’مجھے لگا شاید میں غلط لاکر کھول رہا ہوں۔۔۔ لیکن جب مینیجر کو بلایا تو وہ بھی حیران رہ گیا اور تب مجھے یہ یقین آیا کہ میرا بکس ہی غائب ہو چکا ہے۔‘کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں ایک شہری کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ محض چوری کی ایک واردات نہیں بلکہ پاکستان میں بینکوں کی سکیورٹی پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔
متاثرہ شہری کے مطابق وہ گذشتہ 13 برس سے اسی بینک میں لاکر استعمال کر رہے تھے جس میں کروڑوں روپے مالیت کے زیورات، قیمتی گھڑیاں اور غیرملکی کرنسی رکھی گئی تھی مگر 19 فروری کو جب وہ بینک پہنچے تو ان کا پورا لاکر ہی غائب تھا۔6 فروری کو آخری بار لاکر استعمال کرنے والے شہری نے جب دوبارہ بینک کا رُخ کیا تو انہیں نہ صرف اپنا لاکر خالی ملا بلکہ چند گھنٹوں کی تلاشی کے بعد بینک کی فالز سیلنگ میں ان کے زیورات کے خالی پاؤچز بھی ملے۔اس حیران کن واردات نے واضح کر دیا کہ یہ کسی باہر کے شخص کی کارروائی نہیں بلکہ یہ بینک کے اندرونی عملے کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔اس واقعے کی ایف آئی آر درخشاں تھانے میں درج کی گئی اور اب یہ معاملہ ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک تک جا پہنچا ہے جب کہ پولیس کی تفتیش بھی جاری ہے۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ علی حسن کے مطابق ‘ابتدائی شواہد یہی بتاتے ہیں کہ واردات انتہائی چالاکی سے کی گئی ہے۔‘’پولیس واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔ بینک کے عملے سمیت دیگر متعلقہ افراد سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ کوشش ہے کہ واقعے میں ملوث افراد کو جلد سے جلد گرفتار کرلیا جائے۔‘یہ پہلا موقع نہیں کہ بینک لاکر سے قیمتی اشیا غائب ہوئی ہوں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جنہوں نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ جب بینک بھی محفوظ نہ رہیں تو پھر لوگ اپنی زندگی بھر کی کمائی کہاں رکھیں؟رواں سال کے پہلے ماہ میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں نیشنل بینک کی برانچ سے ڈاکوؤں نے 578 تولے سونا اور ایک کروڑ 78 لاکھ روپے کی نقدی چوری کی۔
’اکاؤنٹ الاٹ ہونے کے بعد بینک لاکر کی چابی صارف کے حوالے کر دیتا ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)
ڈاکو ویلڈنگ مشین سے گیٹ اور لاکر توڑ کر سونا اور نقد رقم لے گئے جبکہ الارم سسٹم نے کام نہیں کیا۔ تفتیش میں یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ اس واردات میں بھی بینک کے عملے کی ملی بھگت شامل ہو سکتی ہے۔اس سے قبل جون 2021 میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع ایک نجی بینک کی برانچ سے 250 تولے سونا، غیر ملکی کرنسی اور قیمتی زیورات چوری ہوئے۔ واردات میں 7 لاکرز توڑے گئے تھے۔مارچ 2019 میں کراچی کے خالد بن ولید روڈ پر ایک بینک لاکر سے 70 تولے سونا غائب ہو گیا اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ لاکر کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا تھا۔ان وارداتوں اور سکیورٹی خدشات کے باوجود ملک بھر میں ہزاروں افراد اس امید پر اپنے زیورات، نقدی، اہم دستاویزات اور قیمتی اشیا بینک لاکرز میں رکھتے ہیں کہ یہ سب سے محفوظ جگہ ہے۔پاکستانی بینکوں کے لاکرز کا نظام کیسے چلتا ہے؟سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے تمام بینکوں کو صارفین کی رقم اور اشیا کو محفوظ بنانے کے لیے سکیورٹی کے نظام کو بہتر سے بہتر کرنے کے واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ ایک نجی بینک سے کچھ عرصہ قبل ریٹائر ہونے والے ملازم محمد شفیق قریشی کے مطابق ’بینک لاکرز کھولنے کا مکمل طریقہ کار ہوتا ہے جس میں بینک چابی صارف کے حوالے کردیتا ہے اور اکاؤنٹ الاٹ ہونے کے بعد چابی اکاؤنٹ ہولڈر کے پاس ہوتی ہے۔‘
