کسی فرقے کے طرز کا زیزیان نامی گروہ آج کل خبروں میں ہے جسے قتل کے متعدد اقدامات سے جوڑا جا رہا ہے اور اس سے جُڑے کچھ افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس گروہ کے پیچھے لوگ کون ہیں اور ان کا عقیدہ کیا ہے؟
34 سالہ جیک لاسوٹا مبینہ طور پر چند درجن افراد پر مشتمل زیزیان نامی گروہ کی مبینہ سربراہ ہیں اور گذشتہ اتوار کو 32 سالہ مشیل زاجکو کے ہمراہ گرفتار کیے گئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ بھر میں ایسی چھ ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہے ہیں جن کے تانے بانے مبینہ طور پر اس گروہ کے اراکین سے ملتے ہیں۔
زیرِ تفتیش مقدمات میں پینسلوینیا میں ہونے والا دُوہرا قتل، کیلیفورنیا میں چھری سے حملہ اور رواں برس ایک امریکی بارڈر گارڈ کی گولی لگنے سے ہلاکت شامل ہے۔
اس گروہ کے تین مبینہ اراکین پر پہلے ہی قتل کے مقدمات بنائے جا چکے ہیں۔
زیزیان گروہ آیا کہاں سے؟
لاسوٹا نامی ٹرانس جینڈر خاتون اس گروہ کی مبینہ سربراہ ہیں۔
ان کے اپنے بلاگ کے مطابق انھوں نے سنہ 2013 میں یونیورسٹی آف الآسکا سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کی تھی اور تین برس بعد وہ سان فرانسیسکو منتقل ہو گئیں۔
لاسوٹا کی بلاگ ویب سائٹ کے مطابق انھوں نے سان فرانسیسکو میں ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی کمپنیوں میں ملازمتوں کے لیے عرضیاں دیں جن میں خلائی ادارے ناسا کی ایک مختصر انٹرن شپ بھی شامل تھی۔
اسی وقت ان کا رابطہ ایسے لوگوں سے ہوا جو ایک تحریک چلا رہے تھے جس کا مقصد دماغی طاقت کو بڑھا کر سچ کھوجنا، تعصب کو ختم کرنا اور معاشرے کو بہتر کرنا تھا۔
اس وقت لاسوٹا نے ’زیز‘ کے نام سے بلاگنگ شروع کی لیکن وہ جلد ہی تحریک سے الگ ہو گئیں اور ان کے مضامین نے ایک عجیب رُخ اختیار کرلیا۔
اس بلاگ ویب سائٹ پر ہزاروں الفاظ پر مشتمل پوسٹس تھیں جن میں لاسوٹا کے ذاتی تجربات، ٹیکنالوجی اور فلسفے کے حوالے سے تھیوریاں، پاپ کلچر اور کمپیوٹر کوڈنگ پر تبصرے شامل تھے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے ٹی وی سیریز دا آفس، آرٹیفشل انٹیلیجنس اور دیگر موضوعات پر عجیب و غریب تحریر لکھی: ’مجھے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ میں لوگوں یہاں تک کہ عقلیت پسند افراد کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ میں اپنی باقی زندگی مکمل تنہائی میں گزاروں گی۔ میں نے اپنی خوبصورتی کو دیکھنے کی صلاحیت کو خیرباد کہہ دیاتاکہ میں بُرائی کو دیکھ سکوں۔‘
Getty Imagesورمونٹ بارڈر پر ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے ایک گارڈ کی تصویر
ان کی بلاگ پوسٹ میں کچھ ایسی تحریریں بھی شامل تھیں جن میں جانوروں کے گوشت یا اس سے تیار اشیا کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
سنہ 2019 میں لاسوٹا اور ان کے تین ساتھیوں کو گرفتار بھی کیا تھا جب وہ ایک عقلیت پسند تنظیم کے احتجاج میں شریک تھے اور ان کی بلاگ ویب سائٹ پر آخری پوسٹ بھی اسی دوران چھپی تھی۔
موت کی جھوٹی خبر
اطلاعات کے مطابق اگلے چند برس تک لاسوٹا اور ان کے ساتھی امریکہ بھر میں گھومتے پھرتے رہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ کسی کشتی میں رہ رہے تھے اور بعد میں وہ کیلیفورنیا اور شمالی کیلیفورنیا میں انجان افراد کے گھروں میں بھی رہتے رہے۔
سنہ 2022 میں لاسوٹا کے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری ہوئے کیونکہ وہ احتجاج کے حوالے سے ایک عدالتی پیشی میں حاضر نہیں ہوئی تھیں۔
ان کے وکیل نے اس وقت یہ مؤقف اپنایا کہ ان کی مؤکلہ ’سان فرانسیسکو بے ایریا میں ایک کشتی حادثے میں ہلاک‘ ہو چکی ہیں۔
