بڑے منھ والی پُراسرار مچھلی جو 100 سال تک جوان رہ سکتی ہے

بی بی سی اردو  |  Jan 25, 2025

حالیہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بِگ ماؤتھ یعنی بڑے منھ والی بفلو فش کی عمر حیران کن طور پر طویل ہوتی ہے اور یہ مچھلیاں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید صحت مند ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ ان کی آبادی کم ہو رہی ہے۔

اگر آپ مئی کے مہینے میں منیسوٹا کی رائس لیک کے کنارے پر بیٹھے ہوں تو آپ وہاں موجود جنگلی چاول کے پودوں کے درمیان بمشکل چند فٹ گہرے پانی میں ان بڑی مچھلیوں یعنی بفلو فش کے جھنڈ دیکھ سکتا ہیں۔

یہ جھنڈ بِگ ماؤتھ بفلو فش کے ہیں اور یہ دنیا کی سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے والی میٹھے پانی کی مچھلیاں ہیں۔ کُچھ تو 100 سال سے زیادہ عرصے تک بھی زندہ رہتی ہیں۔

ہر سال یہ بڑی مچھلیاں جن کا وزن 50 پاؤنڈ یعنی 23 کلو گرام سے زیادہ ہو سکتا ہے افزائش نسل کے لیے دریائے رائس کی راہ اختیار کرتے ہوئے رائس لیک تک پہنچتی ہیں۔ تاہم افزائش نسل کے اس مرحلے میں گزشتہ کُچھ عرصہ کے دوران کمی واقع ہوئی ہے۔ سائنس دانوں کی جانب سے اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اُن کے مطابق چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے یہاں کی نوجوان مچھلیوں کی کوئی نئی نسل بلوغت تک نہیں پہنچ سکی ہے۔

بگ ماؤتھ بفلو فش کئی دہائیوں تک سائنسدانوں کی نظروں سے اوجھل رہیں ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کا کوئی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں سائنس دانوں کو یہ پتہ چلا ہے یہ بڑی عمر اور بڑے حجم والی یہ مچھلیاں دوسری مچھلیوں سے کتنی منفرد ہیں اور انھیں کس حد تک خطرات کا سامنا ہے۔

بگ ماؤتھ یا بڑے منہ والی اس بفلو فش کا اصلی گھر تو شمالی امریکہ ہی ہے مگر یہ کینیڈا میں جنوبی ساسکیچیوان اور مینی ٹوبا سے لے کر امریکہ میں لوزیانا اور ٹیکساس تک پائی جاتی ہیں۔ تاہم زیادہ عام نا ہونے کی وجہ سے نہ تو انھیں بڑے پیمانے پر پکڑا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی فروخت سے کوئی بڑا معاشی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

بِگ ماؤتھ بفلو فش کی سائنس دانوں کی نظروں سے اوجھل رہنے کی بھی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ تاہم اب گذشتہ پانچ سالوں میں محققین اور سائنس دانوں نے ان کے بارے میں بہت سی نئی اور حیرت انگیز دریافتیں کی ہیں۔

ان اہم دریافتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان میں کُچھ کی عمریں 127 سال تک بھی ہو سکتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ بفلو فش دنیا کی سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے والی میٹھے پانی کی مچھلی بن گئی ہیں۔ ان میں عمر کے ساتھ طبعی طور پر بھی کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ حال ہی میں محققین کا ان مچھلیوں کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں ان کی آبادی میں ہونے والی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ در حقیقت اس دور میں پائی جانے والی یہ مچلھیاں بوڑھی ہو چُکی ہیں۔ تاہم اس عمر میں یہ مچھلیاں جن مچھلیوں کو جنم دے رہی ہیں ان میں افزائشِ نسل کی صلاحیت کم ہے۔

اب تک کی تحقیق سے جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ہم بگ ماؤتھ بفلو فش کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اور ان سے متعلق کتنے ہی سوال ہیں جو حل طلب ہیں۔

