"ایک عورت دوسری عورت کو روتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کا دکھ سمجھتی ہے کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ایسے ڈرامے جن میں عورت رو رہی ہوتی تھی، ان کی ریٹنگ بھی زیادہ آتی تھی، اس لیے ہم ڈرامے سوچ سمجھ کر اس طرز پر بناتے تھے۔ لیکن اب ہم نے عورت کے کردار کو زیادہ مضبوط دکھانے کی کوشش کی ہے۔"
ہمایوں سعید کے دلچسپ انکشافات: عورت، ڈرامے اور کرداروں کی کہانی
کراچی میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں سینیئر اداکار اور پروڈیوسر ہمایوں سعید نے پاکستانی ڈراموں کے رجحانات اور کرداروں پر کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسے ڈرامے زیادہ کامیاب ہوتے تھے جہاں عورتوں کے آنسو دیکھنے کو ملتے تھے کیونکہ ناظرین ان کرداروں سے جذباتی طور پر جُڑ جاتے تھے۔
ڈراموں میں عورت کا نیا انداز
ہمایوں نے وضاحت کی کہ پہلے ڈراموں کی کہانیاں عورت کے دکھ اور قربانیوں کے گرد گھومتی تھیں، لیکن اب وقت بدل چکا ہے۔ موجودہ ڈرامے عورت کو ایک مضبوط، خودمختار اور طاقتور شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی جانب گامزن ہیں۔
سینسر شپ کی بات
ہمایوں نے کہا، "کہانیوں میں آزادی ہونی چاہیے لیکن اتنی نہیں کہ وہ بے مقصد ہو جائیں۔ لباس اور مواد پر سینسر شپ کا دباؤ ضرور ہے، لیکن اس سے کہانیوں کی تخلیقی آزادی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔"
'میرے پاس تم ہو' کا اختتام: ہمایوں کا فیصلہ
اپنے مقبول ترین ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے ہمایوں نے کہا کہ دانش کے کردار کو ختم کرنے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ یہ اختتام ان کی خواہش کے مطابق ہوا، جو ناظرین کے دلوں پر آج بھی نقش ہے۔