’مسلمانوں کا وہ فرقہ‘ جو نماز روزے کے بجائے محنت کو جنت کی کلید کہتا ہے مگر ناقد انھیں ’اسلام سے بھٹکا ہوا گروہ‘ کیوں قرار دیتے ہیں’یہودی طالبان‘: مبینہ جنسی استحصال میں ملوث یہودی فرقہ ’لیو طہور‘ کیا ہے؟’بچہ اپنے پاس رکھا تو جہنم میں جاؤں گی‘: مسیحیوں کا وہ خفیہ فرقہ جو ماؤں کو بچوں سے رشتہ ترک کرنے پر راغب کرتا ہےوہ مسیحی فرقہ جس میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت تو ہے لیکن کافی اور شراب ممنوع ہیں
یہاں تک الآسکا کے ایک اخبار میں ان کی موت کی جھوٹی خبر بھی چھپی جس میں لکھا تھا کہ لاسوٹا کو ’ایڈوینچرز، دوستوں، اہلخانہ، موسیقی، بلیوبیریز، بائیکنگ، کمپیوٹر گیمز اور جانوروں‘ سے محبت تھی۔
لیکن یہ کہانی جھوٹی تھی اور لاسوٹا زندہ تھیں۔
جیسیکا ٹیلر آرٹیفشل انٹیلیجنس کی ایک محقق ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ لاسوٹا کے گروپ کے متعدد اراکین کو جانتی تھیں۔ انھوں نے لاسوٹا اور زیزیان گروہ کے دیگر اراکین نے اپنے عقلیت پسند عقائد کو مسخ کر کے قانون توڑنے کو جائز قرار دیا۔
ٹیلر کہتی ہیں کہ ’جیسے کہ ان کا ماننا تھا کہ کرایہ نہ دینا بالکل درست ہے اور ایسا کرنے پر اگر کہیں سے آپ کو نکالا جائے تو اس وقت اپنا دفاع کرنا بھی درست ہے۔‘
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر پولومی ساہا کہتی ہیں کہ ایسے گروہ کی قانونی تعریف موجود نہیں۔
’یہ متعدد افراد کا ایسا گروہ ہے جو غیر روایتی نقطہ نظر رکھتے ہیں تاہم اس سے وہ کوئی فرقہ نہیں بن جاتے لیکن پھر ان میں بطور سربراہ زیز نامی ایک شخصیت بھی موجود ہے۔‘
پولومی کہتی ہیں کہ یہاں یہ بھی واضح نہیں کہ اس گروپ کے اراکین کا آپس میں کیا تعلق ہے اور حالیہ برسوں میں انھوں نے کس چیز سے متاثر ہو کر مبینہ طور پر قتل کیے۔
پُرتشدد سرگرمیاں
موت کی جھوٹی خبر پھیلنے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد لاسوٹا اور ان کے گروہ کے کچھ افراد ایک مرتبہ پھر کیلیفورنیا کے علاقے والیہو میں منظرِعام پر آئے۔ یہاں اس گروہ کے اراکین وینز اور ٹرکوں میں رہ رہے تھے جو کرٹس لنڈ نامی شخص کی ملکیت تھے۔
ایک وقت ایسا آیا جب زیزیان کے اراکین نے کرایہ دینا بند کر دیا اور کرٹس نے ان سے وینز اور ٹرک خالی کروانے کے لیے عدالت کا سہارا لیا۔
تاہم نومبر 2022 میں یہ جھگڑا بڑھ گیا، کرٹس پر حملہ ہوا اور ان پر چھری کے 50 وار ہوئے جس کے سبب ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ پولیس کے مطابق کرٹس نے اپنے دفاع میں گولی بھی چلائی جس کے نتیجے میں گوگل کے سابق ملازم اور زیزیان کی موجودہ رُکن ایما بورہنین ہلاک ہو گئیں۔
اس موقع پر اس گروپ کے دو اراکین سوری داؤ اور سومنی لوجینشیا کو کرٹس کو قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا۔ وہ اس وقت بھی جیل میں ہیں اور عدالتی سماعت شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
جس وقت حملہ ہوا لاسوٹا بھی وہیں موجود تھیں لیکن انھیں اس قتل کے مقدمے کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔
اس مہینے زیزیان کے ایک رُکن کے والدین کا پینسلوینیا کے چھوٹے سے قصبے میں قتل ہوا تھا۔
71 سالہ رچرڈ زاجکو اور ان کی 69 سالہ اہلیہ ریٹا کے سر میں گولیاں ماری گئی تھیں اور ان کی لاشیں ان کے گھر سے برآمد ہوئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اراکین نے کام میں دخل اندازی کرنے اور برا برتاؤ کرنے پر لاسوٹا کو گرفتار کیا تھا اور ان پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
گروہ کے اراکین کی تلاش
