اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈین ٹیم اس وقت بہت اچھی فارم میں ہے اور یہ ایک مضبوط بیلنس سائیڈ ہے جس میں تجربہ کار سینیئر کھلاڑیوں کےساتھ نسبتاً جوان العمر ٹیلنٹیڈ کھلاڑی موجود ہیں۔ اگلے روز شمبھن گل نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے بہتر بیٹنگ لائن اپ کے ساتھ نہیں کھیلے۔ ان کی بات درست ہے۔ خود شبھمن گل، روہت شرما، ویراٹ کوہلی، شریاس آئیر، اکثر پٹیل، کے ایل راہول، ہاردک پانڈیا ، رویندرجدیجہ۔ ایک سے آٹھ نمبر تک بہترین بلے باز جو پہلے کھیلتے ہوئے بڑا ٹارگٹ سیٹ کر سکتے ہیں، اور بڑے ہدف کا تعاقب آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ انڈیا کے چیمپین بننے اور ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے میں دبئی کی سپن فرینڈلی پچ اور انڈیا کے کوالٹی سپن اٹیک کا بڑا اہم کردار ہے۔ درحقیقت یہ چاروں انڈین سپنرز ہی ہیں جنہوں نے پچھلے تین میچوں میں اپنی مخالف بیٹنگ لائن کو زچ کر کے رکھ دیا۔
کلدیپ، ورن چکرورتی، اکشر پٹیل اور جدیجہ کی عمدہ بولنگ اور ان کے ہنر میں کسی کو شک نہیں، لیکن اگر انڈیا اپنے میچز دبئی میں نہ کھیلتا تو اس کا سپن اٹیک اتنا موثر ثابت نہ ہوتا۔
دبئی میں انڈیا کے تمام میچز ایسی پچوں پر کھیلے گئے جہاں گیند بلے پر ٹھیک سے نہیں آتا تھا، سپنرز کو مدد ملتی تھی اور گیند خاصا ٹرن ہو رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کے پانچوں میچز میں سے کسی ایک میں بھی ڈھائی سو سے زیادہ رنز بنانا مشکل ہوگیا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ فائنل جس پچ پر کھیلا گیا، اسے زیادہ بہتر اور بیٹنگ فرینڈلی ہونا چاہیے تھا۔ جہاں پر ہائی سکورنگ میچز ہوتے۔ پاکستان میں اس کے الٹ بڑی اچھی بیٹنگ پچیں تھیں، جہاں گیند بلے پر ٹھیک سے آ رہا تھا، آوٹ فیلڈ بھی تیز تھی، اس لیے اکشر میچ میں بڑے سکور بنے جبکہ تین سو پلس تو کئی میچز میں ہوا۔ دو تین میچز ساڑھے تین سو تک بھی چلے گئے۔ اگر انڈیا پاکستانی پچوں پر کھیلتا تو انہیں لازمی طور پر تین فاسٹ بولرز کے ساتھ کھیلنا پڑتا اور ان کے سپنرز اتنے کفایت شعار اور خطرناک نہ رہتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کی ٹیم میں بھی جارحانہ کھیلنے والے بلے باز ہیں اور یہ بھی اچھا لمبا سکور کر سکتے تھے، مگر پھر ان کی بولنگ کی بھی پٹائی ہوتی اور مخالف ٹیم بھی لمبا سکور کرتی۔ جو ایڈوانٹیج دبئی کی پچوں پر انڈیا نے چار سپنر کھلا کر حاصل کیا، وہ پاکستانی پچوں پر ہرگز ممکن نہیں تھا۔
اتوار کی شام میچ اس لحاظ سے دلچسپ رہا کہ انڈین کپتان روہت شرما ایک بار پھر ٹاس ہار گئے۔ روہت شرما نے ٹآس ہارنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ انڈیا مسلسل پندرہ ون ڈے میچوں میں ٹاس ہار گیا ہے جبکہ روہت شرما بطور کپتنا 12 ٹاس ہار چکے ہیں۔ 12 سال قبل نیدر لینڈ کی ٹیم مسلسل گیارہ ٹاس ہار گئی تھی، تاہم روہت شرما نے اپنے سے آگے کسی کو نہیں نکلنے دیا۔ یہ البتہ دلچسپ ہے کہ پچھلے چودہ میں سے نو میچ یہ ٹاس ہار کر بھی جیت گئے اور صرف پانچ ہارے ، فائنل ملا کر دس میچ جیت گئے۔
