گرین لینڈ میں برف کی دبیز تہوں کے نیچے آخر کیا چھپا ہے اور اس خزانے کا حصول کتنا مشکل ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 24, 2025

Getty Images

زمین پر سب سے بڑے جزیرے یعنی گرین لینڈ کی کشش سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ہزار سال قبل پہلی یورپی بستی کی بنیاد رکھنے والے ایرک دی ریڈ سے لے کر دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والی اتحادی افواج تک، اس جزیرے کے الگ تھلگ ساحل سب کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

اور اب گرین لینڈ ایک بار پھر عالمی دلچسپی کا مرکز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نظریں اس پر ہیں۔

گذشتہ ایک صدی کے دوران ہونے والی دریافتوں، لگائے گئے اندازوں اورتفصیلی نقشہ سازی کی بدولت گرین لینڈ میں اہم معدنی وسائل کی موجودگی کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ ان معدنی وسائل میں نایاب عناصر اور گرین انرجی ٹیکنالوجیز کے لیے استعمال ہونے والی اہم معدنیات کے ساتھ ساتھ فوسل ایندھن کے ممکنہ ذخائر بھی شامل ہیں۔

لیکن گرین لینڈ میں دفن اس خزانے کے لیے پائے جانے والے عالمی جوش و خروش کے باوجود، معدنیات اور فوسل ایندھن کو تلاش کرنے اور پھر اسے نکالنے کا عمل اقوام عالم کے لیے ایک کثیر الجہتی اور کثیر القومی چیلنج ہو گا۔

ہمیں دستیاب زیادہ تر نقشوں پر گرین لینڈ رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا نظر آتا ہے۔ اور نقشوں میں اسے ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے یہ لگ بھگ افریقہ کے سائز جتنا ہے۔ نقشوں میں اس جزیرے کے سائز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جات ہے، جس کی وجوہات ہیں۔

مگر حقیقت میں گرین لینڈ تقریبا 20 لاکھ مربع کلومیٹر یعنی 770000 مربع میل کے رقبے پر محیط ہے، یعنی یہ افریقی ملک کانگو کے سائز کے برابر ہے۔

ہمارے کرہِ ارض پر وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نشانات جا بجا پائے جاتے ہیں۔ آتش فشاؤں کے پھٹنے اور آہستہ آہستہ اُن کے ٹھنڈا ہونے سے لے کر بڑے بڑے براعظمی ٹکراؤ تک، یہ تمام ارضیاتی تبدیلیاں زمین کی سطح اور چٹانوں پر تاریخ کی مانند درج ہے۔ اور گرین لینڈ جیسے قدیم علاقے میں تو زمین کی اس نوعیت کی تاریخ کی مزید تفصیلات موجود ہیں۔

برٹش جیولوجیکل سروے سے منسلک ماہر ارضیات کیتھرین گڈ اینف کہتی ہیں کہ ’گرین لینڈ کی تاریخ دنیا کی کسی بھی چیز کی تاریخ سے بہت زیادہ پرانی ہے۔‘

وہ وضاحت کرتی ہیں کہ گرین لینڈ ایک زمانے میں ایک بڑے براعظم کا حصہ تھا جس میں آج شمالی یورپ اور شمالی امریکہ کے کچھ حصے شامل ہوں گے۔

تقریبا 50 کروڑ سال قبل گرین لینڈ یورپ اور شمالی امریکہ کے درمیان واقع ایک ’سُپر براعظم‘ کا حصہ تھا لیکن زمین چونکہ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اسی لیے تقریباً چھ سے ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے، سُپر براعظم بکھرنا شروع ہوا، بکھرنے کے اس عمل کے باعث زمین میں ایک عظیم دراڑ پیدا ہوئی جس سے شمالی بحر اوقیانوس نے جنم لیا۔

Getty Images

اسی عظیم تبدیلی کے نتیجے میں گرین لینڈ یورپ سے الگ ہوا اور مغرب کی طرف بہتا ہوا آئس لینڈ کے ہاٹ سپاٹتک پہنچ گیا۔ یہ ایک ایک ایسی جگہ ہے جہاں زمین کی تہہ کے نیچے سے پگھلا ہوا لاوا ابلتا ہے، اور اس عمل کے نتیجے میں آتش فشان پھٹے جنھوں نے آئس لینڈ کا موجودہ جزیرہ اس کی موجودہ شکل میں تشکیل دیا۔