اوپر بیان کیے گئے دو واقعات میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہونے کے باوجود رواں برس سے قبل زیزیان گروہ کے اراکین لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں تھے۔
پھر 17 جنوری کو کرٹس کو قتل کر دیا گیا۔ یہ وہی کرٹس ہیں جن پر مبینہ طور پر زیزیان کے اراکین نے حملہ کیا تھا۔
والیہو پولیس ڈپارٹمنٹ کے مطابق کرٹس کو چھرے کے وار سے قتل کرنے والے حملہ آور نے سیاہ ماسک اور سیاہ ٹوپی پہن رکھی تھی۔
بعد میں پولیس نے میکسیملن سنائڈر نامی شخص پر کرٹس کے قتل کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ عدالت میں اقدامِ قتل کے مقدمے میں گواہی دینے سے روکنے کے لیے انھوں نے کرٹس کو قتل کیا۔
اس کے کچھ دن بعد ہی کینیڈین بارڈر کے نزدیک ایک امریکی بارڈر گارڈ کو قتل کیا گیا۔ زیزیان کے دو اراکین ٹیریسا ینگبلٹ اور فیلکس بکہولٹ کو امریکی بارڈر گارڈ ڈیوڈ ملانڈ نے ورمونٹ میں کینیڈین بارڈر کے قریب روکا تھا۔
اس موقع پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں جرمن شہری فیلکس اور بارڈر گارڈ ڈیوڈ ملانڈ ہلاک ہو گئے۔
فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والی ٹیریسا کو آتشی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
فائرنگ کے اس وقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے زیزیان گروہ کے دیگر اراکین کی تلاش شروع کردی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں استعمال ہونے والی بندوق زیزیان کی رُکن مشیل زاجکو نے خریدی تھی۔
اشتہاریوں کی گرفتاری
ورمونٹ میں ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کے بعد پینسلوینیا پولیس نے کہا کہ انھیں مشیل زاجکو کے والدین کے قتل سے متعلق نئے شواہد ملے ہیں اور لاسوٹا عدالتی سماعتوں میں غیر حاضری کے سبب اشتہاری قرار دی جا چکی تھیں۔
زاجکو اور لاسوٹا کہاں ہیں، پولیس کو معلوم نہیں تھا لیکن پھر گذشتہ اتوار کو یہ دونوں گروہ کے ایک اور رُکن ڈنییل بلینگ کے ہمراہ میری لینڈ میں گرفتار ہو گئے۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کے شمال مغرب میں 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فروسٹ برگ نامی علاقے سے ایک مقامی فرد نے انھیں فون کیا اور انھیں اپنی پراپرٹی پر تین ’مشکوک‘ افراد کی موجودگی کی اطلاع دی۔
میری لینڈ پولیس کا کہنا ہے کہ تینوں افراد پر کسی اور کی پراپرٹی میں گھسنے کی کوشش پر مقدمہ قائم کیا گیا جبکہ مشیل زاجکو اور لاسوٹا پر اسلحے کے غیرقانونی استعمال کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے گئے۔ ان تینوں افراد کی ضمانت کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
لاسوٹا کے وکیل ڈینیل مکگارگل نے بی بی سی کے سوالات کا جواب دینے سے معذرت کی اور ایک بیان جاری کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’پریس اور لوگوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ قیاس آرائیاں کرنے اور قبل از وقت نتائج اخذ کرنے سے گُریز کریں۔‘
سینیگال میں مسلمانوں کا وہ گروہ جو نماز پڑھتا ہے نہ روزے رکھتا ہےہیٹی کے مرغی فروش کا بیٹا جو مسلح گروہ کا سربراہ بننے کے بعد اب وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہا ہےقاتلوں کا خفیہ گروہ جو حسن صباح کی ’جنت‘ کے لیے مسلم اور مسیحی رہنماؤں کو قتل کرتا تھا’ارینج میرج‘ کے لیے بوائے فرینڈ کو قتل کرنے والی خاتون کو سزائے موت: ’لڑکے نے بسترِ مرگ پر کہا کہ لڑکی سے کوئی شکایت نہیں‘آٹھویں جماعت کے بچے پر قتل کا الزام: ’اس نے سوچا کہ بچے کو قتل کرنے سے سکول بند ہو جائے گا اور پڑھنا نہیں پڑے گا‘