پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک ایسے مقدمے کی سماعت ہوئی ہے جس میں انکشاف ہوا کہ ایک ملزم اپنی عمر قید کی سزا مکمل کرنے اور جیل سے رہا ہونے کے بعد اپیل کے لیے سماعت کا انتظار کر رہا تھا۔ بدھ کو جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے اس شہری عثمان کو 2007 میں یاسین نامی شخص کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔سنہ 2017 میں ملزم نے جیل سے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تاہم یہ اپیل کئی برس تک سماعت کے لیے مقرر نہ ہو سکی۔ اس دوران ملزم نے اپنی سزا مکمل کی اور جیل سے رہا ہو گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’سنہ 2017 سے تمام چیف جسٹس صاحبان اس اپیل کو سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ بھی انتظامی طور پر اس تاخیر کی ذمہ دار ہے۔ فوجداری مقدمات میں تفتیش کے لیے محض 350 روپے مختص کیے جاتے ہیں جو کہ ایک مذاق کے مترادف ہے اور ملک کے فوجداری نظام میں بنیادی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔‘جسٹس شہزاد ملک نے سماعت کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن انسداد دہشت گردی عدالتوں اور دیگر ماتحت عدالتوں میں ججز کی تعداد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ عدلیہ میں انفراسٹرکچر اور عملے کی کمی نظام کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہے۔سماعت کے دوران ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد پر حملے کا ذکر کیا۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں سیاست نہ کریں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔عدالت نے دوران سماعت یہ بھی انکشاف کیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں چار لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ جسٹس شہزاد ملک نے کہا کہ ججز اور عملے کی کمی کے ساتھ بنیادی سہولیات کا فقدان بھی عدالتی امور میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عدالت نے ملزم کی سزا مکمل ہونے اور جیل سے رہائی کے پیش نظر مقدمہ نمٹا دیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ عام لوگوں کے مقدمات ہیں اور فوجداری اور سروس مقدمات میں صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