بلوچستان میں رمضان سے قبل پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی کی وجہ کیا ہے؟

اردو نیوز  |  Mar 01, 2025

پاکستان بھر میں عموماً رمضان سے قبل پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں یکدم اضافہ ہو جاتا ہے تاہم بلوچستان میں اس برس روایت کے برعکس ہوا ہے۔

سبزیوں کی قیمتیں گرنے سے جہاں شہری خوش ہیں وہیں زمیندار پریشان ہیں۔

آل بلوچستان ویجٹیبلز اینڈ فروٹس کمیشن ایجنٹس کے سیکریٹری جنرل علی شیر بنگلزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں کمی کی وجہ طلب کے مقابلے میں رسد میں اضافے کے ساتھ ساتھ آئے روز سڑکوں کی بندش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جو ٹماٹر گذشتہ برس 200 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہا تھا اب اس کی قیمت سبزی منڈی میں 20 روپے فی کلو سے زائد نہیں۔

تاہم شہر کے اندر قائم چھوٹی سبزی منڈیوں، دکانوں اور ریڑھیوں میں ٹماٹر کوالٹی کے حساب سے 20 روپے سے لے کر 50 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

آلو اور پیاز بھی 50 سے 60 روپے فی کلو میں مل رہے ہیں۔ کدو اور گھوبی کا نرخ 30 روپے سے 50 روپے فی کلو ہے۔ مٹر 100 روپے جبکہ بھنڈی 150 روپے فی کلو مل مل رہی ہے۔

محکمہ شماریات کے ایک عہدے دار محمد رفیق کے مطابق گذشتہ برس کی نسبت اس سال کوئٹہ میں رمضان سے قبل سبزیوں کی قیمتیں بہت کم ہیں۔

اس حوالے سے علی شیر بنگلزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور ملک کے گرم علاقوں میں اس بار سبزیوں کی وافر پیداوار ہوئی ہے۔ کوئٹہ ہی نہیں ملک کے باقی شہروں میں بھی سبزیوں کی قیمتیں گری ہوئی ہیں۔

علی شیر بنگلزئی کے مطابق قیمتوں میں کمی کی وجہ طلب کے مقابلے میں رسد میں اضافے کے ساتھ ساتھ آئے روز سڑکوں کی بندش ہے۔ (فوٹو: یوسف مری)انہوں نے بتایا کہ ’ایک تو ملک کے دیگر شہروں کی منڈیوں میں ان دنوں اچھے نرخ نہیں مل رہے اور پھر بلوچستان میں آئے روز احتجاج کی وجہ سے سڑکوں کی بندش کے ڈر سے لوگ مال شہر اور صوبے سے باہر بھیجنے کا رسک نہیں لیتے۔‘

’پھل اور سبزیاں جلدی خراب ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات سڑکیں تین تین چار چار دن تک بھی بند رہتی ہیں۔ لوگوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو جاتا ہے اس لیے بیوپاری کم ریٹس پر ہی مقامی مارکیٹ میں مال فروخت کر رہے ہیں۔‘

آل بلوچستان ویجٹیبلز اینڈ فروٹس کمیشن ایجنٹس کے سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ ٹماٹر کاشت کرنے والوں نے تو کھیتوں میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے کیونکہ نرخ اتنے گرے ہوئے ہیں کہ مال منڈی تک پہنچانے کا خرچہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More