Getty Imagesمغربی بنگال انڈیا کی چوتھی بڑی ریاست ہے جس کی آبادی 10 کروڑ سے زیادہ ہے اور یہاں دہائیوں سے سیاسی تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں
گذشتہ تین دہائیوں کے دوران انڈیا کی ریاست مغربی بنگال میں تقریباً 565 بچے دیسی ساختہ بم کے دھماکوں میں یا تو زخمی ہوئے ہیں یا پھر ہلاک۔
بی بی سی آئی انویسٹیگیشن نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر یہ دیسی ساختہ بم ہیں کیا، مغربی بنگال کی سیاست میں ان کا استعمال کیسے ہوتا ہے اور آخر بچے ان کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟
یہ مئی 1996 میں گرمیوں کی ایک صبح تھی جب مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکتہ کی ایک کچی آبادی میں چھ لڑکے ایک تنگ سی گلی میں کرکٹ کھیلنے نکلے تھے۔
اس روز چھٹی تھی کیونکہ وہاں عام انتخابات ہو رہے تھے۔
جودھ پور پارک میں واقع اس آبادی میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے اور یہاں زندگی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔
ان چھ لڑکوں میں نو سالہ پوچھو سردار بھی شامل تھے۔ انھوں نے خاموشی سے اپنا کرکٹ بیٹ نکالا اور اپنے والد کو سوتا ہوا چھوڑ کر گھر سے باہر نکل آئے۔
کرکٹ میچ شروع ہوا تو گیند باؤنڈری سے باہر چلی گئی اور اسے ڈھونڈنے کے لیے تمام لڑکے قریبی باغیچے میں چلے گئے۔ وہاں انھیں ایک پلاسٹک کا تھیلا ملا جس میں چھ گیندیں موجود تھیں۔
بچوں نے یہ 'گیندیں' اُٹھائیں اور دوبارہ کرکٹ کھیلنے لگے۔ پلاسٹک کے تھیلے میں سے نکالی گئی ایک 'گیند' بولر کے ہاتھ میں تھی۔ وہ بھاگتا ہوا آیا 'گیند' پھینکی اور جیسے ہی یہ پوچھو سردار کے بیٹ سے ٹکرائی تو ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔
یہ ایک بم تھا۔ جیسے ہی دھواں اُٹھنا شروع ہوا اور اہل محلہ بھاگے بھاگے باہر نکلے انھوں نے دیکھا کہ پوچھو سردار اور ان کے پانچ دوست زمین پر پڑے ہیں۔ ان کی جِلد سیاہ پڑ چکی تھی، لباس پھٹ چکا تھا اور ان کے جسم پر زخموں کو نشانات تھے۔
اس دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں دو بچے شامل تھے۔ سات سالہ یتیم بچہ راجو داس جسے ان کی آنٹی پالا تھا اور سات سالہ گوپال بسواس۔
اس دھماکے میں پوچھو سردار بمشکل زندہ بچ پائے تھے لیکن ان کا جسم جھلس گیا تھا اور ان کے سینے، چہرے اور پیٹ پر کیلیں لگنے سے بھی زخم آئے تھے۔
انھیں ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہسپتال میں گزارنے پڑا۔ جب وہ گھر واپس آئے تو باورچی خانے میں استعمال ہونے والے چمٹے کے ذریعے ان کے جسم میں پیوست کیلیں نکالی گئیں کیونکہ ان کے خاندان کے پاس ہسپتال کا بِل ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
پوچھو سردار اور ان کے دوستوں کا شمار ان سینکڑوں بچوں میں ہوتا ہے جو دیسی ساختی کروڈ بم کا شکار ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال میں سیاسی دھڑوں کے درمیان برتری کی پُرتشدد جنگ میں زخمی ہونے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔
مغربی بنگال میں ان بموں کا شکار ہونے والے افراد کے حوالے سے جامع اور مستند معلومات موجود نہیں ہے۔ اسی لیے بی بی سی نے مغربی بنگال کے دو بڑے اخبارات آنندہ بازار پتریکا اور برتامان پرتیکا کے سنہ 1996 سے لے کر 2024 چھپنے والے پر ہر شمارے کا جائزہ لیا ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس عرصے میں دیسی ساختہ بموں کے دھماکے میں کتنے بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
ہمیں معلوم ہوا کہ اس دورانیے میں کم از کم 94 بچے ان دھماکوں میں ہلاک جبکہ 471 زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم بی بی سی کو کچھ ایسے دھماکوں کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے جو کہ دو اخبارات میں رپورٹ نہ ہو سکے، ایسے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
ایسے 60 فیصد واقعات میں نشانہ بننے والے بچے وہ تھے جو باہر باغیچوں، سڑکوں، کھیتوں یا سکولوں کے قریب کھیل رہے تھے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں انتخابات کے دنوں میں عام طور پر یہ بم چھپائے جاتے ہیں۔
بی بی سی نے جن متاثرہ بچوں سے بات کی ہے ان میں سے اکثریت کے والدین کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔
برطانیہ میں انڈین خاتون کا گلا دبا کر قتل: ’میری بیٹی اذیت کی زندگی گزار رہی تھی، اس نے بتایا تھا کہ اس کا شوہر اسے مار ڈالے گا‘ہزاروں لاوارث لاشوں کی آخری رسومات ادا کرنے والی خاتون: ’میرے گھر والوں سے کہا گیا کہ تمہاری بیٹی کی شادی نہیں ہو گی‘انسٹاگرام پر محبت نے دبئی پلٹ شخص کو دُلہا تو بنا دیا لیکن دُلہن عین شادی کے دن ’غائب‘ ہو گئیوہ مسلمان خاندان جنھیں ہندوؤں کے دباؤ میں آ کر اپنا گھر بیچنا پڑامغربی بنگال میں بموں کے استعمال کی تاریخ
مغربی بنگال انڈیا کی چوتھی بڑی ریاست ہے جس کی آبادی 10 کروڑ سے زیادہ ہے اور یہاں دہائیوں سے سیاسی تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
سنہ 1947 میں انڈیا کی آزادی کے بعد یہاں مختلف جماعتوں نے حکمرانی کی ہے – کانگریس نے یہاں دو دہائیوں تک حکومت کی ہے، اس کے بعد تین دہائیوں تک بائیں ہاتھ کی جماعتیں یہاں برسرِ اقتدار رہیں اور اب 2011 سے یہاں ترنمول کانگریس حکومت میں ہے۔
1960 کی دہائی کی آخر میں یہاں ماؤ باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان پُرتشدد تنازع شروع ہوا تھا۔ تب سے لے کر آج تک مغربی بنگال میں اپنے مخالفین کو ڈرانے کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے خصوصاً انتخابات کے دنوں میں ان بموں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
مغربی بنگال میں پولیس کے سابق سربراہ پنکچ دتا کہتے ہیں کہ 'یہاں بموں کا استعمال جھگڑے نمٹانے کے لیے ہوتا رہا ہے۔ مغربی بنگال میں یہ سب ایک لمبے عرصے، 100 سال سے زائد سے ہو رہا ہے۔'
بنگال میں بم بنائے جانے کی جڑیں 20ویں صدی کے اوائل میں ملتی ہیں جب اس خطے میں برطانوی اقتدار کے خلاف بغاوت ہوئی تھی۔
بم بنانے کی جو کوششیں شروع میں ہوئیں اس میں لوگوں کو زیادہ کامیابی نہیں مل سکی: ایک باغی بم بناتے وقت اپنا ہاتھ کھو بیٹھا تھا، جبکہ دوسرا ایک تجربے کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔
پھر ایک باغی فرانس سے واپس انڈیا پہنچا اور وہ بم بنانے میں مہارت رکھتا تھا۔ انھوں نے ایک کتاب کی طرز کا بم بنایا تھا جس میں کیڈبری کے ایک ٹِن میں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا اور اگر برطانوی میجسٹریٹ اس کتاب کو کھول لیتے تو ان کی موت یقینی تھی۔
ایسا پہلا دھماکہ سنہ 1907 میں اس وقت ہوا جب باغیوں نے مدناپور ضلع میں ٹرین کی پٹریوں پر ایک بم نصب کیا۔ اس دھماکے میں اس ٹرین کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں برطانوی افسران سوار تھے۔
کچھ ہی مہینوں بعد ایک اور ایسا ہی بم حملہ ہوا جس میں مظفرپور کے مجسٹریٹ کی گھوڑا گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، اس حملے میں مجسٹریٹ تو بچ گئے لیکن دو انگریز خواتین ہلاک ہوئیں۔
ایک اخبار نے اسے حملے کو ایک 'علاقے کو حیران کر دینے والا زبردست دھماکہ' قرار دیا اور اسی سبب ایک نوجوان باغی خودیرام بوس انڈیا کے پہلے 'فریڈم فائٹر' قرار دیے گئے۔
Getty Imagesبم بنانے کی جو کوششیں شروع میں ہوئیں اس میں لوگوں کو زیادہ کامیابی نہیں مل سکی
سنہ 1908 میں ایک قوم پرست رہنما بال گنگادھر تلک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہ بم صرف ہتھیار نہیں بلکہ ایک 'جادو' ہے جو کہ بنگال سے پورے انڈیا کی طرف پھیل رہا ہے۔
آج بنگال میں ان دیسی ساختہ بموں کو 'پیٹو' کہا جاتا ہے۔ یہ بم سُتلی یا رسی سے بنے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان دھماکہ خیز مواد، شیشہ یا کیلیں رکھی جاتی ہیں۔ یہاں بم اور طریقوں سے بھی بنائے جاتے ہیں جیسے لوہے کے ڈبوں اور کانچ کی بوتلوں میں دھماکہ خیز مواد بھر دیا جاتا ہے۔
عام طور پر اس طرح سے بنائے گئے بم سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
خصوصاً دیہی علاقوں میں سیاسی کارکن ان بموں کا استعمال اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے، پولنگ سٹیشنوں یا اپنے دشمنوں کو نشانہ بنانے کے لیے کرتے ہیں۔
ان بمو کا استعمال پولنگ بوتھس کو تباہ کرنے یا کسی علاقے میں اپنے تسلط جمانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن اکثر ان بموں کا نشانہ پولامی حلدر جیسے بچے بھی بن جاتے ہیں۔
سنہ 2018 میں اپریل کے مہینے کی ایک صبح گوپال پور دیہات میں سات سالہ پولامی پوجا کے لیے پھول اکھٹے کر رہی تھیں۔ ان کے دیہات میں ہر طرف تالاب اور ناریل کے درخت تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب بلدیاتی انتخابات صرف ایک مہینے دور رہ گئے تھے۔ ابھی پولامی زمین سے پھول چُن ہی رہی تھیں کہ ان کی نظر پانی کے پمپ کے پاس پڑی ایک گیند پر پڑی۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'میں نے اسے زمین سے اُٹھایا اور ساتھ گھر لے گئی۔'
جیسے ہی وہ اپنے گھر میں داخل ہوئیں انھوں نے دیکھا کہ ان کے دادا جائے پی رہے ہیں۔ جیسے ہی دادا کی نظر پولامی کے ہاتھ پر پڑی وہ اپنی جگہ پر جم سے گئے۔
پولامی کہتی ہیں کہ 'دادا نے کہا یہ گیند نہیں ہے بلکہ بم ہے اسے پھینک دو۔ اس سے قبل کے میں کوئی ردِ عمل دے پاتی یہ بم میرے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا۔'
اس دھماکے سے دیہات میں چھائی خاموشی تباہ ہو گئی تھی۔ پولامی کی آنکھوں، چہرے اور ہاتھوں پر زخم آئے تھے۔ وہ بےہوش ہوگئیں اور ان کے اردگرد افراتفری پھیل گئی۔
پولامی کہتی ہیں کہ 'مجھے یاد ہے کہ ہر کوئی میری طرف بھاگ رہا تھا لیکن میں بہت کم ہی دیکھ پا رہی تھی۔ مجھے ہر جگہ چوٹ لگی تھی۔'
اہلیانِ دیہات نے انھیں جلدی سے ہسپتال پہنچایا۔ ان کو شدید چوٹیں آئی تھیں، ان کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا اور انھیں تقریباً ایک ماہ ہسپتال میں گزارنا پڑا تھا۔
ایک عام سی صبح پولامی کے لیے ایک خوفناک خواب بن گئی تھی جس نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
پولامی میں وہ اکیلی بچی نہیں جو ایسے حادثے کا شکار ہوئی ہیں۔ مرشدپور ضلع کی 10 سالہ رہائشی صبینا خاتون بھی ایسے ہی کروڈ بم کا نشانہ بنی تھیں۔
وہ اپنی بکری چرا رہی تھیں کہ ان کی نظر گھاس پر پڑے ایک بم پر پڑ گئی۔ تجسس کا شکار ہو کر انھوں نے اسے اُٹھایا اور کھیلنے لگیں۔
کچھ ہی لمحوں بعد یہ ان کے ہاتھوں میں پھٹ گیا۔ ان کی والدہ امینہ بی بی کہتی ہیں کہ 'جیسے ہی میں نے دھماکہ سُنا میں نے سوچا کہ اس مرتبہ کون معذور ہونے والا ہے؟ کیا صبینا معذور ہو گئی ہے۔'
'جیسے ہی میں گھر سے باہر نکلی میں صبینا کو لوگوں کے ہاتھوں میں دیکھا۔ اس کے ہاتھ کا گوشت نظر آ رہا تھا۔'
ڈاکٹروں کو صبینا کا ہاتھ بھی کاٹنا پڑا۔ ہسپتال سے گھر لوٹنے کے بعد وہ اپنی زندگی کو دوبار شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کے والدین اپنی بیٹی کے غیرواضح مستقبل کا سوچ کر پریشان ہیں۔
امینہ کہتی ہیں کہ 'میری بیٹی روتی رہتی تھی اور کہتی تھی کہ اس کا ہاتھ کبھی واپس نہیں آئے گا۔'
'میں اسے تسلی دے کر کہتی تھی کہ اس کا ہاتھ اور انگلیاں واپس آ جائیں گی۔'
اب صبینا عام سے کاموں کے دوران بھی پریشان ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے پانی پینے میں، کھانے میں، نہانے میں، لباس تبدیل کرنے میں اور بیت الخلا جانے میں بھی پریشانی ہوتی ہے۔'
بم دھماکوں کا نشانہ بننے کے باوجود خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے ان بچوں کی زندگیاں بالکل تبدیل ہو کر رہ جاتی ہیں۔
پولامی اب 13 برس کی ہو چکی ہیں اور انھیں ایک مصنوعی ہاتھ دے دیا گیا ہے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ بہت بھاری ہے۔ دوسری جانب 14 سالہ صبینا کی اب بینائی جاتی جا رہی ہے۔
ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ صبینا کو ایک اور آپریشن کی ضرورت ہے لیکن وہ اس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔
کرکٹ کھیلتے وقت کروڈ بم کی زد میں آ کر زخمی ہونے والے پوچھو سردار بھی اب 37 برس کے ہو چکے ہیں۔ ان کے والدین نے ڈر کی وجہ سے ان کا سکول چُھڑوا دیا تھا اور وہ گھر سے باہر نکلنے سے بھی ڈرتے تھے۔
وہ اکثر معمولی سی آواز سُن کر بھی اپنے بستر کے نیچے چھپ جایا کرتے تھے۔ انھوں نے دوبارہ کبھی کرکٹ کھیلنے کے لیے بیٹ نہیں پکڑا، ان کا بچپن برباد ہوگیا اور اب وہ بطور مزدور معمولی کام کرتے ہیں۔
لیکن ابھی تمام امیدیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔
پولامی اور صبینا ایک ہاتھ سے سائیکل چلانا سیکھ چکی ہیں اور سکول بھی جا رہی ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ بڑی ہو کر ٹیچرز بنیں۔
