ٹرمپ زیلنسکی تکرار کے بعد یورپی ممالک کی یوکرینی صدر کی حمایت لیکن پھر بھی امریکہ سے عسکری امداد کی خواہش کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 01, 2025

Getty Images

ڈونلڈ ٹرمپ کو بظاہر اپنے جرنیلوں کی نسبت برطانیہ کی افواج کی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد ہے یا شاید برطانیہ کی ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں سے بھی زیادہ۔

جب برطانوی وزیرِ اعظم کے ساتھ ہونے والی نیوز کانفرنس کے دوران یوکرین کے لیے امریکی سکیورٹی گارنٹیوں کے بارے میں ان سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کے پاس بہترین فوجی ہیں، ان کے پاس عظیم فوج ہے اور وہ اپنا خیال خود رکھ سکتے ہیں۔‘

تاہم امریکی صدر نے اس سوال کا فی الحال جواب نہیں دیا کہ آیا برطانوی فوج روس کا مقابلہ کر سکتی ہے ہیں یا نہیں۔

عوامی سطح پر امریکہ کے سنیئر ملٹری افسران برطانوی فوج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے گُن گاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن نجی طور پر وہ برطانوی فوج کی تعداد میں حالیہ کمی پر شدید تنقید کرتے ہیں جو اب صرف 70 ہزار فوجیوں تک محدود ہو گئی ہے۔

ایک سینیئر امریکی جنرل نے برطانیہ کے دورے کے دوران ایک نجی بریفنگ میں اس تعداد کو ’بہت کم‘ قرار دیا۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق روس کا دفاعی بجٹ پورے یورپ کے کل دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ روس کا دفاعی بجٹ اب بڑھ کر 41 فیصد ہو چکا ہے اور یہ اس کا جی ڈی پی کا 6.7 فیصد ہے۔ اس کے برعکس برطانیہ دفاع پر سنہ 2027 تک صرف ڈھائی فیصد خرچ کرے گا۔

صدر ٹرمپ کا یہ تبصرہ دراصل اس سوچ کو تقویت دیتا ہے کہ وہ امریکی فوجیوں کو یوکرین میں جنگ بندی کے معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے نہیں بھیجنا چاہتے۔ اگر امریکہ وہاں جاتا بھی ہے تو ایسا وہ صرف اپنے معاشی مفاد کے لیے کرے گا یعنی قیمتی دھاتوں کی کان کنی کے لیے۔

ٹرمپ کا ماننا ہے کہ یہ بھی روس کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکنے کے لیے کافی ہو گا تاہم ان کی انتظامیہ میں بھی یہ سوچ موجود ہے کہ یہاں عسکری طاقت کی بھی ضرورت ہو گی جو دیگر ممالک کی جانب سے دی جانی چاہیے۔

ان کے مطابق یہ یورپی ممالک کو فراہم کرنی چاہیے لیکن سوال صرف یہ نہیں ہے کہ کیا یورپ کا ارادہ بھی ہے یا نہیں بلکہ یہ کہ کیا ان کے پاس اعداد و شمار بھی ہیں یا نہیں۔

اس کا مختصر جواب ہے ’نہیں‘۔

یہی وجہ ہے کہ برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر سٹارمر دنیا کی سب سے طاقتور فوج سے اضافی سکیورٹی گارنٹیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

EPA

جمعے کو واشنگٹن ڈی سی میں صدر ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات گرما گرم بحث میں بدل گئی جہاں زیلنسکی نے اس معاہدے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے جس پر امریکہ نے روس کے ساتھ جنگ بندی کے لیے بات چیت کی اور کہا کہ وہ اس ضمن میں’ضمانت‘ چاہتے ہیں۔

ٹرمپ نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے ان پر ’تیسری عالمی جنگ سے کھیلنے‘ کا الزام دیا۔

اس تکرار کے بعد کئی یورپی رہنماؤں نے زیلنسکی کی حمایت کی ہے۔ فرانسیسی صدر میخواں نے کہا ’میں ان لوگوں کا احترام کرنا چاہیے جو شروع سے لڑ رہے ہیں‘ جبکہ سپین، ناروے اور پولینڈ کے وزرائے اعظم نے بھی یوکرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

ایک جانب یورپی ممالک روس کے خلاف عسکری امداد کے لیے امریکہ کی جانب دیکھ رہے ہیں تو دوسری جانب یہی ممالک ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان غیر معمولی مکالمے کے بعد زیلنسکی کا ساتھ دیتے دکھائی دے رہے ہیں تو کیا یورپی ممالک جانتے ہیں کہ یوکرین میں امریکہ کی عسکری موجود کے بغیر روس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں؟

یوکرین جنگ: سعودی عرب میں امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات، ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟پوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیایوکرین کے صدر روس کے خلاف ’یورپ کی فوج‘ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟روس کی جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نئی پالیسی میں خاص کیا ہے؟

برطانیہ وہ واحد ملک نہیں ہے جس نے سرد جنگ کے اختتام کے بعد اپنی افواج میں کمی لائی ہے۔ یہ ٹرینڈ یورپ بھر میں دیکھا گیا تاہم اب یورپی ممالک کی جانب سے آہستہ آہستہ دوبارہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

تاہم یورپ اکیلا ہی ایک سے دو لاکھ بین الاقوامی افواج فراہم نہیں کر پائے گا جو یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کے مطابق روس کو دوبارہ حملے سے روکنے کے لیے ضروری ہیں۔