یونیورسٹی آف مینیسوٹا، ڈولوتھ میں مچھلیوں کے ایک محقق اور بگ ماؤتھ بفلو فش پر تحقیق کرنے والے ماہرین میں سے ایک ایلک لیکمین کہتے ہیں 'یہ دنیا میں جانوروں کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے اور اس کی نسل کا اب تک کوئی مناسب انتظام یا تحفظ نہیں کیا گیا ہے۔'                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    

لیکمین نے 2019 کے ایک مقالے میں شائع ہونے والی تحقیق کی قیادت کی جس نے پہلی بار مینیسوٹا میں بگ ماؤتھ بفلو فش کی عمر کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ اس کی عمر 100 سل سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے اس مچھلی کہے بارے میں یہ خیال تھا کہ یہ صرف 26 سال کی عمر تک زندہ رہتی ہے۔ بعد ازاں انھوں نے شمالی امریکہ کے دیگر حصوں میں بفلو فش کی دیگر اقسام میں بڑی تعداد میں 100 سال سے زیادہ عمر والی مچھلیوں کی موجودگی کی تصدیق کی۔

ان مچھلیوں میں لیکمین کی دلچسپی ان کی گزشتہ تحقیق سے ہٹ کر ہے جس میں الاسکا آرکٹک میں نہ کاٹنے والے مچھروں مکھیوں کا مطالعہ شامل تھا۔ اپنے تجسس کی وجہ سے انھوں نے فش زولوجی کے کورسز کیے اور مچھلی کی زیادہ تر اقسام کے کانوں میں پائے جانے والے پتھر جیسے ڈھانچے اوٹولتھ کا استعمال کرتے ہوئے مچھلی کی عمر کا تعین کرنے کا طریقہ سیکھا۔ اوٹولتھ وقت کے ساتھ ساتھ درخت چھال میں بنے والی تہوں کی طرح بڑھتے ہیں۔ انھیں باریک ٹکڑوں میں تقسیم کرکے سائنسدان ان تہوں کی گنتی اور تجزیہ کرسکتے ہیں اور مچھلی کی عمر کا درست جائزہ لے سکتے ہیں۔

جب لیکمین کا تجسس انھیں دوبارہ مینیسوٹا لے آیا تو انھوں نے علاقے میں آس پاس کی مقامی نسلوں کے اوٹولتھس کا تجزیہ کرنا شروع کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'میں نے جس پہلی بفلو فش کی عمر کا اندازہ لگایا وہ تقریباً 90 سال تھی۔' وہ مزید کہتے ہیں کہ 'جو میرے سامنے آیا پہلے پہل تو اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔'

اس دریافت نے لیکمین کو اس عجیب و غریب لیکن کم معروف مچھلی کے بارے میں مزید سوالات کے جواب جانے پر مجبور کیا۔ چند سال بعد انھوں نے طبعی عمر سے متعلق تحقیق کرنے والے ماہرین کے ساتھ مل کر مختلف عمر کی بفلو فش میں تناؤ اور عمر بڑھنے کے مختلف مراحل کا جائزہ لیا۔

تحقیق کے شریک مصنف اور نارتھ ڈکوٹا سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات بریٹ ہیڈنگر کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں صرف ایک وقت میں ہر مچھلی کی صحت کا ایک سنیپ شاٹ فراہم کیا گیا۔ لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ 'ہم واقعی ان جانداروں میں عمر کے ساتھ کمی نہیں دیکھ رہے۔'

مچھلی میں بڑھتی عمر کا تعلق ٹیلومیر کی کمی (عمر بڑھنے کی حیاتیاتی علامت) سے نہیں تھاجیسا کہ عام طور پر توقع کی جاتی ہے۔ اس کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ یہ بہتر مدافعتی کارکردگی سے منسلک ہے ایک ایسی تبدیلی جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مچھلیاں جسمانی تناؤ سے نمٹنے میں بہتر ہوجاتی ہیں اور ان کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ماہر حیاتیات بریٹ ہیڈنگر کہتی ہیں کہ 'ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہے کہ یہ مچھلیاں بڑھاپے میں صحت مند رہنے کا انتظام کیسے کرتی ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ ایک انزائم کے ذریعے اپنے ٹیلومیرز کو برقرار رکھیں جو انھیں وقت کے سات ساتھ بڑھتی عمر میں جسمانی تور پر کمزور ہونے سے روکتا ہے۔ بدقسمتی سے ٹیلومیرز ہمیں یہ نہیں بتا سکتے کہ بگ ماؤتھ فش کی زیادہ سے زیادہ عمر کیا ہوسکتی ہے یا اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ عمر کے ساتھ بہتر ہونے کا رجحان جاری رہے گا۔ ہیڈنگر کا کہنا ہے کہ 'عمر بڑھنا ایک غیر معمولی عمل ہے۔'                                                                                           