آج گرین لینڈ کی زمین کی تہوں میں زمانہ قدیم کی چٹانوں سے لے کر ماضی قریب کی برفانی تہوں تک، ہر چیز موجود ہے۔ اور یہ صورتحال قیمتی وسائل کی موجودگی کی دلیل ہو سکتے ہیں۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ معدنی وسائل کے علاوہ گرین لینڈ میں تیل اور قدرتی گیس کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ سنہ 1970 کی دہائی سے تیل اور گیس کی کمپنیاں گرین لینڈ کے ساحل پر توانائی کے قدیم ذخائر تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن اُن کی یہ کوششیں ناکام رہیں۔

جزیرے کا زیادہ تر حصہ برف کی چادر سے ڈھکا ہوا ہے جبکہ صرف 20 فیصد حصہ برف سے پاک ہے، جس میں پہاڑیاں، چٹانیں اور آبادیاں ہیں۔

جیولوجیکل سروے آف ڈنمارک اینڈ گرین لینڈ سے منسلک سینیئر محقق تھامس فائنڈ کوکفیلٹ کا کہنا ہے کہ ’شمال مشرقی گرین لینڈ میں معدنی وسائل کھوج 130 سال پہلے ایک اہم موضوع تھا۔ اس دوران یہاں مختلف معدنیات دریافت ہوئیں اور کانیں کھلنے لگیں۔‘

Getty Images

سنہ 1850 میں جنوب مغربی گرین لینڈ میں ’کریولائٹ‘ نامی معدنیات دریافت ہوئی جو درحقیقت ایک ’ایسی برف ہے جو کبھی نہیں پگھلتی‘ کیونکہ اس کو پگھلانے کے لیے کافی زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔

اس دور میں گرین لینڈ پر آباد افراد نے سوڈا بائی کاربونیٹ بنانے میں ’کریولائٹ‘ کا استعمال سیکھنے کے بعد اس کی کان کنی شروع کر دی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ’آئیویٹوٹ‘ نامی کان سے اتحادی افواج کو کریولائٹ فراہم کی گئی جو طیاروں میں استعمال ہونے والے ایلومینیم کی پیداوار میں بھی ایک اہم معدنیات ہے۔

گرین لینڈ میں ارضیاتی نقشہ سازی کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا۔ ساحل کے ساتھ 20 سال کی ٹریکنگ کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ اس جزیرے کی نقشہ سازی ایک مشکل کام تھا۔

محقق فائنڈ کوکفیلٹ کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ گرین لینڈ کے برف سے پاک تمام علاقوں کو تقسیم کریں تو آپ ایک سے دو لاکھ سکیل کے 200 نقشوں کی چادریں لگا سکتے ہیں۔‘

جب ماہرین ارضیات نے حساب کتاب کیا تو انھیں احساس ہوا کہ جس حساب سے نقشہ سازی کا یہ کام جاری ہے اس مکمل ہونے میں 200 سال لگیں گے۔

تاہم انھوں نے سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں گرین لینڈ کے ابتدائی ارضیاتی نقشوں کو مکمل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سے ’جی ای یو ایس‘ ان نقشوں کو بہتر بنا رہا ہے اور بہتر ریزولوشن میں زوم کر رہا ہے۔

لیتھیئم: کیا ’سفید سونے‘ کی جنگ میں چین امریکہ کو شکست دے رہا ہے؟زمین میں چھپا وہ خزانہ جس کے لیے مستقبل میں جنگیں ہو سکتی ہیںوہ ’پوشیدہ دولت‘ جس تک یوکرین کو اب رسائی حاصل نہیںتیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ رہے ہیں مگر امریکہ یہ ’جنگ‘ کیسے جیت رہا ہے؟

اب تک ماہرین ارضیات نے زیادہ تفصیلی پیمانے پر 55 نقشے مکمل کیے ہیں۔ انھوں نے زیر زمین نقشہ سازی کی کوششوں پر بھی غور کیا ہے۔ حال ہی میں فائنڈ کوکفیلٹ نے جغرافیائی طبعیات کے ماہرین کے ساتھ مل کر برف کی دبیز تہہ کے نیچے مخصوص خصوصیات والے علاقوں کا نقشہ تیار کیا ہے۔

یہ نقشہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ کس جگہ کون سی معدنیات موجود ہو سکتی ہیں۔ لیکن ابتدائی ارضیاتی نقشوں کی طرح فائنڈ کوکفیلٹ نے فوری طور پر یہ ذکر کیا ہے کہ اس نقشے کو مزید اعداد و شمار کی بنیاد پر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

