لاہور میں ’لاوارثوں کا قبرستان‘: سینکڑوں خاندانوں کے لیے انتطار کی اذیت ختم کیوں نہیں ہوتی؟

بی بی سی اردو  |  Feb 25, 2025

BBCنسرین بی بی اور ان کے خاوند محمد اقبال

دن تو کسی نہ کسی طرح ناامیدی اور امید کے درمیان بیٹے کی تلاش میں ایک سے دوسری جگہ جاتے گزر ہی جاتا ہے مگر یہ رات ہوتی ہے جسے کاٹنا نسرین بی بی کے لیے بہت کٹھن ہو جاتا ہے۔ وہ تھک ہار کر جب تکیے پر سر رکھتی ہیں تو وسوسے اور خدشات انھیں آن گھیرتے ہیں۔

’وہ بول نہیں سکتا، کسی کو بتا نہیں سکتا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ کوئی دے دے تو کھا لے گا، نہ دے تو۔۔۔‘ اس سے کے بعد اُن کی آنکھوں سے آنسو نکلنے کا سلسلہ نہیں تھمتا۔ وہ خود کو دلاسے بھی دیتی ہیں۔

’کہیں نان کی دکان دیکھے گا تو ضرور مانگے گا کہ میں نے نان کھانا ہے۔ لیکن۔۔۔‘

مگر رات کو اپنے آپ کو دیے جانے والے یہ زیادہ تر دلاسے بھی کام نہیں کرتے۔ نسرین کی آنکھیں اندر کو دھنس چکی ہیں اور اُن پر سوجن رہتی ہے اور اپنے 22 سالہ بیٹے عمیر کے ذکر پر یہ آنکھیں بُری طرح چھلک پڑتی ہیں۔

نسرین بی بی اور اُن کے خاوند محمد اقبال کی کہانی میں بے بسی کے اس باب کو شروع ہوئے ایک برس ہونے کو ہے۔ یہ گذشتہ رمضان کے مہینے کا ایک دن تھا جب ذرا سی دیر کے لیے اُن کی نظر چوکی اور اُن کے بیٹے محمد عمیر اقبال اکیلے ہی گھر سے باہر نکل گئے۔

ان کے دو بیٹوں میں عمیر چھوٹے ہیں۔ اُن کی عمر تو اس وقت 22 برس تھی مگر اُن کا ذہنی توازن درست نہیں اور وہ بول بھی نہیں سکتے۔ چھوٹے بچوں کی طرح اُن کے والدین نے ہمیشہ انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا۔ وہ کہیں بھی جاتے والدین کے ساتھ جاتے۔

عمیر کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تھیں۔ سارا سارا دن چائے پینا یا پھر کولڈ ڈرنک۔ کسی کے ہاتھ میں بھی دیکھتے تو پکڑ لیتے تھے اور پھر کولڈ ڈرنک میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے سٹرا جمع کرنا اور ان سے کھیلنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کرنسی نوٹ اکٹھے کر کے ہوا میں اچھالنا اور پھر خوشی میں تالیاں بجانا بھی۔

’ایسے کر کے پیسے انھیں ہوا میں پھینکتا اور مجھے کہتا تھا ’دیکھو‘ اور پھر ہنستا اور تالیاں بجاتا۔‘ نسرین بی بی نے آج بھی وہ کولڈ ڈرنک سنبھال کر رکھی ہے جسے پینے کا عمیر کو موقع نہ ملا اور وہ سٹرا بھی جن سے عمیر کھیلتا تھا۔

اُن کی انہی خوشیوں سے نسرین بی بی اور محمد اقبال کے لاہور کے علاقے گجرپورہ چائنہ سکیم میں واقع چھوٹے سے تین مرلہ گھر میں خوشیاں تھیں۔ محمد اقبال ہاکر ہیں اور اخبار بیچتے ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا رکشہ چلاتا ہے۔ گھر کا گزر بسر اچھا چل رہا تھا۔