پوچھو سردار بھی اپنے پانچ سالہ بیٹے رُدرا کے مستقبل کو لے کر پُرامید ہیں اور اسے ایک پولیس افسر بنانا چاہتے ہیں۔
اتنے بڑے نقصانات کے باوجود بھی مغربی بنگال میں کروڈ بم کا استعمال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کا اقرار نہیں کرتی کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے اس خطرناک ہتھیار کا استعمال کرتی ہے۔
بی بی سی نے حکمراں حماعت ترنمول کانگرس اور حزبِ اختلاف کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے جب اس حوالے سے سوالات کیے تو انھوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔
دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کروڈ بم استعمال کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور جب بات حقوق اور جانوں کے تحفظ کی آتی ہے تو انھیں سب سے زیادہ تشویش بچوں پر ہی ہوتی ہے۔'
انڈین نیشنل کارنگرس نے بھی سیاسی فوائد کے لیے کروڈ بموں کا استعمال کرنے کی تردید کی اور کہا کہ اس نے 'کبھی سیاست یا سیاسی فائدے کے لیے تشدد کا سہار نہیں لیا۔'
کوئی بھی سیاسی جماعت کروڈ بم کا استعمال کرنے کی ذمہ داری نہیں لے رہی لیکن بی بی سی سے بات کرنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سب پُرتشدد سیاسی کلچرکا ہی نتیجہ ہے۔
پنکج دتّا کہتے ہیں کہ 'کسی بھی بڑے انتخاب کے دوران آپ یہاں بموں کا بےدریغ استعمال دیکھیں گے۔'
پنکج دتّا رواں برس نومبر میں وفات پاچکے ہیں۔
دوسری جانب پولامی کہتی ہیں کہ: 'جو بم نصب کرتے ہیں وہ آج بھی آزاد ہیں۔ کوئی بھی کسی بم کو ایسے زمین پر پڑا نہ چھوڑے۔ کسی بھی بچے کو کبھی ایسا نقصان دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔'
’دیکھیں انھوں نے میرے بچے کے ساتھ کیا کر دیا‘
نقصانات سے بچنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی کروڈ بموں کے سبب ہونے والی اموات رُکنے کا نام نہیں لے رہیں۔
رواں برس مئی میں ضلع ہوگلی میں تالاب کے کنارے کھیلتے ہوئے بچوں کو کروڈ بموں کا ایک تھیلا ملا تھا۔ اس کے سبب ہونے والے دھماکے میں نو سالہ راج بسواس ہلاک ہوئے تھے، ان کے ایک دوست کا ہاتھ ضائع ہوگیا تھا جبکہ دوسرے دوست کا پاؤں ٹوٹ گیا تھا۔
راج کے والد نے جب اپنے مردہ بچے کو دیکھا تو ان کا ماتھا چوم کر کہنے لگے 'دیکھو انھوں نے میرے بچے کے ساتھ کیا کر دیا۔'
جب راج کو قبر میں اُتارا جا رہا تھا تو قریب ہی ایک انتخابی جلسے سے 'جیے بنگلہ، جیے بنگلہ' کی آوازیں آ رہی تھیں۔
وہ انتخابات کا وقت تھا اور ایک بار پھر بچے اس کا خمیازہ بھگت رہے تھے۔
انڈیا میں 190 کروڑ روپے کا ڈیجیٹل فراڈ جو ایک خاتون کی کال اور لوکیشن ٹریس کرنے پر بے نقاب ہواملک بدری جیسے خطرات کے باوجود انڈین شہری آخر کیوں امریکہ جانے کے خواب دیکھتے ہیں؟انڈیا میں وائرل فیشن شو جس میں کچی آبادی کے نوجوان ماڈلنگ کر کے سلیبریٹی بن گئےتقسیم ہند کے خون خرابے کے باوجود انڈیا کی آسٹریلیا میں پہلی ٹیسٹ سیریز جو منسوخ ہوتے ہوتے رہ گئیشیو سینا کی سیاست میں تبدیلی: بال ٹھاکرے کے بیٹے جن کا ہندوتوا ’مراٹھی میں دیا گیا قرآن ہے‘کیرن: دو ملکوں میں بٹا علاقہ جہاں سیز فائر کے بعد زندگی اور سیاحت لوٹ رہے ہیں