BBCکرس (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک ہم جنس پرست کے طور پر جوان ہوئے
جنسی تعلقات قائم کرنے سے قبل غیرقانونی اور نشہ آور منشیات استعمال کرنے کی لت میں مبتلا ہو جانے والے ایک شخص نے بتایا ہے کہ کس طرح سیکس سے قبل منشیات کی اِس لت نے انھیں زندہ لاش بنا دیا تھا اور کیسے ان کی زندگی بتدریج تباہ ہوئی۔
کرس (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک ہم جنس پرست کے طور پر جوان ہوئے اور اس سب سے نکلنے اور اپنے اندر موجود احساسِ ندامت پر پردہ ڈالنے کے لیے انھوں نے ’کیم سیکس‘ کا سہارا لیا۔ (کیم سیکس دراصل کیمیائی سیکس کا مخفف ہے جس کے تحت جنسی تعلق قائم کرنے سے پہلے لذت کو بڑھانے کے لیے کوئی کیمیائی مادہ یا منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔)
’کیم سیکس‘ کی لت میں عموماً ہم جنس پرست مرد مبتلا ہوتے ہیں جو سیکس کی لذت بڑھانے کی غرض سے جنسی تعلق قائم کرنے سے قبل کرسٹل میتھ، میتھڈرون اور جی ایچ بی/جی بی ایل جیسے نشوں کا استعمال کرتے ہیں۔
لندن سے تعلق رکھنے والے اس شخص کا کہنا تھا کہ ’کیم سیکس‘ کا عادی ہونے کے بعد انھیں اپنی کمیونٹی اور اس صورتحال سے لوگوں کو نکالنے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے تکلیف دہ خاموشی کا سامنا کرنا پڑا یعنی اُن کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو معاشرے میں جس قسم کی مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے نمٹنے کے لیے انھیں انتہائی کم سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ’کیم سیکس‘ سے ہونے والے نقصانات سے باخبر ہیں اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں بھی ہیں اور اُن کی رہنمائی کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
کرس کے مطابق اس پورے معاملے کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب ایک پارٹی کے دوران انھیں منشیات استعمال کرنے کی پیشکش کی گئی، اور اس کے چند ماہ بعد اُن کی حالت یہ تھی کہ وہ خود ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوتے تھے جو انھیں یہ منشیات فراہم کر سکیں۔
انھوں نے کہا کہ اس منشیات کے استعمال کا پہلے پہل اثر تو یہ ہوا کہ اس نے ’ہم جنس پرست ہونے اور اس کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہونے والے احساسِ شرمندگی اور جرم کو دور کر دیا۔ اس سب کے بعد ایک خوشگوار آزادی کا احساس ہونے لگا۔‘
تاہم اُن کے مطابق یہ سب جلد ہی بدل گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی اس کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ لوگ اس بارے میں کُچھ بھی کہتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ مگر سب بند دروازوں کے پیچھے اس بارے میں بات کرتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں اس بارے میں کوئی کُچھ نہیں کہہ پاتا۔ یہ بہت خفیہ اور پوشیدہ ہے۔‘
’خوف سے فرار‘BBCاگناسیو لبین ڈی انزا: لوگ کیم سیکس کے بارے میں بات کریں تاکہ اس حوالے سے کوششوں کو تیز کیا جا سکے
کرس نے کہا کہ نشے کے بےتحاشہ استعمال کے بعد اُن کے دوستوں نے انھیں بتایا کہ وہ تقریباً ’زومبی‘ یعنی زندہ لاش بن چُکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آہستہ آہستہ آپ کی زندگی تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہے کیوںکہ آپ ہفتے کے آغاز سے ہی یعنی پیر کے روز ہی اس لت کی وجہ سے اکثر غائب رہنے لگتے ہیں۔ ملازمت پر نہیں پہنچ پانے اور توجہ نہ دینے کی وجہ سے آپ کا کام غیر معیاری ہوتا جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہفتے کے ابتدائی ایام میں یعنی پیر سے لے کر بدھ تک آپ سُست انداز میں آغاز کرتے ہیں اور کُچھ زیادہ نہیں کر پاتے۔ معاملہ ابھی سنبھلنے کو نہیں آتا کہ جمعہ کے روز سے سب کچھ پھر شروع ہو جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کو کھانا ہے، سونا ہے، آپ کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنا ہے مگر دراصل آپ کر کیا رہے ہیں؟ آپ بس اس بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ آخر اب اگلی بار کب وہ وقت آئے گا کہ آپ منشیات کا استعمال کر سکیں۔‘
کیم سیکس: ’جنسی لذت کے لیے آئس کا نشہ کرنے سے لطف تو دوبالا ہوا لیکن ہم تیزی سے کمزور پڑنے لگے‘خواتین میں نشے کا رجحان: ’لڑکیوں کو بوائے فرینڈ اور پارٹنر نشے کی طرف راغب کرتے ہیں‘’جورڈن گینگ‘: لاہور پولیس نے منشیات ’چاکلیٹ میں ملا کر‘ بیچنے والے گروہ کو کیسے پکڑا؟افغانستان کو پیچھے چھوڑ کر میانمار افیون کی پیداوار میں ’نمبر ون‘ کیسے بنا؟
اس انسانی رویے کے حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ کچھ ہم جنس پرست مردوں میں ’کیم سیکس‘ کی جانب راغب ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس بارے میں یا اس سے نجات کے لیے کسی سے مدد نہیں مانگ رہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جس کی انھیں اشد ضرورت ہے۔