لیکن عمیر کی تلاش میں ان کے گھر کی خوشیاں بھی جا چکی ہیں اور ایک حصہ بھی۔ اخراجات اٹھانے کے لیے انھیں اسے بیچنا پڑا۔ وہ انھیں ہر اُس جگہ تلاش کر چکے ہیں جہاں سے گمشدہ افراد کے ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔

انتظار میں بیٹھی عمیر کی ماں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ آخر کہاں چلے گئے، تو وہ بے بسی سے بس رو دیتی ہیں۔ ’ہمارے لیے وہ سب کچھ تھا۔ ہمارا گھر ویران کر گیا۔ ہم ایسے بیٹھے ہوتے ہیں فقیروں کی طرح۔‘

نسرین بی بی کہتی ہیں ان کا دل کہتا ہے کہ عمیر زندہ ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ حادثے زندگی کی حقیقت ہیں۔ وہ مردہ خانوں اور قبرستانوں میں بھی انھیں ڈھونڈنے جاتی ہیں۔

ان کی مشکل یہ ہے کہ گذشتہ ایک برس میں لاہور کے مردہ خانوں میں آنے والی سینکڑوں لاشیں شناخت ہوئے بغیر یا لاوارث دفن ہو چکی ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے پیاروں کو دوبارہ دیکھنے کا منتظر اُن کا خاندان اکیلا نہیں ہے۔

لاوارثوں کا قبرستانBBCملک اکبر اور ان کے رضا کار ساتھی اب تک لاواثوں کے اس قبرستان میں لگ بھگ 1400 لاشیں دفن کر چکے ہیں

لاہور کے مضافات میں دو ایکڑ رقبے پر پھیلا ایک ایسا قبرستان ہے جہاں اُن لوگوں کو دفن کیا گیا جا رہا ہے جن کی شناخت نہیں ہو پاتی یا ان کے ورثا نہیں مل پائے۔

چوہدری جمشید نامی ایک مقامی زمیندار نے یہ جگہ ’اکبر صفہ ویلفیئر سوسائٹی‘ نامی فلاحی ادارے کو دے رکھی ہے۔ اس ادارے کے سربراہ لاہور کے رہائشی ملک اکبرگذشتہ ڈھائی برسوں سے پولیس کی معاونت میں یہاں ایسی لاشوں کی تدفین کا کام کر رہے ہیں۔

اس سے قبل ایسی لاوارث لاشیں لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ جمع ہو جاتی تھیں۔

اب تک ملک اکبر اور ان کے رضا کار ساتھی یہاں لگ بھگ 1400 لاشیں دفن کر چکے ہیں۔ ان میں 600 کے قریب لاشیں انھوں نے صرف گذشہ برس یہاں دفن کی ہیں۔ لاشوں کو شناخت کرنے یا ان کے ورثا کو تلاش کرنے کی ذمہ داری پولیس کی ہے۔

جب پولیس کو اس میں کامیابی نہیں ہوتی تو قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اکبر صفہ ویلفیئر سوسائٹی کی مدد سے لاوارث لاشوں کو مردہ خانوں سے اس قبرستان منتقل کرتے ہیں جہاں پولیس کی نگرانی میں ان کی آخری رسومات ادا کر کے امانتاً دفن کر دیا جاتا ہے۔

دفن کرنے سے قبل اُن کے بائیو میٹرکس اور تصاویر لے لی جاتی ہیں۔ ان کا ریکارڈ ملک اکبر کے پاس بھی موجود ہوتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ پولیس کو ملنے والی نامعلوم لاشوں کی شناخت کے لیے کچھ عرصہ قبل بائیو میٹرک سسٹم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

تاہم اس میں زیادہ کامیابی نہیں ہو پائی۔ ’اس سسٹم کے تحت بہت کم لاشوں کے ورثا مل پاتے تھے۔ باقی ساری لاشیں یہاں لاوارثوں کے قبرستان میں آ جاتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں گذشتہ برس لاہور سے ملنے والی جو نامعلوم 600 لاشیں انھوں نے امانتاً دفن کیں ان میں سے بھی صرف 40 یا 50 کے قریب کی شناخت ممکن ہو پائی۔

