جب فاطمہ جناح کی مقبولیت سے خائف ہو کر ایوب خان نے انھیں ’نسوانیت اور ممتا سے عاری‘ خاتون قرار دیا

بی بی سی اردو  |  Jan 04, 2025

مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) ہو یا مغربی پاکستان، بظاہر پورا ملک ہی فاطمہ جناح کے لیے دیوانہ ہوا جاتا تھا۔

یہ سال 1964 کا تھا اور 71 سالہفاطمہ جناح قومی انتخابات میں پاکستان کے صدر ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی امیدوار بن چکی تھیں اور زور شور سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔

اس انتخابی مہم کی گہما گہمی سے متعلق 30 اکتوبر 1964 کو شائع کردہ اپنی ایک رپورٹ میں ’ٹائم میگزین‘ نے لکھا کہ ڈھاکہ میں تقریباً ڈھائی لاکھلوگ انھیں دیکھنے کو آئےتھے۔

’(لگ بھگ) دس لاکھ افراد نے ڈھاکہ سے چٹاگانگ تک کے 293 میل طویل راستے میں کھڑے ہو کر اُن (فاطمہ جناح) کا استقبال کیا۔ اُن کی ٹرین (جسے ’فریڈم سپیشل‘ کا نام دیا گیا تھا) 22 گھنٹے کی تاخیر سے اپنی منزل پر پہنچی، کیونکہ ہر سٹیشن پر لوگہنگامی زنجیر کھینچتے اور اُن سے خطاب کی درخواست کرتے۔‘

اسی طرح ’نیویارک ٹائمز‘ کی 8 نومبر 1964 کی ایک خبر کے مطابق پاکستان (مشرقی اور مغربی) میں ’فاطمہ جناح کا دُبلا پتلا، سفید لباس میں ملبوس وجود اور اُن کا بارعب چہرہ ایک مانوس منظر تھا۔‘

اس خبر میں مزید بتایا گیا کہ ’وہ بظاہر الگ تھلگ اور تقریباً مغرور لگتی ہیں، لیکن اُن کی مسکراہٹ ایسی گرمی اور محبت پیدا کرتی ہے جس کے سامنے کوئی بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ اُن کا انگریزی میں بیان سامعین کے لیے تقریباً ناقابل فہم ہوتا ہے، لیکن وہ اُن کے ہر لفظ کو محبت سے سُنتے ہیں۔ اُن کے ہر بیان کے بعد ہونے والا ترجمہ نعروں اور تالیوں کی گونج میں دب جاتا ہے۔‘

’مادرِ ملت‘ پکارتے ہجومسے جب وہ پوچھتیں کہ ’کیا آپ میرے ساتھ ہیں؟‘ تو ہاتھ جوش و خروش سے ہوا میں لہرانے لگتے۔‘

شاہد رشید اپنی کتاب ’مادرِ ملت، محسنہ ملت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وہ حصولِ اقتدار کی خواہش سے بے نیاز تھیں۔ لیکن دستور سازی اور عوامی حقوق میں اُن کی دلچسپی تھی۔ اقتدار سے الگ رہنے کے باوجود وہ وقتاً فوقتاً اُس وقت کی قیادت کو اُن کی غلطیوں سے آگاہ کرتی رہیں۔ جو لوگ جمہوریت کے نام پر عوام کے حقوق غصب کر رہے تھے، مادرِ ملت نے اُن پر سخت تنقید کی اور جب ملک آمریت کے چنگل میں پھنس گیا تو وہ اس کے نتائج سے بھی عوام کو آگاہ کرتی رہیں۔‘

سیاست دان نوابزادہ نصراللہ خان، ازہر منیر کی کتاب ’مادرِ ملت کا جمہوری سفر‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’انھوں نے ایوب خان کے مارشل لا اور آمریت کی بھی بھرپور مخالفت کی۔ یہاں تک کہ اس قدر معمر ہونے کے باوجود وہ آمر حکمران کے خلاف انتخاب لڑنے کے لیے تیار ہو گئیں۔‘