اس کے برعکس مغربی حکام کا کہنا ہے کہ وہ 30 ہزاروں فوجیوں کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک کے طیارے اور جنگی بحری جہاز یوکرین کی فضائی اور سمندری حدود کی نگرانی کر سکیں گے۔

یہ فوجی اہم مقامات پر حفاظت فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ یوکرین کے شہر، بندرگاہیں اور جوہری پاورپلانٹس ان اہم مقامات میں شامل ہیں۔ تاہم انھیں مشرقی یوکرین میں جہاں اس وقت جنگ جاری ہے، تعینات نہیں کیا جائے گا۔

تاہم یہی مغربی سیاست دان اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہو گا اور انھیں امریکہ کی جانب سے ’بیک سٹاپ‘ یا دفاعی مدد کی ضرورت ہو گی۔ ان کے مطابق یہ اس لیے کہ ’یہ اعتماد ہو کہ جو بھی فورسز تعینات کی جاتی ہیں انھیں روسی جارحیت کا سامنا نہیں ہو گا اور یہ کہ برطانوی وزیرِ اعظم کو بھی حوصلہ مل جائے گا کہ وہ برطانی افواج کو وہاں تعینات کر سکتے ہیں۔‘

حکام کا ماننا ہے کہ کم از کم امریکہ کو یورپی فورسز کی حکمتِ عملی میں مشاورت ’کمانڈ اینڈ کنٹرول‘ میں حمایت کے لیے وہاں موجود ہونا چاہیے اور امریکی جنگی طیاروں کو پولینڈ اور رومانیہ کے فضائی اڈوں سے ردِ عمل دینے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

Reuters

یورپی ممالک امریکہ کے پاس موجود خلا میں موجود سیٹیلائٹس کے ذریعے خفیہ نگرانی یا انٹیلیجنس اکٹھی کرنے کی صلاحیتوں کے قریب نہیں پہنچ سکتے۔

امریکہ یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کا عمل بھی جاری رکھ سکتا ہے۔

یوکرین کو اسلحے کی فراہمی میں یورپ اب امریکہ سے آگے ہے جبکہ ایک مغربی ذرائع کے مطابق امریکہ نے ’کریم‘ فراہم کر دی ہے یعنی سب سے اہم ترین اسلحہ جس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ایئرڈیفنس نظام۔

یورپی ممالک کے پاس بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے یوکرین کو اسلحے کی فراہمی بھی امریکی لاجسٹک امداد کے بعد ہی پوری ہو سکی تھی۔

جب نیٹو نے سنہ 2011 میں لیبیا پر حملہ کیا تو اس میں بھی یورپی ممالک کی کمزوری نظر آئی تھی کیونکہ تب بھی یورپی ممالک کی افواج نے اس حملے کا چارج لیا تھا لیکن وہ پھر بھی امریکہ امداد پر انحصار کر رہے تھے۔ اتحادی فوجوں کا امریکہ کی جانب سے ٹینکر ری فیول کرنے اور امریکی ٹارگیٹنگ پر انحصار تھا۔

Getty Images

تاہم سر کیئر سٹارمر واشنگٹن سے بغیر کسی امریکی عسکری گارنٹی کے بغیر نکل آئے ہیں۔ امریکی ہیلتھ سیکریٹری ویس سٹریٹنگ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ یقین دہانی بھی کافی ہو گی کہ اگر ایک اتحادی پر حملہ ہوا تو اسے تمام اتحادیوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔

تاہم امریکی ڈیفنس سیکریٹری پیٹ ہیگسیتھ ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ بین الاقوامی فوجیں اگر یوکرین جاتی ہیں تو یہ نہ تو کوئی نیٹو فورس ہو گی اور نہ ہی یہ کسی نیٹو معاہدے کی وجہ سے کیا جائے گا۔ اس وقت کوئی نیٹو سکیورٹی گارنٹی موجود نہیں ہے۔

یہ یورپ کے ارادوں کا امتحان ہے۔ برطانوی وزیرِ اعظم جو متعدد رہنماؤں کا اجلاس اس ویک اینڈ بلا رہے ہیں جلد ہی یہ سمجھ جائیں گے کہ ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے گرمجوشی سے دیے گئے بیانات برطانیہ کے ساتھ دیگر ممالک کو اپنی فوجیں یوکرین میں بھیجنے کے لیے کافی ہیں یا نہیں۔

فرانس واحد ایسی یورپی طاقت ہے جو بظاہر ایسا کرنے کے لیے تیار ہے۔ کچھ شمالی یورپی ممالک جن میں ڈنمارک، سویڈن اور بالٹک ریاستیں اس بارے میں سوچنے کے لیے تیار تو ہیں لیکن انھیں بھی امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی کی ضرورت ہے۔ سپین، اٹلی اور جرمنی فی الحال اس مؤقف کے خلاف ہیں۔

کیئر سٹارمر شاید اب بھی سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ہو سکتے ہیں اور یہ کہ امریکہ شاید اب بھی یورپی افواج کی حمایت کرے گا۔ لیکن جہاں تک بات ڈونلڈ ٹرمپ کے سوال کی ہے کہ کیا برطانوی فوج روسی فوج کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ حالانکہ روسی افواج قدرے کمزور ہو چکی ہیں تو اس کا جواب ہے ’نہیں‘۔

وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات تکرار میں کیسے بدل گئی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے؟پوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیںروس کی جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نئی پالیسی میں خاص کیا ہے؟یوکرین کے صدر روس کے خلاف ’یورپ کی فوج‘ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟پوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیایوکرین جنگ: سعودی عرب میں امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات، ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More