لندن میں قائم خیراتی ادارے ’کنٹرولنگ کیم سیکس‘ کے چیف ایگزیکٹیو اگناسیو لبین ڈی انزا نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ کیم سیکس کے بارے میں بات کریں تاکہ انھیں اس مُشکل سے نکالنے کی کوشش کی جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ ’کیم سیکس تک تو سب کو رسائیحاصل ہے مگر اس کے مضر اثرات اور اس کے نقصانات سے متعلق آپ کو بتانے والوں کی تعداد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نہ صرف حکومت بلکہ اس معاملے میں تو کوئی بھی کُچھ بھی نہیں کر رہا۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہوتا رہے گا، لیکن لوگ اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ وہ حدود کا تعین کرتے ہوئے محفوظ رہ پائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ ایک بدنامی جڑی ہوئی ہے کیونکہ ہم سیکس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ہم ہم جنس پرستوں کے جنسی تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ہم منشیات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘
BBC’کنٹرولنگ کیم سیکس‘ نامی تنظیم سے منسلک فلپ ہرڈ 12 سال قبل تک خود بھی کیم سیکس کا شکار تھے
’کنٹرولنگ کیم سیکس‘ کے ماہر مشیر فلپ ہرڈ 12 سال قبل تک خود بھی کیم سیکس کا شکار تھے اور اُن کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات کا احساس کرنے میں خاصا وقت لگا تھا کہ اب وہ موت کے قریب پہنچ چُکے ہیں اور یہ کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انھیں اپنے آپ کو روکنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ جرائم ’کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور آپ ایسے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جو خطرناک ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اور پھر میں نے منشیات کا اس قدر استعمال کر لیا کہ قریب تھا کہ میں موت کو گلے لگا لیتا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ اس سب کے باوجود میں زندہ بچ گیا۔ یہی وہ وقت تھا کہ میں نے سوچا کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ میں مر جاؤں گا۔‘
فلپ ہرڈ جو لندن میں رہتے ہیں اور اب کنٹرولنگ کیم سیکس میں بطور رضاکار شامل ہیں، اپنے ذاتی تجربے کو دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اچھی نفسیات اور سماجیات کی مہارت رکھنے والے شخص کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کیم سیکس سے باہر آنے والے کسی شخص کی مدد کر سکے۔‘
BBC
اوپینیم ریسرچ کی جانب سے 2000 افراد پر کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ سروے میں شامل 76 فیصد افراد کیم سیکس سے واقف نہیں تھے یا وہ اس بارے میں کُچھ نہیں جانتے تھے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہم جنس پرستوں یا ہم جنس پرستوں کی شناخت کرنے والوں میں سے صرف ایک تہائی سے زیادہ افراد کیم سیکس کے خطرات سے واقف نہیں تھے۔
پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی کی لیکچرر ویرونیکا کیروتھرز جنوبی انگلینڈ میں ایسے افراد کو دستیاب سپورٹ کا جائزہ لے رہی ہیں اور انھیں معلوم ہوا ہے کہ یہ اب بھی ’بہت محدود‘ اور ’پیچیدہ‘ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم اسے پوسٹ کوڈ لاٹری سمجھتے ہیں۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ ’کچھ لوگوں کو صحیح راستے یا اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے دستیاب خدمات یعنی سپورٹ سسٹم کا پتہ نہیں تھا۔‘
BBCویرونیکا کیروتھرز کیم سیکس کی لت میں مبتلا افراد کو دستیاب سپورٹ کا جائزہ لیتی ہیں
انھوں نے کہا کہ ’خاص طور پر اگر ہم اسے منشیات کی مشاورت کی خدمات اور جنسی صحت کے مراکز کی تقسیم کے تناسب میں دیکھتے ہیں جبکہ جنسی صحت کے کلینکس کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘
اُن کے مطابق ’منشیات کے استعمال اور اس کے مضر اثرات سے متعلق مشاورت کی خدمات کے سلسلے میں اکثر ہمارے پاس ریکوری ورکرز ہوتے ہیں جنھوں نے خود کبھی کیم سیکس کے بارے میں کبھی نہیں سنا ہوتا۔ اسی وجہ سے وہ کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘
یہی وہ وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں متاثرہ افراد مدد یا حمایت طلب نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
محکمہ صحت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ مقامی حکام کو رہنمائی جاری کرنے کے علاوہ، اس ضمن میں رکھے گئے بجٹ میں تقریباً 200 ملین پاؤنڈ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’مقامی حکام منشیات اور شراب کے علاج اور بازیابی کے اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے اس بجٹ کا استعمال کر سکتے ہیں بشمول کیم سیکس میں ملوث افراد کے علاج کے لیے۔‘
کیم سیکس: ’جنسی لذت کے لیے آئس کا نشہ کرنے سے لطف تو دوبالا ہوا لیکن ہم تیزی سے کمزور پڑنے لگے‘’جورڈن گینگ‘: لاہور پولیس نے منشیات ’چاکلیٹ میں ملا کر‘ بیچنے والے گروہ کو کیسے پکڑا؟افغانستان کو پیچھے چھوڑ کر میانمار افیون کی پیداوار میں ’نمبر ون‘ کیسے بنا؟خواتین میں نشے کی لت: ’نشہ چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، لوگ محسوس کرتے ہیں وہ عادی نہیں ہوں گے لیکن وہ پھنس جاتے ہیں‘ کشمیر میں منشیات کی لت: ’والدین کی طرف سے تحفے میں دی گئی گاڑی بھی بیچ دی‘آئس کے نشے کے اثرات: ’دو لوگ بات کرتے تھے تو مجھے لگتا تھا مجھے مارنے کا پلان بنا رہے ہیں‘