نوابزادہ نصر اللہ خان نے اس ضمن میں ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ایک موقع پر میں نے فاطمہ جناح سے کہا ہماری احتیاط کے باوجود صحافی ہمارا تعاقب کرتے ہوئے فلیگ سٹاف ہاؤس (فاطمہ جناح کی رہائش گاہ) پہنچ چکے ہیں اگر ہم یہاں سے باہر نکل کر انھیں کچھ نہ بتا سکے تو کل پریس میں اس قسم کی خبریں شائع ہوں گی کہ محترمہ نے کمبائنڈ (متحدہ) اپوزیشن کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ اس سے عوام کو بے حد مایوسی ہو گی اور ایوب خان کو اپنی مہم میں فائدہ پہنچے گا۔ محترمہ نے ازراہ مہربانی ہماری پیشکش قبول کر لی۔ اُسی وقت پریس کے نمائندوں کو فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا۔‘

ٹائم کے مطابق ’ایوب کو توقع نہیں تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کا مجموعہ، جو خفیہ کمیونسٹوں سے لے کر دائیں بازو کے سخت گیر مسلمانوں تک پھیلا ہوا تھا، ایک امیدوار پر متحد ہو جائے گا۔ لیکن وہ متحد ہو گئے۔‘

نوابزادہ نصراللہ اپوزیشن کی ان سرگرمیوں کا متحرکحصہ تھے۔

وہ وکیل انجم کی ترتیب دی گئی کتاب ’شمع جمہوریت‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ صدارتی انتخابات کا اعلان ہونے پر ایوب خان کے وزیر قانون نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن اُن کے خلاف اپنا امیدوارنہیں لا سکے گی۔

’حزب اختلاف کی پانچ جماعتوں نے کمبائنڈ اپوزیشن یا متحدہ حزب اختلاف کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کیا۔ اس میٹنگ میں مسلم لیگ (کونسل) کے صدر خواجہ ناظم الدین، نظام اسلام پارٹی کے صدر چودھری محمد علی، نیشنل عوامی پارٹی کے صدر مولانا عبد الحمید بھاشانی اور میاں محمود علی قصوری، عوامی لیگ کی جانب سے میں اور شیخ مجیب الرحمٰن اور جماعت اسلامی سے چودھری رحمت الہٰی شریک ہوئے۔‘

بعد میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کی، وہ پہلے اجلاس کے وقت جیل میں تھے۔

نوابزادہ نصراللہ کے مطابق اگرچہ پہلے اجلاس میں کسی امیدوار کے نام پر غور نہیں کیا گیا تاہم اکثر رہنماؤں کے ذہنوں میں دو ہی نام تھے: ایک محترمہ فاطمہ جناح کا اور دوسرا مشرقی پاکستان کے گورنر اعظم خان کا۔

یہ تفصیل بتانے کے بعد کہ تمام رہنما کیسے فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنانے کے فیصلے پر پہنچے اور کیسے وہ دو روز کی مہلتلینے کے بعد اس پر راضی ہوئیں، نوابزادہ نصراللہ نے لکھا کہ ’اس فیصلے نے پوری قوم میں عدیم المثال (جس کی مثال نہ ملتی ہو) جذبہ اور ولولہ پیدا کر دیا۔‘

Getty Images

فاطمہ جناحکی زور پکڑتی انتخابی مہم کو روکنے کے لیے اچانک اعلان کیا گیا کہ انتخابات 2 جنوری کو ہوں گے نہ کہ مارچ میں، جیسا کہ پہلے طے کیا گیا تھا۔

یکم دسمبر 1964 کو ’روزنامہ جنگ‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں ایک ہی دن میں تین نوٹیفیکیشن جاری کیے جن میں صدارتی امیدواروں کے نام، اُن کے انتخابی نشان اور دو جنوری کو پولنگ ہونے کا اعلان کیا گیا۔

