۔ججز کی تعداد بٹھانے کے حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بہت سے مقدمات زیرِالتوا ہیں اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا ہے، اس لیے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے تاکہ جلد از جلد کیسوں کو نمٹایا جا سکے۔پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ایک بار پھر تشکیل نوپارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2024 بھی منظور کر لیا ہے۔ بل کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں ایک بار تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ نئی ترمیم کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چیف جسٹس، سینیئر ترین جج اور آئینی بینچ کے سینیئر ترین جج پر مشتمل ہوگی۔ جب تک آئینی بنچ کا سینئیر ترین جج نامزد نہیں ہوتا تب تک کمیٹی چیف جسٹس اور سینیئر ترین جج پر مشتمل ہو گی۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بہت سے مقدمات زیرِالتوا ہیں، اس لیے ججوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)بل میں کہا گیا ہے کہ اگر چیف جسٹس اور سینئیر ترین جج آئینی بینچ کا حصہ بن جاتے ہیں تو آئینی بینچ کا اگلا سینیئر ترین جج کمیٹی کا رکن ہو گا۔ اگر کوئی رکن کمیٹی میں شمولیت سے انکار کرتا ہے تو چیف جسٹس سپریم کورٹ یا آئینی بینچ کے کسی جج کو کمیٹی کا رکن نامزد کر سکتے ہیں۔اس بل کے نافذالعمل ہونے کے فوراً بعد کمیٹی اپنا اجلاس بلا کر اپنے کام کرنے کا طریقہ کار طے کرے گی۔ اگر کوئی کیس درخواست، اپیل، نظرثانی کی درخواست یا کوئی معاملہ آئینی بینچ یا سپریم کورٹ کے عام بینچ میں سے کسی ایک کے پاس جانے کا سوال اٹھے تو کمیٹی اسے کسی بینچ کو بھجوانے کا زبانی حکم دے گی۔بل کے تحت رجسٹرار سپریم کورٹ آئینی بینچوں کو انتظامی سپورٹ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ ججوں کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بینچوں میں نامزدگی تمام صوبوں سے یقینی بنائی جائے گی۔ کسی بھی آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل لارجر آئینی یبنچ میں 30 دنوں میں دائر کی جا سکے گی۔ آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت موجودہ تمام اپیلیں بھی آئینی بینچز کو منتقل کر دی جائیں گی۔ترمیم کے تحت سپریم کورٹ میں پہلے دائر ہونے والی درخواست پہلے سنی جائے گی۔ بعد میں دائر ہونے والی درخواست کو بعد میں سنا جائے گا۔سپریم کورٹ کے ہر کیس کی ریکارڈنگ کی جائے گی اور ٹرانسکرپٹ تیار جائے گا۔ مقدمے کی سماعت کی کاپی 50 روپے فی صفحہ کے حساب سے دستیاب ہو گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں ججز کی تعداد کو بڑھا دیا گیا ہے۔ (فوٹو: ایکس)خیال رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کمیٹی میں تبدیلی کے لیے حکومت نے آرڈیننس جاری کیا تھا جس میں سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر ترین جج کی جگہ کسی بھی جج کو نامزد کرنے کا اختیار چیف جسٹس کو دیا گیا تھا۔ تا ہم نئے تعینات ہونے والے چیف جسٹس جسٹس یحی افریدی نے قاضی فائض عیسٰی کی جانب سے نامزد کیے گئے جسٹس امین الدین کو کمیٹی سے باہر کرتے ہوئے ان کی جگہ پر سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر ترین جج منیب اختر کو کمیٹی میں شامل کر دیا ہے۔