دبئی میں انڈیا کے تمام میچز ایسی پچوں پر کھیلے گئے جہاں گیند بلے پر ٹھیک سے نہیں آتا تھا، سپنرز کو مدد ملتی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ نیوزی لینڈ کو بڑا دھچکا میچ سے پہلے پہنچ گیا تھا جب ان کے مین فاسٹ باولر میٹ ہنری انجری کے باعث میچ نہیں کھیل پائے، ہنری اس ٹورنامنٹ کے اب تک سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔ ہنری کا نہ کھیلنا نیوزی لینڈ کے لئے بڑا ڈس ایڈوانٹیج تھا۔ رچن رویندر اور ول ینگ نے اوپننگ کی اور اچھا تیز سٹارٹ دیا۔ رویندر نے جارحانہ سٹروک کھیلے اور پانڈیا کے ایک اوور میں سولہ رنز بنائے۔ ففٹی ساتویں اوور میں بن گئی۔ پہلے چھ اوورز میں جیسا کھیل پیش گیا، اس کے بعد روہت شرما کو اپنے سپنرز پہلے لانے پڑے۔ مسٹری سپنر ورن چکرورتی نے آتے ہی ول ینگ کواپنی خوبصورت گگلی پر ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ پھر رویندر اور ولیمسن کی پارٹنر شپ بنی۔ پھر کلدیب پادو نے اپنا جادو دکھانا شروع کیا۔ کلدیپ کی ایک گیند پر ولیمسن کاٹ اینڈ بولڈ ہوگئے، کچھ دیر بعد رویندر بھی کلدیپ کی گھومتی گیند کو بیک فٹ پر کھیلنے گئے اور بولڈ ہوگئے۔ رویندر یہ سبق بھول گئے کہ لیگ سپنر کو بیک فٹ پر کھیلنا خطرناک ہوتا ہے۔
اس کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم ایسے دباؤ میں آئی کہ گویا کھیلنا ہی بھول گئی۔ چاروں انڈین سپنرز نے انہیں باندھ کر رکھ دیا اور رنز بالکل نہیں بنانے دیے۔ ڈیرل مچلز جو تیز کھیلنے کی شہرت رکھتے ہیں، آج انہوں نے اپنے کیریئر کی سست ترین نصف سنچری بنائی بلکہ یہ ون ڈے میں کسی بھی کیوی مڈل آرڈر بلے باز کی سب سے سست ففٹی تھی۔
انڈین سپن بولنگ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اوور نمبر گیارہ سے چالیس تک میچ کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں کر لیا۔ حال یہ رہا کہ چودھویں اوور سے ستائیسویں اوور تک ایک چوکا بھی نہیں لگ سکا۔ گیند سپن بھی ہو رہا تھا اور گرپ بھی کر رہا تھا، مگر انڈین سپنرز کی اصل کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے وکٹ ٹو وکٹ باولنگ کرائی۔ رنز رکے اور وکٹیں بھی گرتی رہیں۔ آخری دس اوورز میں نیوزی لینڈ نے کچھ مزاحمت کی، مچلز تیز کھیلنے کے چکر میں آؤٹ ہوگئے، فلپس بھی جلد ہمت ہار گئے، مگر بریسویل نے بڑی عمدہ بیٹنگ کی اور شاندار چھکے لگائے، بریسویل کی چالیس گیندوں پر ترپن رنز کی اننگ نے کیوی ٹیم کا بھرم رکھا اور وہ ڈھائی سورنز کا بیریر عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میچ کے آخری پانچ اوورز میں پچاس رنز بنے جبکہ آخری دس اوورز میں اناسی رنز۔ پہلے سات اوورز اور آخری پانچ اوورز میں نیوزی لینڈ کی بیٹنگ کا غلبہ رہا اور باقی پورے میچ میں انڈین ٹیم چھائی رہی۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کی خواہش تھی کہ نئی گیند سے وکٹیں حاصل کر لے، تاہم انڈین اوپننگ پارٹنرشپ بہت اچھی رہی، پوری چیمپنز ٹرافی میں سے سے بہتر سٹارٹ ملا، روہت شرما جو کئی میچوں سے رنز نہیں کر رہے تھے، انہوں نے اچھی بیٹنگ کی، تین چھکے لگائے اور اکیانوے کے سٹرائیک ریٹ سے 83 گیندوں میں 76 رنز بنائے۔ ایک سو پانچ رنز پر پہلی وکٹ گری جب سینٹنر کی گیند پر شبھمن گل فلپس کے ایک شاندار کیچ کا شکار بنے۔