Getty Images

اہم معدنیات کی کسی جگہ موجودگی کی خبر دنیا کی معیشت میں ہلچل مچاتی رہتی ہے تاہم انھیں تلاش کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

یہ معدنیات کلین انرجی کی منتقلی کے لیے خاص طور پر اہم ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ توانائی کی ٹیکنالوجی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 2040 تک معدنی اور دھاتی وسائل کی طلب موجودہ طلب سے چار گنا ہو سکتی ہے۔

الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں سے لے کر پن چکیوں اور سولر پینلز تک، ہر چیز کی تیاری میں اہم معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سی معدنیات چین اور افریقہ جیسی جگہوں پر کان کنی کی مدد سے حاصل کی جا رہی ہیں لیکن کان کنی کے نئے مقامات پر غور کرنے کی متعدد وجوہات ہیں، جن میں جغرافیائی سیاست ، نقل و حمل اور رسائی اور معاشیات کے پہلو شامل ہیں۔

ڈنمارک کی البورگ یونیورسٹی سے منسلک این میرلڈ بتاتی ہیں کہ جیسے جیسے دوسرے علاقوں میں واقع کانیں ذخائر سے خالی ہونے لگتی ہیں ویسے ویسے ’آرکٹک میں موجودہ ذخائر میں دلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔‘

اگرچہ گرین لینڈ میں اہم معدنیات کی موجودگی کا امکان ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان معدنیات کے حصول کے لیے یہاں کان کنی معاشی اعتبار سے قابل عمل ہے یا نہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں تلاش آتی ہے۔

یونیورسٹی آف نیواڈ میں ’رالف جے رابرٹس سینٹر فار ریسرچ اینڈ اکنامک جیولوجی‘ کے ڈائریکٹر سائمن جوویٹ کہتے ہیں کہ ’معدنیات کی تلاش کان کنی سے متعلق کاروباری اداروں میں سب سے زیادہ چیلنجنگ اور خطرناک ہے۔‘

وہبتاتے ہیں کہ معدنیات کی تلاش کے ہر 100 منصوبوں میں سے کامیابی صرف ایک میں ملتی ہے۔

Getty Images

جوویٹ کہتے ہیں کہ اگر یہ معلوم ہو جائے زیر زمین کچھ معدنیات ہیں تو ان کی دریافت سے پیدوار تک کے عمل میں جانے تک تقریباً 10 سال لگ سکتے ہیں۔

’یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس علاقے کی بات کر رہے ہیں؟ وہاں بنیادی انفراسٹرکچر کیا ہے؟ آپ کو کن اجازت ناموں کی ضرورت ہے؟ اور دیگر چیزیں جو آپ کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کرنی پڑتی ہیں کہ آپ ایمانداری سے کان کنی کرنے ہی جا رہے ہیں۔‘

گرین لینڈ میں بنیادی انفراسٹرکچر کی نمایاں کمی ہے، شہروں سے باہر دیہی علاقوں میں کوئی سڑک یا ریلوے کا نظام نہیں ہے۔

جوویٹ کا کہنا ہے کہ ’گرین لینڈ کے علاقے میں فور بائی فور گاڑی چلانا آسان نہیں ہے۔ یہاں سفر کشتی یا ہوائی جہاز سے کیا جاتا ہے، گاڑی سے نہیں۔‘

جوویٹ کہتے ہیں کہ بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی کان کنی کے لیے ’ایک چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ اس علاقے میں معدنیات کی پروسیسنگ بھی ایک پریشان کن چیلنج ہو سکتی ہے۔

گڈ اینف بتاتے ہیں کہ سونے جیسی معدنیات کے برعکس (جو چٹان کے اندر ہی اپنی اصل حالت میں پایا جاتا ہے) دیگر نایاب معدنیات کا حصول ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔

’یہ ذخائر حاصل کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔‘

اور اگر کوئی معدنیات تابکار معدنیات کے ساتھ منسلک ہوتی ہے تو یہاں کان کنی سے ایک گرام بھی نہیں نکالا جا سکتا۔ سنہ 2021 میں گرین لینڈ نے کان کنی کے وسائل میں یورینیم کے استعمال کی مقدار کو محدود کرنے کے لیے ایک قانون منظور کیا تھا۔