عمیر کی تلاش کا کٹھن بابBBCنسرین بی بی اب اپنے بیٹے کی تلاش میں تھک چکی ہیں

عمیر کے والد محمد اقبال کو جب اُن کی غیر موجودگی کا احساس ہوا تو وہ اُن کے پیچھے گھر کی سیڑھیاں اُتر کر نیچے دوڑے۔ باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ عمیر نیچے گلی میں بھی نہیں تھے۔ گلی میں واقع دکان والے نے انھیں بتایا کہ وہ اس گلی کی طرف نکلے ہیں جو محلے سے باہر جاتی ہے۔

محمد اقبال ان کے پیچھے گلیوں میں بھی بھاگے لیکن وہ نہیں ملے۔ عمیر کی والدہ اس وقت کسی کام سے گھر سے باہر تھیں۔ وہ واپس آئیں تو دونوں نے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر قریبی پورے علاقے میں ان کو تلاش کیا۔

مایوس ہو کر وہ شام کو گھر واپس لوٹے۔ اگلے ہی روز انھوں نے پولیس سے رابطہ کیا۔ ابتدائی طور پر انھیں زیادہ مدد نہیں ملی۔ انھوں نے مختلف جگہوں پر لگے کیمروں کا ریکارڈ چیک کروایا۔ ان میں عمیر انھیں نظر آ گئے۔

پھر پولیس کی مدد سے انھوں نے سیف سٹی اتھارٹی کے سی سی ٹی وی کیمرے چیک کیے۔ ان میں بھی گھر سے لگ بھگ پانچ سات کلومیٹر دور ایک مقام تک انھیں عمیر جاتے ہوئے دکھائی دیے۔

محمد اقبال کہتے ہیں کہ ’وہ اکیلا ہی چلا جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں وہ کولڈ ڈرنک کا سٹرا تھا جسے وہ اپنی انگلی پر لپیٹ رہا تھا۔‘

تاہم رضا کنڈہ نامی ایک جگہ سے آگے کیمرے ان کی مدد نہیں کر پائے۔ اس سے آگے انھیں نہیں معلوم ہو پایا کہ عمیر کس طرف کو چلے گئے۔

’شناخت پراجیکٹ‘: ’لاوارث‘ میتوں کو اُن کے اپنوں تک کیسے پہنچایا جا رہا ہے؟ہزاروں لاوارث لاشوں کو دفنانے والا ’چاچا‘ شریف

نسرین بی بی کہتی ہیں وہ اور ان کے خاوند اس دن کے بعد سے ہر ایک دن عمیر کی تلاش میں نکلتے ہیں۔

’میں نے کوئی تھانہ نہیں چھوڑا، کوئی ہسپتال نہیں چھوڑا، کوئی دربار نہیں چھوڑا۔ ہر علاقے میں گئی ہوں۔ حتی کہ فقیروں کی آبادیوں میں بھی گئی ہوں۔ لیکن عمیر کی خبر نہیں ملی۔‘

BBC’نہیں یہ میرا بیٹا نہیں‘

انتہائی بوجھل قدموں کے ساتھ وہ دونوں میاں بیوی ہر کچھ عرصہ بعد اکبر صفہ ویلفیئر سوسائٹی کے دفتر بھی جاتے ہیں۔ یہاں سے بھی انھیں عمیر کے بارے خبر مل سکتی ہے۔ لیکن شاید دل ہی دل میں نسرین بی بی چاہتی ہیں کہ ایسا نہ ہو۔

جب ملک اکبر انھیں اپنے پاس موجود دستاویزات پر موجود تصویریں دکھاتے ہیں تو ہر پلٹتے ورق اور دھڑکتے دل کے ساتھ وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی رہتی ہیں ’نہیں یہ میرا بیٹا نہیں۔‘ ان کے چہرے پر اطمینان اور تھکن کے ملے جلے تاثرات نظر آتے ہیں۔

ملک اکبر کے پاس موجود تصویروں میں کچھ قابل شناخت ہوتی ہیں، کچھ نہیں ہوتیں۔ جو لاشیں قابل شناخت نہیں ہوتیں ان کے ورثا کو تلاش کرنے کے لیے بائیو میٹرکس یعنی انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات کو استعمال کر کے نادرا کے ریکارڈ میں ان کا فیملی ٹری تلاش کیا جاتا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو ساڑھے پانچ سو سے قریب ان افراد کے ورثا کا سراغ کیوں نہیں مل پایا جنھیں گزشتہ برس لاوارثوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

