حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات ختم، وجہ اعتماد سازی کا فقدان یا عمران خان؟ 

اردو نیوز  |  Jan 24, 2025

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ختم ہونے کے معاملے پر تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو لچک دکھاتے ہوئے کمیشن کے حوالے سے ردعمل دینا چاہیے تھا۔ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل کے چوتھے دور کے کے لیے اجلاس بلانے سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ 

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے جمعرات کو اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آج بانی پی ٹی آئی عمران خان سے میری اور دیگر وکلاء کی ملاقات ہوئی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’عمران خان نے پہلے بھی حکومت کو سات دن کا وقت دیا تھا، بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جمعرات کو اگر حکومت نے کمیشن کا اعلان نہ کیا تو ہمارے مذاکرات ختم ہیں۔‘تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات ختم کیے جانے کے اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور رہنما مسلم لیگ (ن) عرفان صدیقی نے کہا کہ ’اپوزیشن نے اپنے تحریری مطالبات دینے میں 42 روز لگائے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن نے ہم سے سات روز میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، پانچ روز مزید انتظار نہ کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔‘’عمران خان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے باوجود ہم نے مذاکرات جاری رکھے، ہماری کمیٹی آج بھی قائم ہے، مذاکرات ختم کرنے کا اعلان افسوس ناک ہے۔‘حکومتی کمیٹی کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے خیال میں سات ورکنگ دن 28 جنوری کو مکمل ہو رہے ہیں، اس ڈیڈلائن سے پہلے ہم کام مکمل کر لیں گے، ہم 28 جنوری کی تاریخ سپیکر کو دے چکے ہیں۔‘سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’عجیب بات ہے کہ وہ پانچ دن کیوں انتظار نہیں کر سکتے، آج پی ٹی آئی والے غیر رسمی طور پر بھی بیٹھ سکتے تھے، ہم نے کب کہا ہے کہ کمیشن نہیں بن رہا، ہم کمیشن کے حوالے سے ہی غور کر رہے ہیں۔‘ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں مذاکرات کا واحد اصول یہ ہے کہ اس کے لیے اعتماد سازی کی جاتی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور سے لے کر اب تک حکومت کی جانب سے ایک بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جسے اعتماد سازی کا نام دیا جائے۔‘

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اب تک مذاکرات کے تین راؤنڈز ہو چکے ہیں (فائل فوٹو: سپیکر آفس)

حسن عسکری نے مزید کہا کہ ’تاحال تحریک انصاف کے بنیادی مطالبے یعنی جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے کوئی مثبت ردِعمل نظر نہیں آرہا۔‘’ایک وقت میں تو یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ حکومت نے تحریک انصاف کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے اور وہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنا رہی۔ اس سے بھی کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔‘انہوں نے کہا کہ ’جب مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں حکومت کا تو کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن یہ پاکستان کے عوام کا نقصان ہے جن کے مسائل کی جانب نہ حکومت کوئی توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو ان سے کوئی سروکار نظر آرہا ہے۔‘’عوام کے بعد اگر کسی کو ان مذاکرات کی ناکامی کا نقصان ہوگا تو وہ تحریک انصاف ہوگی کہ ان کے مقدمات چلتے رہیں گے، ضمانتیں نہیں ہوں گی اور مشکلات بڑھتی رہیں گی۔‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’مذاکرات ختم کرنے اور عمران خان اور ان کی اہلیہ کی سزا کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ تحریک انصاف یہ اعلان کر چکی تھی کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو سزا ہوتی ہے تو بھی مذاکراتی عمل جاری رہے گا۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا موجودہ صورت حال میں مذاکرات کی بحالی کا کوئی امکان موجود ہے تو انہوں نے کہا کہ ’جب تک اعتماد سازی کے اقدامات نہیں ہوتے تب تک نظر نہیں آتا کہ مذاکرات بحال ہوں گے اور حکومت اور اپوزیشن ایک میز پر آئیں گے۔‘

پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر رکھا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’مذاکرات کے خاتمے کی واحد وجہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی سیاسی قوتوں سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ پسِ پردہ قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات چاہتے تھے۔‘’اُن کی جماعت کی موجودہ قیادت تو حکومت کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے اور وہ بات چیت کو کامیاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن عمران خان خود اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے بات چیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘سینیئر تجزیہ کار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ’حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے امکانات موجود ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’میری ذاتی رائے میں بات چیت فریقین کے لیے ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی۔‘سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ’حکومت اس وقت مشکل صورت حال سے تو چار تھی کیونکہ وہ تحریک انصاف کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنانا چاہتی تھی اور وہ مذاکرات سے نکلنا چاہتی تھی لیکن ظاہر ہے ان کے پاس بات چیت سے نکلنے کا راستہ نہیں تھا۔‘سلمان غنی کے مطابق ’عمران خان نے ان مذاکرات سے نکل کر حکومت کی مشکل آسان کر دی ہے۔ اس لیے بظاہر اس عمل کا نقصان پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوا ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ’حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کا امکان موجود ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کا مذاکراتی عمل بحال ہو جائے کیونکہ پی ٹی آئی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی مذاکرات کو آگے بڑھاتی ہے تب بھی اس سارے عمل کو چھتری حکومت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ہی ملے گی۔‘اجمل جامی کے مطابق ’مذاکرات ختم ہونے کی وجہ عمران خان کے ساتھ جو پس پردہ معاملات چل رہے تھے اس میں ایک دوسرے سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔‘’اس لیے بظاہر جو مذاکرات جاری تھے ان کی افادیت ختم ہو گئی اور اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے بات چیت کو ختم کردیا۔‘سلمان غنی کہتے ہٰیں کہ ’اس لیے یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ 28 تاریخ کو مذاکرات کا اگلا دور منعقد ہو اور تحریک انصاف مذاکرات میں واپس آجائے۔‘پارلیمانی امور کے ماہر اور سابق سیکریٹری سینیٹ افتخار اللہ بابر نے کہا کہ ’بظاہر تو مذاکرات اسی وجہ سے ختم ہوئے ہیں کہ حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے ابھی تک کوئی عندیہ نہیں دیا۔ پہلے تو تحریک انصاف کو 28 تاریخ تک انتظار کر لینا چاہیے تھا کہ جب حکومت انہیں انتظار کرنے کا کہہ رہی تھی تو مزید پانچ روز انتظار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔‘انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت کو کئی معاملات میں لچک دکھانا ہوتی ہے اس لیے اگر تحریک انصاف انتظار نہیں کر رہی تھی تو ایسی صورت میں حکومت کو ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اپنا جواب دے دینا چاہیے تھا۔ افتخار اللہ بابر کا کہنا تھا کہ جب مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا اور ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اس کا نقصان پاکستان اور پاکستان کے عوام کو ہوگا۔ 

عرفان صدیقی نے کہا کہ ’عجیب بات ہے کہ پی ٹی آئی والے پانچ دن کیوں انتظار نہیں کر سکتے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اجمل جامی کے مطابق ’حکومت ہو یا پی ٹی آئی، وہ مذاکرات کی میز پر طاقتور اور مضبوط فریق کے طور پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔‘’لہٰذا عمران خان ان مذاکرات کو ختم کر کے اپنی مضبوطی کا تاثر دے رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، بہرحال ان مذاکرات کا ختم ہونا ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔‘  خیال رہے کہ 16 جنوری کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور منعقد ہوا تھا جس میں تحریک انصاف کی جانب سے تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ تحریری شکل میں پیش کیا جس میں اس نے دو الگ الگ انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا، پی ٹی آئی نے اپنے مطالبے میں حکومت کو ٹائم فریم بھی دیا۔مطالبات کے متن میں کہا گیا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن پر سات روز میں فیصلہ کرے۔ چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق پی ٹی آئی وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا کے معطل کرنے کے احکامات کی حمایت کریں۔اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی ان تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا معطل کرنے کے احکامات کے لیے وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے جنہیں 9 مئی 2023 کے کسی بھی واقعے، 24 سے 27 نومبر 2024 کے کسی واقعے، یا کسی اور سیاسی سرگرمی کے سلسلے میں درج کی گئی ایک یا ایک سے زائد ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کیا گیا ہو، یا جنہیں سزا دی گئی ہو، جن کی اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں اس وقت کسی عدالت میں زیر سماعت ہوں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More