گرین لینڈ کی موجودہ پارلیمنٹ کان کنی کے دیرپا اثرات پر گرین لینڈ کے باشندوں کے خدشات کی عکاسی کرتی ہے۔ گرین لینڈ میں موجود تین پرانی کانوں نے خاص طور پر جزیرے کے آس پاس کے پانی کو نمایاں ماحولیاتی نقصان پہنچایا ہے۔

Getty Images

این میریلڈ کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کے ارد گرد انتہائی کم درجہ حرارت اور کم نمکیات نے ماحولیاتی بحالی کے عمل کو تکلیف دہ طور پر سست بنا دیا ہے اور اس کے اثرات 50 سال بعد بھی سامنے آتے رہیں گے۔

’پانی کو پہنچنے والے نقصان سے گرین لینڈ کے باشندوں کی خوراک کی فراہمی اور ماہی گیری اور شکار کے ذریعے ذریعہِ معاش کے مواقع کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘

ماحولیاتی تبدیلی آرکٹک کو بُری طرح متاثر کر رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں درجہ حرارت باقی کرہ ارض کے مقابلے میں تقریبا چار گنا تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

نئے اندازوں کے مطابق گرین لینڈ کی برف کی چادر سے ایک گھنٹے میں لگ بھگ تین کروڑ ٹن برف ضائع ہو رہی ہے۔

اگرچہ برف ہٹنے سے مزید دفن چٹانیں منکشف ہوں گی تاہم میرلڈ کہتی ہیں کہ برف کا پگھلنا معدنیات کھوج میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا محرک عنصر نہیں ہے کیونکہ بہرحال گلیشیئر پگھلنے میں کافی وقت لگتا ہے۔

آرکٹک سمندر کی برف کی مقدار گذشتہ پانچ دہائیوں سے کم ہو رہی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کا یہ پہلو گرین لینڈ کے لیے ایک عجیب تضاد پیش کرتا ہے۔

گرم ہوتی آب و ہوا کا مطلب ماحولیاتی نظام میں تبدیلی، سمندر کی سطح میں اضافہ اور سمندری لہروں میں خلل ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آرکٹک سمندر کے راستے کُھل رہے ہیں جس سے گرین انرجی ٹیکنالوجیز میں استعمال ہونے والی اہم معدنیات کی نقل و حمل آسان ہو گی۔

این میریلڈ گرین لینڈ میں پلی بڑھی ہیں اور وہاں مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ گرین لینڈ کے باشندے کان کنی کی سرگرمیوں کے مخالف نہیں ہیں لیکن انھیں اس ضمن میں کچھ خدشات ضرور ہیں۔

ایک تشویش خود زمین کی ہے۔ گرین لینڈ میں حکومت ہی رہائشیوںکی زمین کی مالک اور منتظم ہے۔

این میریلڈ بتاتی ہیں ’اس لحاظ سے ہر کوئی زمین کا مالک ہے اور بیک وقت کوئی بھی زمین کا مالک نہیں ہے۔‘

میریلڈ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور غلط اقدامات سے بچنے کے لیے گرین لینڈ کے باشندوں کو کان کنی کے عمل میں شروع سے آخر تک شامل ہونا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں ’لوگ (کان کنی) کو ایک موقعے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن وہ اس کی ترقی میں حصہ لینا، شریک مالک بننا، اور پروجیکٹ کی منصوبہ بندی کا حصہ بننا پسند کریں گے۔‘

تو کیا گرین لینڈ اگلا ’وائلڈ ویسٹ‘ بننے والا ہے؟ ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن کا کہنا ہے کہ یہ گرین لینڈ کے عوام پر منحصر ہے۔ لیکن ان کے جزیرے میں بین الاقوامی دلچسپی جلد ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔

زمین میں چھپا وہ خزانہ جس کے لیے مستقبل میں جنگیں ہو سکتی ہیںبیٹری کی طرح توانائی سٹور کرنے والا سیمنٹ جو آپ کے گھر کو سستی اور بلاتعطل بجلی فراہم کر سکتا ہےلیتھیئم: کیا ’سفید سونے‘ کی جنگ میں چین امریکہ کو شکست دے رہا ہے؟تیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ رہے ہیں مگر امریکہ یہ ’جنگ‘ کیسے جیت رہا ہے؟وہ ’پوشیدہ دولت‘ جس تک یوکرین کو اب رسائی حاصل نہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More