ملک اکبر سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا تھا وہ زیادہ مستحکم نہیں تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ طریقہ کار مینوئل کام کرتا تھا۔

BBC

’پولیس کو جو لاش ملتی تھی کرائم سین پولیس اس کے بائیو میٹرکس لیتی تھی۔ پہلے ان کا کریمنل ریکارڈ چیک کیا جاتا تھا۔ اگر وہاں ان کا پتہ نہیں چلتا تھا تو پھر ڈاک کے ذریعے بائیومیٹرکس نادرا کو بھجوائے جاتے تھے، نادرا ڈاک کے ذریعے ہی ان کو اسلام آباد بھجواتا تھا۔‘

اس طرح وہ کہتے ہیں کہ اس عمل میں ایک سے ڈیڑھ ماہ گزر جاتا ہے۔ اتنے میں لاش کو امانتاً دفنا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی بہت کم لاشوں کے ورثا مل پاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس صرف چار یا پانچ خاندان ایسے تھے جو شناخت ہونے کے بعد امانتاً دفن اپنے پیاروں کے باقیات نکلوا کر اپنے علاقوں میں دفن کرنے کے لیے لے گئے۔

لگ بھگ چالیس نے شناخت ہونے کے بعد بھی باقیات نہیں نکالیں۔ ’کچھ نے وہیں قبروں پر کتبے لگا دیے جبکہ ان میں سے زیادہ تر بس آتے ہیں اور فاتحہ پڑھ کر چلے جاتے ہیں۔‘

یوں ساڑھے پانچ سو کے قریب لاوارث لاشیں ایسی ہیں جن کے ورثا امانتاً دفن ہونے کے بعد بھی مل نہیں پائے۔

ملک اکبر سمجھتے ہیں اگر یہ نظام آن لائن ہو تو نوے فیصد سے زیادہ لاشوں کے ورثا کا باآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ لاہور ہی میں فلاحی ادارہ ایدھی فاونڈیشن ایسا کر بھی رہا ہے۔

ایدھی فاونڈیشن کا بائیو میٹرکس نظامBBC

فلاحی ادارہ ایدھی فاونڈیشن لگ بھگ سنہ 2015 سے بائیومیٹرکس کی مدد سے کراچی جیسے میگا سٹی میں لاوارث لاشوں کو شناخت کرنے کا کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں انھیں بہت کامیابی ملی ہے۔

انھوں نے سنہ 2023 میں لاہور میں بھی اس کام کا آغاز کیا تھا۔ مینوئل نظام کے مقابلے ان کا نظام آن لائن ہے۔ انھیں مرنے والے کا فیملی ٹری 24 گھنٹے میں موصول ہو جاتا ہے۔ اس میں اس کے لواحقیں کے رابطہ نمبر بھی موجود ہوتے ہیں۔

لاہور میں ایدھی فاونڈیشن کے انچارج فیصل جلال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں جب کسی نامعلوم لاش کی خبر ملتی ہے تو پولیس کی موجودگی میں ان کی گاڑی اس کو سرکاری مردہ خانے منتقل کرتی ہے جہاں وہ اس کا بائیو میٹرکس حاصل کر لیتے ہیں۔

ان بائیو میٹرکس کو کراچی میں موجود سی پی ایل سی یعنی سیٹیزن پولیس لیزوں کمیٹی کے سسٹم میں ڈالا جاتا ہے۔ سی پی ایل سی کا ایدھی فاونڈیشن کے ساتھ معاہدہ ہے جو نادرا کے ریکارڈ کی مدد سے ان بائیو میٹرکس کا فیملی ٹری پتہ کرتے ہیں۔

