Getty Imagesروسی صدر ولادیمیر پوٹن، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور چینی صدر شی جن پنگ
چین عنقریب ایران اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں شروع کرنے جا رہا ہے۔ چینی وزارت دفاع نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مشقیں ایران کے قریب سمندر میں کی جائیں گی۔
ادھر ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ فوجی مشقیں پیر کو خلیج عمان میں ’چابہار بندرگاہ کے قریب‘ جنوب مشرقی ایران میں شروع ہوں گی۔
یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایران، روس اور چین کے درمیان مشترکہ بحری مشقیںہونے جا رہی ہوں۔ تاہمتینوں ممالک کے درمیان موجودہ فوجی مشقیں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب اسرائیل اور امریکہ نے حالیہ مہینوں میں بارہا ایران کو دھمکایا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام روکنے کے لیے اس پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی تھی کہ انھوں نے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھا ہے۔
جس کے بعد ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہخامنہ ای کا بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے گو کہ امریکی صدر کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن انھوں نے یورپی طاقتوں کو ضرور تنقید کی نشانہ بنایا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے سرکاری عہدیداران کے ساتھ اپنی گفتگو میں مذاکرات پر اصرار کرنے والی ’ہٹ دھرم حکومتوں‘ پر تنقید کرتے ہوئے یورپی ممالک کو ’بے شرم اور اندھا‘ قرار دیا کیونکہ انھوں نے جوہری معاہدے پر علمدرآمد نہ کرنے پر تہران پر تنقید کی تھی۔
پاسداران انقلاب سمیت مشقوں میں کون شاملSun Zifa/China News Service via Getty Imagesسال 2021 میں روس اور چین کے درمیان مشترکہ بحری مشق کی تصویر
خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق ان فوجی مشقوں میں نصف درجن ممالک بطور مبصر شریک ہوں گے۔ جن میں آذربائیجان، جنوبی افریقہ، پاکستان، قطر، عراق یو اے ای شامل ہیں۔
ادارے کے مطابق یہ فوجی مشق بحر ہند کے شمال میں ہوں گی اور اس کا مقصد خطے کی سلامتی اور شریک ممالک کے درمیان کثیر جہتی تعاون کو بڑھانا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان مشقوں کا مقصد باہمی تعاون کو بڑھانا ہے۔ حالیہ برسوں میں ان تینوں ممالک کی فوجیں ایسی جنگی مشقیں کرتی رہی ہیں۔
ٹرمپ کی انٹری اور امریکہ ایران کشیدگی میں حالیہ اضافہAndrew Harnik/Getty Imagesامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایران کو خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دی ہے
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں ان سے جوہری پروگرام پر بات کرنے کو کہا گیا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران کے جوہری پروگرام پر ٹرمپ کی تجویز کو ’ظالمانہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
تاہم اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر کو ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ابھی تک موصول نہیں ہوا۔
تاہم ایران کی جانب سے امریکی پیشکش کو ٹھکرانے کے ایک دن بعد ایران، روس اور چین کے درمیان نئی فوجی مشقوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔
واضح رہے کہ دو روز قبل وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں بنیادی طور پر امریکہ کی معاشی صورتحال پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اور اسی دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’آپ بہت جلد ایران کے بارے میں خبریں سنیں گے۔‘
جس کے بعد ٹرمپ کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو خط لکھنے اور انھیں مذاکرات کی دعوت دینےکی تصدیق کی گئی۔
تاہم اس وقت اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے کہا تھا کہ انھیں ٹرمپ کی جانب سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔
لیکن اس خبر کے سامنے آنے کے بعد خامنہ ای نے اپنے تازہ بیان میں امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 'حکومت پر دباؤ ڈال کر' ایران کو مذاکرات کی میز پر نہیں لایا جا سکتا۔
انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) کے تحت وعدوں پر عمل درآمد میں ایران کی ناکامی پر تنقید کرنے پر یورپی ممالک کو ’اندھا اور بے شرم‘ قرار دیا۔
یاد رہے کہ ایران نے حالیہ دنوں میں بارہا اپنے موقف پر زور دیا ہے۔
Getty Imagesاکتوبر 2024 میں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ملاقات
دوسری جانب ایران کے اس جواب کےفوری بعد وائٹ ہاؤس نے فوری ردعمل کا اظہار کیا اور قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے ایک طرح سے ایران کو دھمکی دی۔
روئٹرزکے مطابق انھوں نے کہا ’ہمیں امید ہے کہ ایران اپنے عوام اور مفادات کو دہشت گردی سے بالاتر رکھے گا۔‘
برائن ہیوز نے چند روز قبل ٹرمپ کے بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی تو یہ بہت برا ہوگا۔
اس سے قبل جمعرات کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے دو راستے ہیں ’فوجی طریقہ یا سمجھوتہ ‘۔
پابندیوں میں سختی مگر لہجہ نرم: صدر ٹرمپ ایران سے چاہتے کیا ہیں؟تیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟کیا پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ٹرمپ کا پوتن کی جانب بڑھتا جھکاؤ روس اور چین کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سوچا سمجھا منصوبہ یا کچھ اور
