بانی چئیرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی بہن علیمہ خان کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کی فائنل کال کے بعد گذشتہ رات کو پشاور کے وزیراعلٰی ہاؤس میں اہم مشاورتی اجلاس بلایا گیا جس میں وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور سمیت دیگر مرکزی قائدین شریک ہوئے۔ اس اہم اجلاس میں 24 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے لائحہ عمل پر مشاورت کی گئی۔پارٹی زرائع کے مطابق اجلاس میں شریک کچھ رہنماؤں نے احتجاج کے لیے وقت کم ہونے کا شکوہ کیا۔ اجلاس میں سینیئر رہنماؤں نے عمران خان کے فیصلے پر من وعن عمل کرنے اور ایک ہفتے کے اندر احتجاج کے لیے تیاریوں کی ہدایت کی۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ 24 نومبر کے احتجاج کی اچانک تاریخ سامنے آنے کی وجہ کچھ رہنماؤں کو حیرت ہوئی۔
’انہوں نے کہا کہ احتجاج کی تیاری کے لیے کارکنوں کو موبلائز کرنا ضروری ہے جس کے پیشِ نظر پارٹی نے عوامی نمائندوں کو حلقوں میں جا کر 24 نومبر کے احتجاج کی تیاریوں کی ہدایت کی۔‘ہری پور میں ’فائنل کال‘ کے لیے بیٹھکاردو نیوز کے نمائندے فیاض احمد کے مطابق گذشتہ رات پشاور میں اجلاس کے بعد آج دوسرے روز جمعرات کو ہری پور میں پی ٹی آئی رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی رہائش گاہ پر اہم بیٹھک ہوئی جس میں وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور بھی شریک ہوئے۔ اس ملاقات میں پارٹی رہنماؤں کو اعتماد میں لینے اور کارکنوں کو پوری قوت کے ساتھ نکالنے کی حکمت عملی پر بات چیت ہوئی۔وزیراعلٰی ہاؤس کے ذرائع کے مطابق ہری پور میں اجلاس شیڈول کے مطابق نہیں تھا اور علی امین گنڈاپور ہری پور یونیورسٹی کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔دوسری جانب وزیراعلٰی خیبر پختونخوا نے جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ احتجاج ہر صورت ہوگا جس کے حوالے سے حکمت عملی طے کی ہے لیکن وہ ابھی نہیں سکتا تاہم اس وقت مکمل تیاری کے ساتھ اسلام آباد جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، رکاوٹیں ڈال کر اور ہمیں گرفتار کر کے جمہوری حق چھین رہے ہیں۔دوسری جانب صوبائی وزیر پختون یار خان نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے بعد وزیراعلٰی کی سربراہی میں ایم پی ایز کے ساتھ ملاقات ہوگی جس میں ذمہ داریاں سونپی جائیں گی، اور احتجاج کو کامیاب بنانے کی منصوبہ بندی کہ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ بانی چئیرمین کی رہائی کے لیے پارٹی قائدین اور ورکرز فائنل کال کا بے تابی سے انتظارکر رہے تھے۔پنجاب کی صورت حالبانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ’فائنل احتجاج‘ کی کال کے بعد پنجاب میں بھی پارٹی کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی ہڑتال کی کال کے لیے تحریک انصاف کی دستیاب قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر ایسی ہدایات دی گئی ہیں۔پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کال ایسے کیوں دی گئی ہے۔ کل جب سے یہ کال سامنے آئی ہیں پارٹی میں دو طرح کی سوچ پائی جا رہی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’ایک سوچ یہ ہے کہ فائنل کال کے لیے یہ وقت موزوں نہیں ہے اور زیادہ تر لوگ اس بات کے حامی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ خان صاحب کو غلط طریقے سے بریف کیا گیا ہے۔ ایک دھڑا اس کال کا حامی بھی ہے جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو روپوش ہیں۔ وہ واٹس ایپ گروپس میں اس بات کی حمایت کر رہے ہیں لیکن جو لوگ باہر موجود ہیں اور پچھلی احتجاجی کالز کا حصہ رہے ہیں وہ کہ رہے ہیں کہ ابھی یہ وقت مناسب نہیں ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔‘عمران خان کی کال کے بعد پارٹی کے اندر کی صورت حال تو مبہم ہے ہی لیکن سوائے چند ایک رہنماؤں کے اس فیصلے کو میڈیا پر بھی دستیاب پارٹی لیڈر شپ جوش و خروش سے بیان کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔امریکہ میں بیٹھے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا ہے کہ یہ احتجاج ملک بھر میں ہو گا۔ پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر نے بھی جمعرات کو کہا ہے کہ ’یہ احتجاج دنیا بھر میں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہ بھی کریں گے کیوںکہ اس کا حکم بانی تحریک انصاف عمران خان نے دیا ہے۔‘ان بیانات سے یہ تاثر بھی سامنے آرہا ہے کہ پارٹی لیڈرشپ اسلام آباد میں مطالبات کی منظوری تک دھرنا دینے کی کال سے تھوڑا مختلف سوچ رہی ہے۔ جس میں ملک بھر اور دنیا بھر میں احتجاج کی بات کی گئی ہے۔پنجاب میں ویسے تو تحریک انصاف کی سرگرم لیڈشپ 9 مئی کے واقعات کے بعد یا تو روپوش ہے یا پھر جیلوں میں ہے تاہم اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر کا کہنا ہے کہ ’ہم عمران خان کی کال پر اس احتجاج میں شریک ہوں گے اور اس حوالے سے پارٹی نےمشاورت شروع کر دی ہے۔ ابھی اس حوالے سے بہت سے پہلووں پر بات چیت ہو رہی ہے۔ اس کال پر احتجاج میں شرکت کے لیے موثر حکمت عملی بنائی جائے گی۔‘مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کی دستیاب قیادت کی بظاہر ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ گذشتہ احتجاج کی کال پر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ اور قیادت کی اکثریت معاملات کو تصادم کی بجائے ’سیاسی‘ انداز سے حل کرنے کی خواہاں ہے۔