لیکن اس حالیہ تحقیق میں ایک اور پہیلی سامنے آ رہی ہے۔ چونکہ نمونے لینے والی مچھلیوں کا اتنا بڑا حصہ غیر معمولی طور پر پرانا تھا لہذا اس نے ایک اور سوال اٹھایا اور وہ یہ کہ تمام چھوٹی مچھلیاں کہاں ہیں؟

لیکمین اور ان کے ساتھیوں نے منیسوٹا کی رائس لیک میں مچھلیوں کی عمر کا نمونہ لینے کا فیصلہ کیا جبکہ سالانہ افزائش نسل کے طرز عمل کا بھی مشاہدہ کیا۔ ایک حالیہ مقالے میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے جن 390 مچھلیوں کے نمونے لیے تھے ان میں سے 389 یعنی 99 اعشاریہ سات فیصد کی عمریں 50 سال سے تھیں۔ ان میں سے اوسط عمر 79 سال تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مقام پر یا مچلھیوں کی اس آبادی میں زیادہ تر مچھلیاں دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے پہلے پیدا ہوئی تھیں۔

لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ ہر سال مئی کے آس پاس بفلو فش کی کامیابی کے ساتھ افزائش کے باوجود بہت سی نئی نوجوان مچھلیاں پیدا ہوتی ہیں مگر موسم گرما کے آخر تک یہ سب کی سب غائب ہو جاتی ہیں۔ لیکمین کہتے ہیں کہ درحقیقت 60 سال سے زیادہ عرصے سے وہاں نوجوان مچھلیوں کی ایک کامیاب نسل ہی پیدا نہیں ہوئی۔

محققین کا خیال ہے کہ زندہ رہنے کی اس مایوس کن شرح کی وجہ ممکنہ طور پر ایک اور مچھلی ہے جسے 'پائیک فش' کہا جاتا ہے۔ لیکمین کا کہنا ہے کہ رائس لیک میں بفلو فش کے بچے دینے سے پہلے وہاں پائیک فش کی موجودگی بفلو فش کی نئی نسل کی کمی کی وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ نوجوان پائیک مچھلیاں بفلو فش کے بچوں پر حملہ کر رہی ہوں۔ تاہم اس بارے میں یقینی طور پر کُچھ بھی کہنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

رائس لیک نیشنل وائلڈ لائف ریفیوجی کے اس مقالے کے شریک مصنف والٹ فورڈ کا کہنا ہے کہ 'میرے لیے یہ مرغی اور انڈے کے سوال کی طرح ہے۔' وہ کہتے ہیں کہ 'ایک طرف وہ ہمیشہ سے ایک طویل عرصے تک زندہ رہنے والی نسل ہو سکتی تھی اور اس لیے جوان پیدا کرنے کی ضرورت کبھی فوری طور پر محسوس ہی نہیں ہوئی تھی۔ دوسری طرف شاید اپنے بچوں میں بلوغت لانے میں دشواری نے ان نسلوں کو طویل عرصے تک زندہ رہنے پر مجبور کیا ہے۔'

