یہ کہانی کراچی اور لاہور کے درمیان سفر کرنے والے دو سگے بھائیوں کے ڈکیت گینگ کی ہے جو بالآخر گرفتار کرلیے گئے ہیں۔دونوں بھائی محمد شہباز اور طیب ویک اینڈ پر کراچی سے لاہور آکر گھروں میں وارداتیں کرتے تھے۔
پولیس نے اِن کے قبضے سے غیر ملکی کرنسی کے علاوہ لاکھوں روپے مالیت کا چوری شدہ سامان بھی برآمد کیا گیا ہے۔لاہور کی رہائشی ڈاکٹر سامیہ نے پولیس کو اطلاع دی کہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب اُن کے گھر چوری ہوئی اور نامعلوم ملزم لاکھوں روپے مالیت کا سامان اور غیر ملکی کرنسی سمیت دیگر قیمتی اشیا چوری کرکے لے گئے۔پولیس نے مدعیہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرتے ہوئے تفتیش کا آغاز کر دیا۔ پولیس ابھی اس معاملے کی تفتیش کر ہی رہی تھی کہ لاہور کے ایک اور پوش علاقے سے اطلاع موصول ہوئی کہ ملزموں نے محمد نوید نامی شہری کے گھر چوری کی ہے۔اس واقعے کے بعد پولیس جائے واردات پر پہنچی اور ابتدائی بیانات قلم بند کرنے کے بعد تفتیش کا دائرہ کار وسیع کر دیا۔پولیس کے انویسٹی گیشن سیل کے اہلکاروں نے شہر میں ہونے والی ان دو وارداتوں کے ساتھ چوری کی مزید وارداتوں کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں کوئی ایک ہی گروہ ملوث ہے جو ایک مخصوص انداز میں کارروائیاں سرانجام دے رہا ہے۔پولیس کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والی ان وارداتوں میں یہ دیکھا گیا ہےکہ ملزم اپنی کارروائیاں ہفتے کے آخری ایام میں کرتے آرہے تھے۔ پولیس نے وارداتوں کا ہر زاویے سے جائزہ لیا اور بالآخر ملزموں تک پہنچ گئی۔طریقۂ وارداتشہباز اور طیب کا طریقۂ واردات بالکل منفرد تھا۔ وہ ہر ہفتے جمعے، سنیچر اور اتوار کو کراچی سے لاہور آتے اور شہر کے پوش علاقوں میں گھروں کی ریکی کرتے اور وہاں چوری کر کے واپس کراچی روانہ ہو جاتے۔
ملزموں نے پولیس کو بتایا کہ ’وہ پہلے دن علاقے کی ریکی کرتے، پھر گھر کا تعین کرکے واردات کرتے تھے۔ وہ ایک ہفتے میں ایک مقام پر چوری کرتے جب کہ دو دن اگلے شکار کی ریکی کرتے تھے۔‘
پولیس نے ملزمان کے قبضے سے ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کا چوری شدہ سامان برآمد کیا (فوٹو: سکرین گریب)
ان کی وارداتوں کا یہ طریقۂ کار پولیس کے لیے ایک معمہ بن چکا تھا،کیوں کہ وہ اتنے کم وقت میں وارداتیں کر کے سامان چُرا لیتے تھے کہ پولیس کے لیے اُن کا سراغ لگانا مشکل ہو گیا تھا۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور کی جانب سے اس معاملے کی تفتیش کے احکامات دیے گئے۔پولیس نے گذشتہ چند ماہ میں ہونے والی چوری کی وارداتوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔خفیہ کیمروں، ہیومن انٹیلی جنس نظام اور جدید ٹیکنالوجی کے تحت پولیس کو ملزموں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔ویک اینڈ پر کارروائی سے پولیس کے جال میں پھنسے ملزمانپولیس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ دونوں بھائی صرف ویک اینڈ پر لاہور آکر واردات کرتے تھے، اور ان کا مقصد صرف ہفتے کے آخری تین دنوں میں ہی چوری کرنا ہوتا تھا۔‘اس گینگ کا سراغ لگانے کے لیے پولیس نے بھرپور تفتیش کی، اور آخرکار وہ وقت آگیا جب ان دونوں بھائیوں کو کراچی سے حراست میں لے لیا گیا۔پولیس نے ان کے قبضے سے ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کا چوری شدہ سامان برآمد کیا، جن میں قیمتی جیولری، کینیڈین ڈالرز اور دیگر قیمتی اشیا شامل تھیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ ’ان دونوں بھائیوں سے برآمد کیا گیا سامان مختلف علاقوں سے چوری کیا گیا تھا، اور تمام برآمد شدہ سامان اصل مالکان کو واپس کیا جا رہا ہے۔‘
پولیس کے مطابق ’یہ دونوں ملزمان 130 مختلف مقدمات میں ریکارڈ یافتہ اور چار مقدمات میں اشتہاری تھے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پولیس نے اس کارروائی کے بعد یہ بھی بتایا کہ ’ملزموں کی گرفتاری ایک بڑی کامیابی ہے کیوں کہ یہ دونوں ملزم 130 مختلف مقدمات میں ریکارڈ یافتہ تھے، اور ان میں سے چار مقدمات میں وہ اشتہاری تھے۔‘محمد شہباز اور طیب کی گرفتاری کے دوران پولیس نے ان کے ماضی کے حوالے سے بھی تفتیش کی۔یہ دونوں بھائی ایک عرصے سے لاہور کے مختلف علاقوں میں چوری کی وارداتیں کرتے رہے تھے، اور ان کے خلاف متعدد مقدمات درج تھے۔ ملزموں کے ماضی کے ریکارڈ کے مطابق وہ متعدد بار جیل جا چکے تھے اور ان کی مجرمانہ سرگرمیاں کسی بھی صورت نہیں رُکیں۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ ’ان ملزموں کی گرفتاری پولیس کی مسلسل محنت کا نتیجہ ہے، اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ یہ ملزم اب قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔‘لاہور پولیس کی جانب سے اس کامیاب کارروائی کو ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ مستقبل میں اس طرح کی وارداتوں کے تدارک کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے۔پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر چھوٹی سی چوری اور واردات کے پیچھے ایک بڑی کہانی ہوتی ہے، اور ہم اس کہانی کا سراغ لگانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔‘