BBC’جبل نورالقرآن‘ میں قرآن کے قدیم نسخے تبرکاً رکھے گئے تھے
’قرآن مجید کے جن قدیم نسخوں کو چوری کیا گیا ہے وہ جبل نور القرآن کی زینت تھے اور یہاں آنے والے زائرین کی سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنتے تھے۔‘
یہ کہنا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مذہب اسلام کی مقدس کتاب قرآن کے بوسیدہ اور ضعیف نسخوں اور اوراق کو بے حرمتی سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے معروف مرکز جبل نورالقرآن کے انتظامی کمیٹی کے حکام کا جو اپنے ادارے سے قرآن کے 120 قدیم نسخوں کی چوری پر غمگین ہیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے اس معروف مقام سے قرآن مجید کے یہ 120 قدیم نسخے 21 اور 22 جنوری کی درمیانی شب چوری ہو گئے ہیں۔
مقامی پولیس نے قرآن کے قدیم نسخوں کا مقدمہ درج کرکے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے جبل نور القرآن کی انتظامی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری حاجی عبدالرشید لہڑی نے بتایا کہ جبل نورالقرآن سے چوری کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ چند ہفتے قبل بھی بعض نامعلوم افراد چوکیدار کو تشدد کا نشانہ بنا کر قرآن کا ایک قدیم نسخہ زبردستی اٹھا کر لے گئے تھے۔
حاجی عبدالرشید لہڑی نے بتایا کہ قرآن کے جن نسخوں کو چوری کیا گیا ہے ان میں 500 سال سے زائد قدیم ہاتھ سے تحریر کیے جانے والے قدیم نسخے بھی شامل ہیں۔
سرنگ کے اندر ٹوٹے شو کیس اور بکھرے شیشے BBCایف آئی آر کے مطابق چور مجموعی طور پر 12شو کیس کو توڑ کر ان سے قرآن مجید کے نسخے لے گئے
جبل نورالقرآن کے اندر موجود سرنگوں میں قرآن کے قدیم نسخوں کو شو کیسوں میں رکھا گیا تھا اور سرنگوں کی دیواروں کے ساتھ نصب یہ شو کیس اور اُن پر لگے روشنی کے بلب اس جگہ کے ماحول کو خوبصورت بناتے تھے۔
ادارے کی انتظامی کمیٹی سے تعلق رکھنے والے بالاچ لہڑی نے بتایا کہ یہ قدیم نسخے غاروں کے اندر شو کیسوں میں تھے جن کے شیشوں کو توڑ کر اُن کو چوری کیا گیا ہے۔
چوری کے واقعے کے بعد یہاں کی جو ویڈیوز اور تصاویر گردش کررہی ہیں ان میں سرنگوں کے اندر شو کیس ٹوٹے ہوئے ہیں اور ان کے شیشے بکھرے دکھائی دے رہے ہیں۔
قرآن کے نسخوں کی چوری کا مقدمہ بروری پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟
بروری پولیس سٹیشن میں قرآن کے قدیم نسخوں کی چوری کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف جبل نورالقرآن کے انچارج محمد اجمل کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے ۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ نامعلوم چور 21 اور 22 جنوری کی درمیانی شب غار کے ساتھ ٹوٹی ہوئی دیوار سے داخل ہوئے اور انھوں نے وہاں شو کیسوں سے قرآن مجید کے نسخے چوری کر لیے۔
ایف آئی آر کے مطابق چور مجموعی طور پر 12 شو کیس توڑ کر اُن سے قرآن مجید کے نسخے لے گئے۔
بالاچ لہڑی نے بتایا کہ چور رات کو اس وقت جبل نورالقرآن میں داخل ہوئے تھے جب بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں لوڈ شیڈنگ کے دوران روشنی اور سی سی ٹی وی کیمروں کو چلانے کے لیے بیٹریز ہیں لیکن اگر بجلی زیادہ دیر تک نہ آئے تو بیٹریوں کا بیک اپ ختم ہونے کے بعد مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ بجلی کے دیر سے آنے کی وجہ سے چونکہ بیٹریز کا بیک اپ ختم ہوا تو اس کے باعث سی سی ٹی وی کیمرے بند ہو گَئے یا پھر چوروں نے اُن کا کنیکشن منقطع کیا۔
BBCجبل نورالقرآن کوئٹہ شہر کے مغرب میں بروری کے پہاڑ پر واقع ہےجبل نورالقرآن کی ’بین الاقوامی شہرت‘
حاجی عبدالرشید لہڑی نے بتایا کہ جب بروری کے پہاڑ میں سرنگیں کھود کر اُن میں قرآن کے بوسیدہ نسخوں اور اوراق کو رکھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو لوگوں نے نہ صرف کوئٹہ بلکہ پاکستان کے دوسرے شہروں سے یہاں سیاحت کی غرض سے آنے کا سلسلہ شروع کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ایک لحاظ سے یہ کوئٹہ شہر میں ایک نیا سیاحتی مقام بن گیا کیونکہ جو لوگ کوئٹہ سیر کرنے آتے تھے تو وہ جبل نورالقرآن کو دیکھنے کے لیے ضرور آتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ جب امریکی اور نیٹو کے ممالک نے 2000 کے اوائل میں حملہ کیا تو غیر ملکی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کوئٹہ آئی تھی جنھوں نے اپنے اپنے اداروں کے لیے جبل نورالقرآن کے بارے میں رپورٹ بنائیں جس سے اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔
’قرآنی آیات کو بے ادبی سے بچانے کا آغاز گلیوں سے کیا‘BBCقرآنی نسخوں ، قرآنی آیات اور احادیث کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے اس پہاڑ میں سرنگیں کھودنے کا آغاز 1992 میں کیا گیا تھا
جبل نورالقرآن کے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے لہڑی نے کہا کہ مقامی افراد نے ابتداً اُن قرآنی آیات کو بے حرمتی سے بچانے کا سلسلہ شروع کیا جو اخباروں اور کتابوں میں شائع ہوتی تھیں۔
’یہ اخبار اور اوراق گلیوں اور محلوں کے علاوہ نالیوں میں پڑے ہوتے تھے جن کو اکھٹا کرنے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں ڈبے لگائے گئے، لوگ یہ اوراق اٹھا کر ڈبوں میں ڈالتے اور پھر ہم ان کو اٹھا کر ان کو صاف کر کے محفوظ مقامات پر دفن کرتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب اُن کے پاس پاکستان کے دوسرے شہروں کے علاوہ افغانستان سے قرآن مجید اور ان کے بوسیدہ اوراق آنے لگے تو پھر ہمیں بروری کے پہاڑ میں سرنگیں بنا کر اُن محفوظ کرنے کا خیال آیا اور پھر وہاں سرنگیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کہ ابھی تک جاری ہے۔
ہاتھ سے تحریر کیا گیا قرآن کا تاریخی نسخہ جسے تین مرتبہ چوری کرنے کی کوشش کی گئی’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیاچوری کی انوکھی واردات جس کے بعد راولپنڈی پولیس کباڑ خانوں پر چھاپے مار رہی ہےسندھ کے سرکاری گوداموں سے چار ہزار ٹن گندم کیسے ’غائب‘ کی گئی؟بروری کے پہاڑ میں چھ کلومیٹر طویل سرنگیں
حاجی عبدالرشید لہڑی نے بتایا کہ بروری کے پہاڑ میں پہلی سرنگ کھودنے کا کام سنہ 1992 میں شروع کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ جب پاکستان بھر میں لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں قرآن کے بوسیدہ نسخوں کو محفوظ بنانے کا ایک اچھا انتظام ہے تو پھر پاکستان کے تمام علاقوں کے علاوہ افغانستان سے بھی قرآن کے بوسیدہ نسخے آنے لگے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بروری میں ایک سرنگ کھودیگئی اور پھر سرنگوں کی تعداد کو بڑھایا گیا اور اس وقت پہاڑ میں سرنگوں کی مجموعی تعداد 42 ہے۔ ان میں سے بعض سرنگوں کی لمبائی ہزار سے 12سو فٹ تک بھی ہے اور ان کی مجموعی لمبائی چھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
ان سرنگوں میں سے بعض میں ایسے اوراق اور نسخوں کو تھیلوں میں بند کر کے رکھ دیا گیا ہے جو کہ پڑھنے کے قابل نہیں تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ان میں ہاتھ سے لکھے قدیم نسخوں کو شیشے کے شو کیسز میں بند کر کے رکھ دیا گیا جس کے باعث ان میں سے بعض سرنگیں عجائب گھر کا منظر پیش کرتی ہیں۔
’محفوظ ہونے کے لیے آنے والے نسخوں سے ہی قدیم نسخوں کو نکالا گیا‘
جبل نورالقرآن انتظامی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جو نسخے دفن کرنے یا محفوظ بنانے کے لیے آتے تھے ان میں سے بعض کو جلد یا معمولی مرمت کرنے پردوبارہ پڑھنے کے قابل بنایا جا سکتا تھا اس لیے ہم بغیر دیکھے ان کو بوریوں میں بند کرنے کی بجائے اُن کی چھانٹی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا جو کہ استعمال کے کسی طرح بھی قابل نہیں تھے ان کو ہم الگ کر کے بوریوں میں بند کر کے ان کو سرنگوں میں رکھتے ہیں جبکہ بعض کو جلد چڑھا کے یا مرمت کر کے مساجد اور مدارس میں دیتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اسی چھانٹی کے دوران بعض ایسے نسخے بھی ملے جو پانچ سو سال یا اس سے زیادہ قدیم تھے اور ان کی خوبی یہ تھی کہ یہ مختلف رسم الخط میں ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔
’ان میں بعض پشتو، فارسی ، براہوی ، گجراتی اور دیگر زبانوں میں تراجم کے ساتھ تھے۔‘
بالاچ لہڑی کا کہنا ہے ان میں سے بعض نسخوں کے تراجم فرنچ اور روسی زبانوں میں بھی تھے۔
حاجی عبدالرشید لہڑی کا کہنا تھا کہ ہاتھ جو نسخے لکھے ہوئے تھے ان کو ہم نے شو کیسز میں رکھا تاکہ لوگ آ کر ان کو دیکھیں کہ پرنٹنگ مشینوں کی ایجاد سے پہلے ان نسخوں کو ہاتھ سے لکھنے میں کتنی محنت ہوئی ہو گی۔
’چند ہفتے قبل بعض لوگ چوکیدار کو زخمی کر کے ایک قدیم نسخہ لے گئے تھے‘BBCبالاچ لہڑی کے مطابق چوروں نے زیادہ تر ان شو کیسز کو توڑا جن میں قرآن کے قدیم نسخے تھے
عبدالرشید لہڑی نے بتایا کہ چند ہفتے قبل بھی بعض لوگ چوکیدار کے پاس آئے تھے اور ان سے ایک نسخہ جس کو پشتون ست رنگی کہتے ہیں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یہ نسخہ ان کو دے دیں۔
’چوکیدار نے ان کو انکار کیا تھا اور ان کو یہ بتایا تھا کہ یہ نسخے کسی کو دینے یا فروخت کے لیے نہیں، اس لیے وہ کسی بھی صورت اسے نہیں دیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ جب انھیں یہ محسوس ہوا کہ چوکیدار یہ کسی بھی صورت میں نہیں دیں گے تو وہ ایک روز صبح آٹھ بجے کے قریب اس وقت آئے جب چوکیدار وہاں صفائی کر رہے تھے ۔
انھوں نے بتایا کہ ’ان لوگوں نے چوکیدار پر تشدد کیا اور بعد میں شوکیس کے شیشے توڑ کر وہ قرآن زبردستی لے گئے۔ پولیس کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔‘
انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ شاید وہی لوگ دوبارہ آ کر ہاتھ سے لکھے جانے والے مزید 120 قدیم نسخوں کو چوری کر کے لے گئے ہوں۔
بالاچ لہڑی نے بتایا کہ چوروں نے زیادہ تر ان شو کیسز کو توڑا جن میں قرآن کے قدیم نسخے تھے۔ چونکہ شو کیسز پر تالے لگے ہوئے تھے اس لیے ان قدیم نسخوں کو لے جانے کے لیے ان کو اوپر سے توڑا گیا ہے۔
ہاتھ سے تحریر کیا گیا قرآن کا تاریخی نسخہ جسے تین مرتبہ چوری کرنے کی کوشش کی گئی’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیاچوری کی انوکھی واردات جس کے بعد راولپنڈی پولیس کباڑ خانوں پر چھاپے مار رہی ہےسندھ کے سرکاری گوداموں سے چار ہزار ٹن گندم کیسے ’غائب‘ کی گئی؟بلوچستان: ضلع کچھی میں مندر سے دو مقدس کتابیں چوریکار چوری کے نئے طریقے جن سے بغیر چابی کی گاڑیاں بھی محفوظ نہ رہ سکیں