اس وجہ سے قطع نظر، کوئی نہیں جانتا کہ ان مچھلیوں کی زیادہ سے زیادہ عمر کیا ہوسکتی ہے۔ رائس لیک کی آبادی الگ تھلگ نہیں ہے لہذا یہ ممکن ہے کہ یہ کہیں اور سے دوسری آبادیوں کے ساتھ مل جائے۔ زیادہ تر اگر سب نہیں تو اب تک مطالعہ کی جانے والی بڑی بفلو فش کی آبادی بہت پرانی مچھلیوں کی طرف اسی طرح جھکی ہوئی نظر آتی ہے اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ صورتحال وسیع پیمانے پر ہوسکتی ہے۔ موجودہ نسل کی عمر بڑھنے کے ساتھ، یہ آبادیاں کمزور ہو سکتی ہیں۔

ہیڈنگر کہتی ہیں کہ لیکمین کے نئے مقالے کے بارے میں یہ واقعی خوفناک بات ہے اور یہ احساس کہ بالغوں کی اموات 'اس آبادی کا صفایا کر سکتی ہے۔' لیکمین کہتے ہیں کہ 'فی الحال کوئی نہیں جانتا کہ بفلو فش کی تعداد کیا ہے یا کتنی الگ الگ آبادیاں موجود ہیں۔'

لیکمین کہتے ہیں کہ 'تحفظ اور آگاہی اہم ہیں۔ لوگ اکثر بفلو فش کو حملہ آور کارپ کی اقسام کے طور پر غلطی کریں گے اور سوچتے ہیں کہ وہ انھیں پکڑ کر ماحولیاتی نظام کی مدد کر رہے ہیں۔' وہ مزید کہتے ہیں کہ 'ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بڑی بفلو فش ماحولیاتی نظام کو اپنے ہونے سے بچانے میں مدد دے سکتی ہیں۔'

فورڈ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ مینیسوٹا جیسی ریاستیں جلد ہی اپنی ماہی گیری پر پابندی عائد کر دیں گی جبکہ سائنسدان مزید با خبر ہو سکیں گے اور اس نسل کی مدد کرنے کا طریقہ معلوم کر لیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہمیں اس پر اپنی تحقیق میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔'

جب تک بگ ماؤتھ بفلو فش کو وسیع پیمانے پر ایک اہم یا دلچسپ قسم نہیں سمجھا جاتا ہے اس تحقیق کو انجام دینا مشکل ہوگا۔ بگ ماؤتھ بفلو فش کو ماحولیاتی طور پر بھی اہم نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ماہرین کو بگ مائوتھ بفلو فش کی مدد کرنے کا طریقہ جاننے سے پہلے ابھی بہت کچھ سیکھنا اور جاننا باقی ہے۔ کینیڈا کے شہر کیوبیک سٹی میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنٹیفک ریسرچ میں مچھلیوں کے ماہر ماحولیات ایوا اینڈرز کہتی ہیں کہ 'بفلو فش کے بارے میں ابھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ 'ہمیں ان کی میٹابولک شرح کے بارے میں بہت کم سمجھ ہے یا وہ کس درجہ حرارت کی حد کو برداشت کرسکتے ہیں، یہ جاننے کے لئے تمام واقعی اہم باتیں ہیں کہ آیا آپ آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ انواع کی تقسیم کی پیشگوئی یا ماڈلنگ کرنا چاہتے ہیں۔'

خاص طور پر مینیسوٹا کی آبادی کے لیے لیکمین کہتے ہیں کہ ’سائنس دان یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں سے ہجرت کرتی ہیں اور نہ ہی وہ بچے پیدا کرنے سے پہلے اور بعد میں باقی سال کہاں گزارتی ہیں۔‘

لیکمین کا کہنا ہے کہ ’مچھلیوں کو بلوغت تک پہنچنے میں دشواری کیوں ہو رہی ہے اس کا ایک نظریہ یہ ہے کہ ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے خلل پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا وہ یہ پتہ لگا سکتے ہیں کہ رکاوٹ کیا ہے اور وقت پر اسے کیسے روکا جا سکتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔‘

اگر محققین تیزی سے کام نہیں کرتے تو ہم بفلو فش کے بارے میں مزید نہیں جان پائیں گے اور مچھلیوں کی یہ منفرد اور انوکھی قسم جلد ہی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ہمارے پاس کتنا وقت ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ وقت کم ہو رہا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More