ایوب خان کا انتخابی نشان ’پھول‘ تھا جبکہ فاطمہ جناح کا ’لالٹین‘۔

نوابزادہ نصراللہ لکھتے ہیں کہ ’وہ جہاں بھی گئیں بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور خواتین اُن کا انتخابی نشان ’لالٹین‘ ہاتھوں میں لیے شاہراہوں پر استقبال کے لیے موجود ہوتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے دورے میں محترمہ نے ڈھاکہ سے چٹاگانگ کا ٹرین سے سفر شیڈول سے تین گنا زیادہ وقت میں بمشکل طے کیا کیونکہ لاکھوں افراد ہر سٹیشن پر إصرار کرتے تھے کہ محترمہ اُن سے خطاب کریں۔ لوگ خطاب کرنے کا اپنا مطالبہ منوانے کے لیے ٹرین کے آگے لیٹ جاتے تھے۔‘

نیویارک ٹائمزنے لکھا کہ ’فاطمہ جناح کا انتخاب بنیادی طور پر اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی بہن اور رازدان تھیں۔ ایوب کی سخت گیر حکمرانی کے خلاف اُن کے تیز و تند حملوں پر پاکستانی عوام کے ردعمل نے حکومت کو حیران اور پریشان کر دیا تھا۔‘

’ملک بھر میں طلبہ نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے، زیادہ تر قانونی تنظیمیں فاطمہ جناح کی حمایت میں آ گئیں، جنھیں ایوب نے ’شرپسند‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ عام طور پر حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے والے اخباروں کے ایڈیٹرز نے سخت نئے پریس قوانین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایوب کے اس دعوے پر کہ وہ ’بنیادی جمہوریت‘ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، مِس جناح نےکہا کہ ’یہ کس قسم کی جمہوریت ہے؟ ایک شخص کی جمہوریت؟ پچاس لوگوں کی جمہوریت؟‘

’وہ غربت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ وہ بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں، خاص طور پر ایوب خان کے بڑے بیٹے، گوہر، کی تیز ترقی کے خلاف، جنھوں نے اپنی فوجی کپتانی چھوڑ کر گندھارا انڈسٹریز میں بڑا عہدہ سنبھال لیا ہے، جس نے جنرل موٹرز کے اسمبلی پلانٹ کو اس کے امریکی مالکان سے دس لاکھ ڈالر میں خریدا۔ سب سے بڑھ کر وہ ایوب پر آمر ہونے کا الزام لگاتی ہیں۔۔۔ مغربی معیار کے مطابق ایوب واقعی آمر ہیں۔ وہپریس کو کنٹرول کرتے ہیں اور بہت سے مخالفین کو قید کر چکے ہیں۔ ایوب کے آئین میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، جس پر اب شاید انھیں افسوس ہو رہا ہو۔‘

’ایوب نے پاکستان کی اب بھی ناگفتہ بہ معیشت کو بہت بہتر کیا ہے۔ مذہبی قدامت پسندوں کے احتجاج کے باوجود وہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ دیتے ہیں۔ ایوب کہتے ہیں کہ اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو دس سال میں انسان انسان کو کھانے پر مجبور ہو جائے گا۔ جہاں تک ان کے بیٹے کے کیریئر کا تعلق ہے، ایوب کا بے دلی سے کہنا تھا کہ انھیں تمام نوجوانوں کو آگے بڑھتے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔‘

نیویارک ٹائمزنے لکھا کہ ’مس جناح واضح طور پر ایوب خان کے اعصاب پر سوار تھیں۔ ایوب نے کہا، وہ ایک بوڑھی گوشہ نشین اور کمزور دماغ والی خاتون ہیں۔ اگر آپ نے انھیں ووٹ دیا، تو آپ انتشار کو دعوت دیں گے۔‘ جبکہ اُن کی حریف نے صاف کہا کہ ’آپ جبر، طاقت، اور بڑے ڈنڈے کے ذریعے استحکام حاصل نہیں کر سکتے۔‘

ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ’فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ اِن پاکستان‘ اور اُس وقتکے اخبارات کے مطابق ایوب خان نے اس انتخابی مہم کے دوران فاطمہ جناح کو ’نسوانیت اور ممتا سے عاری‘ خاتون قرار دیا تھا۔

اُس دور کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’فوجی راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھا ہے کہ ایوب خان نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے اُن پر ’خلافِ فطرت‘ زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ’بدخصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں۔‘

احسن علی باجوہ کی ’مادرِ ملت، فخ رملت‘ کے نام سے چھپی تحقیق ہے کہ ایوب حکومت نے کسی خاتون کے ملک کے سربراہ ہونےکے خلاف فتوے بھی جاری کروائے اور اسی کے جواب میں کراچی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے کہا تھا کہ ’مرد سے قوم کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہو تو خاتون سربراہِ مملکت بن سکتی ہے۔‘

اس دور میں مولانا مودودی کا ایک جملہ زبان زد عام ہو گیا تھا کہ ’ایوب خان میں ‏اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں، اور فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں۔‘

مولانا مفتی محمد شفیع دارالافتا دارالعلوم کراچی کی مہر سے فتویٰ جاری کیا گیا کہ ’جمہوری ملک میں عورت صدرِ مملکت بن سکتی ہے۔‘ ابتدا میں اس کی مخالفت کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے بھی فاطمہ جناح کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

خواجہ ناظم الدین کو انتخابی تھکان کے باعث 22 اکتوبر کو دل کا دورہ پڑااور اگلے روز اُن کی وفات ہو گئی۔ اُن کی موت سے حزب اختلاف کو سخت دھچکا لگا اور فاطمہ جناح نے اسے ایک المیہ قرار دیا۔

اسی دوران انتخابی مہم زوروں پر تھی جب مولانا بھاشانی اپنی پارٹی سمیت فاطمہ جناح کی حمایت سے دستبردار ہو گئے۔ بنگلہ دیش کی سابقوزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اس دور میں دعویٰ کیا تھا کہ ’مولانا بھاشانی کی غداری سے بہاریوں کے ووٹ محترمہ فاطمہ جناح کو نہ ملے۔‘

انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ مولانا بھاشانینے ایوب خان سے چالیس لاکھ روپیہ لیا تھا۔

صحافی و اینکر حامد میر نے عبداللہ ملک کی کتاب ’داستان ِخانوادہ میاں محمود علی قصوری‘ کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ مولانا بھاشانی نے 40 لاکھ روپے کے عوض مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا سودا کر لیا۔ ’انھو ں نے ایوب خان سے پیسے لے کر مادر ملت کی انتخابی مہم کو اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹھنڈا کر دیا اور 2 جنوری 1965کو انھیں ووٹ بھی نہ ڈلوائے۔ نیپ کی قیادت کو فوراً مولانا بھاشانی کی غداری کا پتہ چلا۔ نیپ کے تین رہنما میاں محمود علی قصوری، خان عبدالولی خان اور ارباب سکندر تحقیقات کے لیے پہلے ڈھاکہ اور پھر مولانا کے گاؤں پنج بی بی پہنچ گئے اور طویل بحث کے بعد مولانا بھاشانی نے تسلیم کیا کہ انھوں نے چو این لائی کی درخواست پر ایوب خان کی مدد کی۔‘

فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ ’شیخ مجیب نے ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں مادر ملت کو جتوا دیا تھا لیکن باقی علاقوں میں بھاشانی نے مادر ملت کو ہروا دیا۔ مادر ملت مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کر لیتیں اور الیکشن جیت جاتیں تو شاید پاکستان نہ ٹوٹتا۔ ایوب خان نے الیکشن جیت کر پاکستان کو ہروا دیا۔‘

ایوب خان نے آسانی سے جیت حاصل کی۔ ایوب خان نے اپنی جیت کی خبر سنی تو کہا ’خدا کا شکر ہے! ملک بچ گیا۔‘

فاطمہ جناح نے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتخابات دھاندلی شدہ تھے۔‘

ازہر منیر اپنی کتاب ’مادرِملت کا جمہوری سفر‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ انتخابی ادارے کے اراکین ( بی ڈی ممبرز) کو دھونس اور لالچ کے ذریعے عوام کی رائے کے مطابق ووٹ دینے سے روک دیا گیا۔ اس کے باوجود تیس ہزار اراکین نے فاطمہ جنا ح کو ووٹ دیے۔ جمہوریت ہار گئی اور آمریت جیت گئی۔‘

حبیب جالب نے اپنے ایک شعر میں اس کا یوں احاطہ کیا:

دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا

ظلم پھر مکروفن سے جیت گیا

نوابزادہ نصراللہ لکھتے ہیں کہ ’اگر مغربی پاکستان میں سرکاری مشینریکھلی دھاندلی نہ کرتی اور مشرقی پاکستان میں بی ڈی ارکان کو وسیع پیمانے پر خریدا نہ جاتا تو اس طریق انتخاب میں بھی شکست ایوب خان کا مقدرتھی۔ اور اگر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست انتخاب ہوتا تو ایوب خان کی ضمانت ضبط ہو جاتی۔‘

وکیل انجمکے مطابق جو لوگ ایوب خان کے ہاتھ مضبوط کرنے والے تھے بعدازاں وہ ’جمہوریت کے چیمپیئن‘ کہلائے اور انھوں نے ایوب خان کو تاحیات صدر بنانے کی درخواست بھی کی گئی۔ کسی نے ایوب کو ایشیا کا ڈیگال، کسی نے شیرشاہ سوری، کسی نے محمد بن قاسم اور کسی نے صلاح الدین ایوبی قرار دیا۔

’ایوب خان نے فاطمہ جناح اور اُن کے ساتھیوں کو نظریہ پاکستان کا دشمن قرار دیا اور کہا کہ ان کی کامیابی سے ملک میں کہرام مچ جائے گا۔‘

وکیل انجم نے لکھا ہے کہ ’ذوالفقار علی بھٹو اور سندھ کے اہم روحانی گدی کے سربراہ مخدوم سید زماں طالب المولیٰ نے بھی کُھل کر ایوب خان کی حمایت میں مہم چلائی۔ سندھ کے تالپور گھرانے کے علی احمد تالپور، رسول بخش تالپور کُھل کر مادر ملت کے ساتھ کھڑے رہے۔ پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، پیر آف رانی پور، غلام نبی میمن وغیرہ نے بھیایوب کا ساتھ دیا۔‘

’بلوچستان کے بیشتر سردار ایوب خان کے ساتھ تھے اور وہاں سے مادر ملت کو بہت کم ووٹ ملے۔ میر جعفر خان جمالی نے البتہ نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ میں بھی مادر ملت کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔‘

’جنوبی پنجاب میں ملتان ڈویژن میں قریشی، گیلانی، کھگے، بوسن، کانجو، خاکوانی، ڈاہا، بودلے، کھچی، گردیزی سب ہی ایوب خان کے ساتھ تھے، تاہم میر بلخ شیر مزاری، پیر ظہور حسین قریشی اور رمضان دریشک نے مادر ملت کا ساتھ دیا۔ بہاولپورڈویژن میں مادر ملت کے حامیوں کی اکثریت جیتی، مگر مخدوم زادہ حسن محمود اور دیگر طاقتور شخصیات کی کوشش سے ایوب خان نے کامیابی حاصل کی ۔ایوب خان کی کامیابی میں نواب کالاباغ کی چالبازیوں اور جوڑتوڑ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔راول پنڈی میں راجا ظفر الحق نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔‘

’لاہور میں میاں معراج دین، میاں شریف اور دیگر اہم کاروباری وسیاسی شخصیات ایوب خان کی حمایت میں سرگرم رہیں۔ 14 سال بعد بھٹو صاحب کے کیس میں استغاثہ کے وکیل بننے والے اعجاز بٹالوی آخری لمحے تک مادر ملت کے حق میں ڈٹے رہے۔