لاکر میں چوری ہو جائے تو بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اس میں رکھی گئی اشیا کا ثبوت کیسے دیا جائے (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
’بینک میں لاکر تک رسائی کے لیے شناختی تصدیق، دستخط کی جانچ اور بائیومیٹرک تک کے مراحل ہوتے ہیں، مگر پھر بھی وارداتیں ہو رہی ہیں، تو یہ آخر ممکن ہی کیسے ہے؟‘شفیق قریشی کے مطابق ’سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی چوری ہو رہی ہے تو اس میں بینک کے عملے کا براہِ راست ہاتھ ہوتا ہے ورنہ لاکرز توڑنا آسان نہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’چوریاں زیادہ تر ویک اینڈ پر ہوتی ہیں جب بینک بند ہوتے ہیں۔ عملہ اور سکیورٹی اہلکار اگر ملی بھگت کر لیں تو کئی گھنٹے تک لاکر رُوم میں بلارکاوٹ کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں تمام لاکرز کو نگرانی کے کسی مرکزی نظام سے نہیں جوڑا گیا۔ یعنی ہر برانچ خودمختار ہے، جس کا مطلب ہے کہ نگرانی کا دائرہ محدود ہے۔‘نقصان کی تلافی۔۔۔ مگر کیسے؟لاکرز میں رکھی گئی چیزوں کی فہرست بینک کو نہیں دی جاتی۔ اس لیے اگر چوری ہو جائے تو بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ثبوت کیسے دیا جائے کہ اندر کیا تھا اور کتنی مالیت کی اشیا چوری ہوئیں؟ناصر لطیف مالیاتی مقدمات کے وکیل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’بینک لاکر کے ساتھ ایک لازمی انشورنس تو ہوتی ہے، جو محدود رقم کی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے لاکر پر پانچ لاکھ روپے جبکہ بڑے لاکر پر 10 لاکھ روپے تک کی انشورنس ملتی ہے۔‘
چھوٹے لاکر پر پانچ لاکھ روپے جبکہ بڑے لاکر پر 10 لاکھ روپے تک کی انشورنس ملتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کا سامان اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے تو آپ کو اختیاری انشورنس کرانا پڑتی ہے، مگر اس کے لیے اپنی قیمتی اشیا کو ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اور یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کی وجہ سے عموماً لوگ یہ انشورنس نہیں کرواتے۔‘ناصر لطیف کہتے ہیں کہ ’سونا، ہیرے، ڈالر سب کچھ اگر ظاہر کریں گے تو پھر ٹیکس ریٹرنز میں بھی دکھانا پڑے گا اور لوگ اسی سے بچنے کے لیے تو یہ چُھپاتے ہیں۔‘قانونی چارہ جوئی کتنی مؤثر ہوتی ہے؟چوری کی صورت میں پہلا قدم پولیس میں رپورٹ درج کروانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ بینک سے انشورنس کے مطابق معاوضہ طلب کر سکتے ہیں۔اگر بینک انکار کرے تو سٹیٹ بینک کے صارف تحفظ یونٹ یا بینکنگ محتسب سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔بڑی رقم کے دعوے عدالت میں بھی جا سکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لاکر میں رکھی اشیا کے ثبوت دینا آسان نہیں ہوتا۔ناصر لطیف بتاتے ہیں کہ ’یہی وجہ ہے کہ اکثر متاثرہ افراد کو یا تو معمولی رقم پر اکتفا کرنا پڑتا ہے یا وہ طویل مقدمے بازی سے تنگ آ کر ہار مان لیتے ہیں۔‘اب عوام کیا کریں؟معاشی ماہرین کے مطابق اگر آپ واقعی قیمتی اشیا بینک لاکر میں رکھنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ انشورنس کا مکمل پلان لیں اور ہر چیز کی رسیدیں سنبھال کر رکھیں۔لاکرز میں رکھی جمع پونجی سے محروم ہونے والے متاثرین کا کہنا ہے کہ ’اعتماد بحال ہونا آسان نہیں۔ جس جگہ کو ہم سب سے زیادہ محفوظ سمجھ کر سامان رکھیں، اگر وہی جگہ غیر محفوظ ہو جائے تو پھر بچتا کیا ہے؟‘یہ سوال اب ہر اُس شخص کے ذہن میں ہے جس کے پاس بینک لاکر ہے یا وہ بینک لاکر میں اپنا قیمتی سامان رکھنے کا سوچ رہا ہے۔