’یوں 24 گھنٹوں میں ہمارے پاس اس شخص کے خاندان کے نام، پتہ اور راطبہ نمبر وغیرہ آ جاتے ہیں۔ یہ ہم پولیس کو بھی مہیا کر دیتے ہیں اور خود بھی رابطہ کر کے ان کو اطلاع دے دیتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ گزشتہ برس انھیں ساڑھے پانچ سو کے قریب نامعلوم لاشیں لاہور کے مختلف علاقوں سے ملی تھیں جن میں سے 350 کے قریب کے ورثا کو تلاش کر لیا گیا۔

’کچھ لوگوں نے کبھی اپنا شناختی کارڈ بنوایا ہی نہیں ہوتا‘ BBCلاوارث افراد کی قبریں

لاہور میں پولیس کا سٹی سرکل ہو علاقہ ہے جہاں سے پولیس کو سب سے زیادہ لاوارث لاشیں ملتی ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سٹی سرکل قاضی علی رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ان ے علاقے میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں سے لاوارث لاشیں ملتی ہیں جیسا کہ داتا دربار، لاری اڈا وغیرہ۔

وہ کہتے ہیں کہ بائیو میٹرکس سسٹم ایک موثر نظام ہے جس کے ذریعے پولیس لاوارث لاشوں کے لواحقین کو تلاش کرتی رہی ہے۔ تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نظام ماضی قریب تک زیادہ مستعدی سے کام نہیں کر رہا تھا۔

’ابھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ نظام زیادہ پختگی سے کام نہیں کر رہا تھا۔ پہلے فلاحی ادارے ایدھی فاونڈیشن کے پاس نادرا کے ڈیٹا تک رسائی تھی۔ لیکن اب سیف سٹی اتھارٹی نے اس کی رسائی لے لی ہے اور اب یہ نظام انتہائی مستعدی سے کام کر رہا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اب نئے نظام کے تحت وہ 24 گھنٹے کے اندر لاش کے بائیو میٹرکس لے کر سیف سٹی کو بھجوا دیتے ہیں جو 24 گھنٹے میں مرنے والے کا فیملی ٹری تلاش کر لیتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ شرط یہ ہے کہ نادرا کے ڈیٹا میں ان کے بائیومیٹرکس کا ریکارڈ موجود ہو۔ ’کچھ لوگوں نے زندگی میں کبھی بھی شناختی کارڈ بنوایا ہی نہیں ہوتا یا کچھ لوگوں کے بائیومیٹرکس نادرا کے ڈیٹا میں موجود ہی نہیں ہوتے۔‘

ایس پی سٹی لاہور قاضی علی رضا نے بتایا کہ ان کو ملنے والی لاشوں میں ایک بڑی تعداد نشے کے عادی لوگوں کی ہوتی ہے۔ ان کے انگلیوں اور انگوٹھوں نے نشانات بُری طرح مسخ ہو چکے ہوتے ہیں۔

اسی طرح بہت سی لاشیں انھیں ایسی ملتی ہیں جو کسی حادثے یا کرائم کا شکار ہو کر اس بُری طرح مسخ ہو چکی ہوتی ہیں کہ ان کے بائیومیٹرکس حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح نادرا کے ڈیٹا کے ذریعے انھیں شناخت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ نئے آن لائن سسٹم کے آنے کے بعد زیادہ لاشوں کی شناخت اور ورثا تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔ تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا نسرین بی بی اور محمد اقبال کی طرح درجنوں خاندان ایسے ہیں جن کے دن رات اپنے پیاروں کی تلاش کے کرب میں گزر رہے ہیں۔

وہ دونوں آج بھی عمیر کی تصویر اٹھائے درباروں، لاری اڈوں اور مردہ خانوں میں اپنے بیٹے کو تلاش کی کوشش کر رہے ہیں۔

’شناخت پراجیکٹ‘: ’لاوارث‘ میتوں کو اُن کے اپنوں تک کیسے پہنچایا جا رہا ہے؟ہزاروں لاوارث لاشوں کو دفنانے والا ’چاچا‘ شریف’سو میں سے پانچ کی مشکل سے شناخت ہوتی ہے‘دو دن میں 261 لاوارث لاشیں دفن کیں: ایدھی فاؤنڈیشن ایک ہزار لاشیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More