Getty Images
خاردار تاریں۔ لوہے کی مضبوط باڑ۔ میٹل ڈیٹیکٹر۔ مسلح سکیورٹی گارڈز۔ بم ڈسپوزل سکواڈ۔
سکیورٹی کے یہ انتظامات کسی ایئرپورٹ یا جیل پر نہیں بلکہ امریکی ریاست ایریزونا کے اس مرکز پر کیے گئے ہیں جہاں ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ ضرورت پڑنے پر ڈرون، گھڑ سوار افسران اور چھتوں پر پولیس کے سنائپرز بھی تعینات کیے جاسکتے ہیں۔
ماریکوپا کاؤنٹی 2020 کے صدارتی الیکشن کے دوران سازشی نظریات کا گڑھ بن گئی تھی۔ ایریزونا میں بائیڈن سے 11 ہزار سے کم ووٹوں سے ہارنے کے بعد ٹرمپ نے ووٹر فراڈ کے غیر مصدقہ دعوے کیے تھے۔
یہ افواہیں وائرل ہوئیں اور مسلح مظاہرین نے ان عمارتوں پر دھاوا بول دیا جہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی جاری تھی۔ ان نتائج کو مقدمات اور آڈٹ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اس صورتحال نے اب یہاں ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار بدل دیا ہے اور سخت سکیورٹی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
ماریکوپا کاؤنٹی کے شیرف رس سکنر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اسے بڑی تقریب کے طور پر دیکھتے ہیں، جیسا کہ سُپر بول۔‘
Getty Images
ایریزونا کی یہ کاؤنٹی امریکہ میں آبادی کے لحاظ سے چوتھی سب سے بڑی کاؤنٹی ہے جہاں ریاست کے 60 فیصد ووٹر موجود ہیں۔ سکنر کے مطابق یہاں ایک سال سے زیادہ عرصے سے الیکشن کی تیاری چل رہی ہے۔
شیرف کا ڈپارٹمنٹ پولنگ سٹیشنز اور ووٹوں کی گنتی کے لیے قائم سینٹرز کی سکیورٹی کی نگرانی کرتا ہے۔ ان کے عملے کو الیکشن قوانین کی آگاہی دی گئی ہے، عموماً قانون نافذ کرنے والے ادارے اس چیز کے اتنے ماہر نہیں ہوتے۔
ڈرونز، سنائپرز اور دیگر سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ اس کی اتنی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
’مگر ہماری تیاری پوری ہے تاکہ عمارت کا تحفظ اور سلامتی یقینی بنا سکیں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ کا ’رنگین ارب پتی‘ ملکی تاریخ کی متنازع سیاسی شخصیت کیسے بناکملا ہیرس: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلی سیاہ فام خاتون امیدوار، جو خود کو محض ’امریکی‘ کہنا پسند کرتی ہیںمبہم سروے، غلط اندازے اور ’ٹاس‘: امریکی صدارتی الیکشن میں مقابلہ اتنا سخت کیوں ہے؟امریکہ کا اگلا صدر ٹرمپ یا ہیرس؟ ہمیں کب تک معلوم ہو گا کہ کون جیتا کون ہارا
ملک کی دیگر کاؤنٹیز کی طرح یہاں بھی الیکشن کا وہی طریقہ کار ہے۔ ووٹنگ کے مقامات پر بیلٹ جمع کرائے جاتے ہیں، پھر انھیں شہر فینیکس کے مرکزی علاقے میں لے جا کر گِنا جاتا ہے۔ اگر انھیں میل کیا جائے تو ان کی جانچ اور دستخط کی تصدیق ہوتی ہے۔ گنتی کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے دو ورکر بھی موجود ہوتے ہیں تاکہ کوئی خامی نہ ہو۔
اس پورے عمل کو دن کے 24 گھنٹے لائیو سٹریم کیا جاتا ہے۔
مگر کافی کچھ تبدیل ہوا ہے۔ 2020 کے الیکشن کے بعد ایک قانون منظور ہوا تاکہ ریاست میں دوبارہ گنتی کو آسان بنایا جائے۔ پہلے اگر 0.1 فیصد ووٹوں کے فرق سے فیصلہ آتا تھا تو دوبارہ گنتی ہوتی تھی۔ اب اسے بڑھا کر 0.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔
BBC
گنتی کے مرکز پر سکیورٹی کیمروں کی آنکھ سب دیکھ رہی ہے، مسلح سکیورٹی گارڈ تعینات ہیں اور دو باڑیں لگائی گئی ہیں۔ پارکنگ لاٹ کو بھی کچھ حد تک ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ تحفظ یقینی بنایا جائے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملازمین کو عمارت کے باہر سے دھمکایا نہ جا سکے۔