فائنل کا مین آف دی میچ روہت شرما کو دیا گیا جبکہ مین آف سیریز نیوزی لینڈ کے اوپنراور آل راونڈ رچن رویندر تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کیوی کپتان سینٹنر کی ایک غلطی محسوس ہوئی کہ جب روہت شرما کھل کر فاسٹ بولرز کو کھیل رہا تھا تب انہیں جلد سپنر ایک اینڈ سے لے آنا چاہیے تھا جیسا کہ روہت شرما ان کے خلاف کرتا رہا ہے، وہ چھ اوورز فاسٹ بولر سے کرا کر ساتویں اوور سے سپنر کو لے آتا اور وہ بریک تھرو لے لیتے۔ کوہلی کو بریسویل کی ایک گھومتی گیند نے جلدہی پویلین بھیج دیا۔ پھر کیوی سپنر نے ایسی نپی تلی بولنگ کرائی کہ اگلے تین چار اوورز میں اکا دکا سنگل کے علاوہ رنز ہی نہیں بنے۔ اس دباؤ کو توڑنے کی کوشش میں روہت شرما کریز سے باہر چھکا لگانے نکلے اور سٹمپ ہوگئے، بوولر رویندر تھے۔ اس کے بعد شریاس آئیر نے سمجھداری سے اچھی بیٹنگ کی، چھکے بھی لگائے، مگر وہ اکسٹھ رنز کی پارٹنرشپ بنانے میں کامیاب رہے۔ شریاس آئیر آوٹ ہوئے، اکشر پٹیل بھی عجلت کا شکار ہوئے، اپنی وکٹ تھرو کر دی۔
کے ایل راہل مگر ڈٹے رہے۔ ہاردک پانڈیا نے ایک چھکا اور چوکا لگایا اور اٹھارہ گیندوں پر اٹھارہ رنز بنا کر چلتے بنے۔ کے ایل راہل نے مگر سمجھداری کے ساتھ بیٹنگ کی اور 33 گیندوں پر 34رنز بنا کر ناٹ آوٹ رہے، جدیجہ نے بھی نو رنز بنائے۔ یوں انڈیا ایک اوور قبل چار وکٹوں سے میچ جیت کر چیمپینز ٹرافی کا چیمپین بن گیا۔ یہ انڈیا کا چیمپینز ٹرافی کی تاریخ میں تیسرا ٹائٹل ہے۔ پچھلی بار دو ہزار سترہ کے فائنل میں وہ پاکستان سے ہار گئے تھے، تاہم دو ہزار تیرہ میں انڈیا کامیاب ہوا۔ اس بار بھی وہ چیمپین بنے۔ فائنل میں فیلڈنگ خاصی ناقص رہی، انڈین ٹیم نے چار کیچز ڈراپ کیے۔ شبھمن گل، روہت شرما، شریاس آئیر اور شامی نے کیچ چھوڑے۔ جبکہ نیوزی لینڈ نے بھی دو کیچ چھوڑے، ان میں سے ایک تو اہم تھا کہ شریاس آئیر نے چھکا لگا کر اگلی گیند پر سیدھا کیچ جیمسن کو دیا، جو اس نے ڈراپ کیا۔ پکڑا جاتا تو شائد رخ بدل جاتا یا کم از کم میچ زیادہ کلوز چلا جاتا۔
فائنل میں فیلڈنگ خاصی ناقص رہی، انڈین ٹیم نے چار کیچز ڈراپ کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فائنل کا مین آف دی میچ روہت شرما کو دیا گیا جبکہ مین آف سیریز نیوزی لینڈ کے اوپنراور آل راونڈ رچن رویندر تھے، رویندر نے دو سنچریاں بنائیں اور اچھی بولنگ بھی کرائی۔ انڈیا کی ٹیم نے مجموعی طور پر ایکسٹراآرڈنری پرفارم کیا اور پاکستان، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا جیسی ٹیموں کو شکست دے کر چیمپین ٹرافی جیت لی۔ نیوزی لینڈ کو انہوں نے دو بار ہرایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب میچ انڈیا نے کسی قدر آسانی سے جیت لیا، ایسا نہیں ہوا کہ کوئی میچ آخری اوور میں پھنس گیا ہو یا آخری گیند تک گیا ہو۔ ہر میچ کے اختتام سے کچھ پہلے ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ انڈیا جیت رہا ہے۔ ویل ڈن ٹیم انڈیا۔ چیمپین ٹرافی ختم ہوئی، البتہ پاکستانی کرکٹ کا سیزن ابھی جاری ہے، اگلے چند دنوں میں پاکستان نیوزی لینڈ جا کر ان سے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز کھیلے گا جبکہ واپسی پر اپریل میں پی ایس ایل بھی ہونا ہے۔ بیسٹ آف لک ٹیم پاکستان۔