’گجرات کے چودھری ظہور الٰہی تو ایوب خان کے دست راست تھے۔ سرگودھا میں ٹوانے، پراچے، نون، لک، میکن اور دیگر اہم الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ تھے۔ گوجرانوالہ میں غلام دستیگر خان ایوب خان کے زبردست حامی تھے اور ان کے حوالے سے ایک ناشائستہ واقعہ بھی رپورٹ کیا جاتا ہے۔ چودھری انور بھنڈر اور رفیق تارڑ نے مادر ملت کی کُھل کر مخالفت کی، رفیق تارڑ بعد میں جج اور صدر پاکستان بنے۔ چودھری اعتزاز احسن کے والد چودھری احسن علیگ نے البتہ مادر ملت کی بھرپور حمایت کی۔ شیخوپورہ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر اہم شہروں کے الیکٹ ایبلز ایوب خان کے ساتھ تھے۔سرحد میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ کئی بڑے علما جیسے صاحبزادہ فیض الحسن، علامہ احمد سعید کاظمینے مادر ملت کے خلاف فتوے بھی صادر کیے۔‘

’مولانا عبدالستار نیازی البتہ مادر ملت کے سپاہی تھے۔ کراچی میں مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی دباؤ کے باوجود ایوب خان کے حق میں بیان نہیں دیا۔ منیر نیازی، حبیب جالب، احمد مشتاق، سید قاسم محمود، محمود شام اور دیگر ادیب بھی مادر ملت کے حق میں لکھتے رہے۔ حبیب جالب کی نظموں نے تو ملک میں تہلکہ مچا دیا۔‘

مصطفیٰ ملک نےاپنے ایک تحقیقی مضمون ’کون کہاں کھڑا تھا‘ میںتفصیل سے بتایا ہے کہ کون سے سیاستدان، مذہبی رہنما اور شاعر کس جانب تھے۔

اُن کے مطابق گورنر امیر محمد خان صرف چند لوگوں سے پریشان تھے، اُن میں سرفہرست سید ابوالاعلیٰ مودودی، ‏شوکت حیات، خواجہ صفدر، چودھری احسن، خواجہ رفیق والد سعدرفیق، کرنل عابد امام والد عابدہ حسین اور علی احمد تالپور شامل تھے یہ لوگ آخری وقت تک فاطمہ جناح کےساتھ رہے۔

’خطۂ پوٹھوہار کے تمام بڑے گھرانے اور سیاسی لوگ ایوب خان کے ساتھ تھے، ‏بریگیڈیئر سلطان اور ملک اکرم ایوب خان کے ساتھ تھے، سوائے چودھری امیر اور ملک نواب خان کے جن کو الیکشن کے دو دن بعد قتل کر دیا گیا۔‘

’فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کا الزام بھی لگا۔ یہ الزام صحافی زیڈ اے سلہری نے ‏اپنی ایک رپورٹ میں لگایا جس میں مس جناح کی بھارتی سفیر سے ملاقات کا حوالہ ديا گیا تھا۔ یہ اخبار ہر جلسے میں لہرایا گیا۔ ایوب اس کو لہرا لہرا کر مس جناح کو غدار کہتے رہے۔‘

’پاکستان کا مطلب کیا ‏لاالہ الا اللہ جیسی نظم لکھنے والے اصغر سودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھتے تھے۔ شاعر ظفر اقبال اور سرور انبالوی اور دیگر کئی شعرا اسی کام میں مصروف تھے۔ دوسری طرف حبیب جالب، ‏ابراہیم جلیساور میاں بشیر فاطمہ جناح کے جلسوں کے شاعر تھے۔ میانوالی جلسے کے دوران میں فائرنگ کی گئی تو فاطمہ جناح ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں۔‘

’ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایوب خان اور مس فاطمہ کے ووٹ برابر تھے۔ مس جناح کےایجنٹ ایم حمزہ تھے۔ جہلم کے چودھری الطاف فاطمہ جناح کےحمایتی تھے مگر نواب کالا باغ کے دھمکانےکے بعد پیچھے ہٹ گئے یہاں تک کہ جہلم کے نتیجے پر دستخط کے لیے ‏مس جناح کے پولنگ ایجنٹ گجرات سے آئے۔‘

ازہر منیر کے مطابق انتخابی ادارے کے کراچی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے مس جناح کو واضح اکثریت میں ووٹ دیے تھے۔

سابق آئی جی حافظ صباح الدین جامی نے اپنی کتاب ’پولیس، کرائم اینڈ پالیٹکس‘ میں فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن میں کراچی پولیس کی کھلم کھلا مداخلت کا احوال لکھا ہے۔ جامی نے لکھا ہے کہ کس طرح ایک حکومتی وزیر عبدالغفار پاشا کھلم کھلا ایوب خان کے لیے ووٹ خریدتے پھرتے تھے۔

اس کے باوجود کراچی سے فاطمہ جناح کو 1046 اور ایوب کو 837 ووٹ ملے۔ ڈھاکہ سے فاطمہ جناح کو 353 اور ایوب کو 199 ووٹ ملے۔

نقوی کے مطابق ’مگر کوئی جادوئی چھڑی چلی کہ ایوب خان 67 فیصد ووٹ لے کے جیت گئے۔ کراچی والوں کو فاطمہ جناح اور جمہوریت کا ہراول دستہ ہونے کی سزا دی گئی۔‘

15 جنوری 1965کی اشاعت میں ٹائم نے لکھا کہ ’پچھلے ہفتے کراچی میں ایک طویل موٹر قافلہ صدر محمد ایوب خان کے انتخاب کی خوشی میں گلیوں سے گزرا۔ پیچھے، ایوب کے اپنے سرحدی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مضبوط اور پگڑی پہنے لوگ تھے، جو لاٹھیاں لہرا رہے تھے اور خوشی سے دیسی پستولوں سے فائر کر رہے تھے۔‘

’جب یہ طویل قافلہ لیاقت آباد کے علاقے سے گزرا جو زیادہ تر انڈیا سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر مشتمل تھا اور جنھوں نے فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی تھی، تو کشیدگی بڑھ گئی۔ لوگ ٹرکوں سے اتر کر راہگیروں پر حملہ آور ہو گئے، دکانوں کو لوٹ لیا اور گھروں کو آگ لگا دی۔ جب تک یہ ہنگامہ ختم ہوا، 33 لوگ ہلاک، 300 زخمی، اور 2,000 سے زائد بے گھر ہو چکے تھے۔‘

فیض احمد فیض نے اس پر لکھا:

نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا

یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا

اپنے حامیوں کے قتل عام پر فاطمہ جناحنے تلخی سے کہا کہ ’مہذب دنیا میں کہیں بھی ایسے وحشیانہ اعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

ٹائم نے لکھا کہ یہ 1958 میں ایوب خانکے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی پہلی کوشش کے لیے افسوسناک آغاز تھا۔

جب فاطمہ جناح نے مزارِ قائد کی تعمیر کے لیے مقابلے میں اول آنے والا ڈیزائن مسترد کیاوہ روّیہ جو فاطمہ جناح سے مریم نواز تک نہیں بدلافاطمہ جناح، جنھیں ہرانے کے لیے ’لبرل‘ ایوب خان نے فتوے جاری کروائےمحمد علی جناح: معاملہ ایک روپیہ تنخواہ اور دو بار نمازِ جنارہ کامحمد علی جناح کی زندگی کے آخری 60 دن: بانیِ پاکستان کو زیارت منتقل ہونے کا مشورہ کس نے دیا؟سمیعہ ممتاز: ’کوشش ہے فاطمہ جناح کی زندگی کی وہ باتیں بتائیں جو لوگوں کو نہیں پتا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More