ماریکوپا کاؤنٹی کے سپروائزر بِل گیٹس نے کہا کہ ’افسوس ہے کہ ہمیں یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔‘
سوئنگ سٹیٹس: سات ریاستیں جو امریکی صدر کے انتخاب میں اہم ترین کردار رکھتی ہیںکملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان کے لیے کون بہتر؟
گیٹس خود رپبلکن ہیں۔ 2020 کے انتخاب اور دھمکیوں کے بعد ان میں پی ٹی ایس ڈی کی تشخیص ہوئی۔ وہ اس تناؤ کی وجہ سے دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں چاہتا ہوں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ووٹنگ سینٹر عسکری علاقے نہیں۔‘
’آپ یہاں اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ جا سکتے ہیں اور جمہوری عمل میں حصہ لے سکتے ہیں۔‘
2020 کے بعد کاؤنٹی نے لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ بات صرف سکیورٹی تک محدود نہیں۔ اب ان کے ہاں 30 لوگوں پر مشتمل کمیونیکیشن ٹیم بھی ہے۔
شفافیت پر کافی توجہ دی جا رہی ہے۔ گنتی کی مشینوں کی لائیو سٹریمنگ کے ذریعے نگرانی، عمارت کو عوامی دوروں کے لیے کھولنا، آن لائن افواہوں اور سازشی نظریات سے متعلق آگاہی کے لیے عملے کی بھرتی جیسے اقدام کیے گئے ہیں۔
BBC
اسسٹنٹ کاؤنٹی مینیجر زیک شیرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم انتخابی عمل کے ہر پہلو کے بارے میں آگاہی دیں گے اور ہر سازشی نظریے کو بے نقاب کریں گے۔‘
شیرف سکنر منگل کے الیکشن کو لے کر کافی پُرامید ہیں مگر انھوں نے ہنگامی حالات کی تیاری بھی کر رکھی ہے۔
ماریکوپا کے بعض رپبلکنز نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حالیہ تبدیلیوں سے مطمئن ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس بار کم مسائل پیش آئیں گے۔ 25 سالہ گیرٹ لڈوک نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ لوگ عقاب کی طرح پورے عمل پر نظر رکھیں گے۔‘ انھوں نے جو ٹوپی پہن رکھی تھی اس پر ٹرمپ کا نعرہ ’لبرلز کو رُلا دو‘ لکھا ہوا تھا۔
رپبلکن ووٹر ایڈورڈ نے کہا کہ محض ریلی میں جانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ ’میں اب اس حل کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔‘
مگر سب لوگ مطمئن نہیں۔ 55 سالہ میلیسا کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ دھاندلی ہوچکی ہے۔ آج کل کسی پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے۔‘
ایریزونا میں کون جیتے گا، اس کا فیصلہ بھی ماریکوپا کاؤنٹی کے نتائج سے جڑا ہے۔ حکام کو لگتا ہے کہ ووٹوں کی گنتی میں 13 دن بھی لگ سکتے ہیں، یعنی اس ریاست میں کانٹے کے مقابلے کے باعث الیکشن کی رات نتیجہ نہیں آ سکے گا۔
اسسٹنٹ کاؤنٹی مینیجر شیرا نے کہا کہ ’2024 میں یہ امکان ہے کہ پوری دنیا ماریکوپا کاؤنٹی کے نتائج کا انتظار کر رہی ہوگی۔‘
’پوری دنیا کا جمہوریت پر بھروسہ یہاں سے بحال ہوسکتا ہے۔‘
امریکہ کا اگلا صدر ٹرمپ یا ہیرس؟ ہمیں کب تک معلوم ہو گا کہ کون جیتا کون ہاراکملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان کے لیے کون بہتر؟سوئنگ سٹیٹس: سات ریاستیں جو امریکی صدر کے انتخاب میں اہم ترین کردار رکھتی ہیںمبہم سروے، غلط اندازے اور ’ٹاس‘: امریکی صدارتی الیکشن میں مقابلہ اتنا سخت کیوں ہے؟کملا ہیرس: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلی سیاہ فام خاتون امیدوار، جو خود کو محض ’امریکی‘ کہنا پسند کرتی ہیںڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ کا ’رنگین ارب پتی‘ ملکی تاریخ کی متنازع سیاسی شخصیت کیسے بنا