رواں برس جنوری میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کا ہوگا۔
انھوں نے اس سے متعلق قومی سلامتی کی یادداشت پر دستخط کیے جس میں ایران کو جوہری ہتھیاروں، بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے حصول سے روکنے اور اس کے ’دہشت گرد نیٹ ورک‘ کو تباہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
چار فروری2025 کی اس دستاویز میں ایران کے جارحانہ جوہری پروگرام کو امریکہ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ اور جب سے صدر ٹرمپ نے اس پر دستخط کیے ہیں ایران کا امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالے سے موقف اور زیادہ سخت ہو گیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ معاملہ صرف امریکہ تک محدود ہے۔ امریکہ کے قریب سمجھے جانے والے ملک اسرائیل کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایران ان کے نشانے پر ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی فوج کے نئے چیف آف سٹاف ایال ضمیر مقرر کیے گئے ہیں جنھوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا ہے کہ سال 2025 جنگ کا سال ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی توجہ غزہ کی پٹی اور ایران پر رہے گی اور ساتھ ہی کہا کہ 'ہم نے اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے اس کی بھرپور حفاظت کریں گے۔
ایران، چین اور روس کی مشترکہ مشقوں کی تاریخSimon Dawson/Bloomberg via Getty Imagesنومبر 2015 میں روسی صدر پوتن نے ایران کا دورہ کیا جہاں انھوں نے اس وقت کے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی تھی
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران، روس اور چین ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کر رہے ہوں۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے ایران اور چین پر روس کو فوجی مدد فراہم کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
ان ممالک کے درمیان فوجی مشقیں اس سے قبل مارچ 2024 میں اور تقریباً دو سال قبل مارچ 2023 میں بھی ہوئی تھیں اور دونوں بار یہ مشقیں بحر ہند کے شمال میں خلیج عمان کے قریب ہوئی تھیں۔
ایرانی بحریہ اور پاسداران انقلاب دونوں نے میرین سکیورٹی بیلٹ 2023 اور 2024' نامی فوجی مشقوں حصہ لیا اور اس سے قبل بھی یہ تینوں ممالک ایسی فوجی مشقیں کرتے رہے ہیں۔
ان مشقوں کے لیے اکثر مقامات کا انتخاب خلیج عمان کے قریب کیا جاتا ہے، جو خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے درمیان ہے۔ یہ سٹریٹیجک طور پر ایک اہم آبی گزرگاہ ہے کیونکہ یہاں سے عالمی منڈیوں کو تیل فراہم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے کل تیل کا تقریباً پانچواں حصہ اسی راستے سے گزرتا ہے۔
روس اور ایران کا ایک قدم آگے بڑھنا Sun Zifa/China News Service via Getty Imagesروس اور چین بھی بحر ہند میں فوجی مشقیں کرتے رہے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اور برکس میں شمولیت کے بعد ایرانی حکومت نے چین اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے ہیں اور اس تناظر میں متعدد سکیورٹی، سیاسی اور اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
اس سال فروری میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے تہران میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کی تھی۔ بعد میں ایک پریس کانفرنس میں عباس عراقچی نے اعلان کیا کہ ’ایران اپنے جوہری معاملے پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا اور جوہری معاملے پر روس اور چین کے ساتھ مل کر آگے بڑھے گا۔‘
دوسری جانب روس بھی حالیہ دنوں میں امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں مصروف رہا ہے۔ دونوں ممالک کے نمائندوں نے ریاض میں ملاقات کی اور بات چیت کے دوران ایران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
روس اور ایران نے 12 جنوری 2025 کو ایک جامع سٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اس وقت جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کے عہدے کا حلف ابھی اٹھایا نہیں تھا۔
اس دستاویز کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ’فوجی، سیاسی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کریں گے۔‘
گذشتہ سال ستمبر 2024 میں جینز سٹولٹن برگ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ روس، ایران، چین اور شمالی کوریا پہلے سے کہیں زیادہ متحد اور مربوط ہیں۔
اسی طرح کا انتباہ نیٹو کے موجودہ سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے بھی دیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’شمالی کوریا اور ایران روس اور چین کے ساتھ مل کر شمالی امریکہ اور یورپ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
پابندیوں میں سختی مگر لہجہ نرم: صدر ٹرمپ ایران سے چاہتے کیا ہیں؟’ٹرمپ کی پوتن جیسی سوچ‘ اور ’مغربی عالمی نظام‘ کے خاتمے کا خدشہتیل کی ترسیل کا ’خفیہ‘ نیٹ ورک: روس اور ایران کی منافع بخش برآمد پر امریکی پابندی کتنی کامیاب ہوئی؟کیا پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ٹرمپ کا پوتن کی جانب بڑھتا جھکاؤ روس اور چین کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سوچا سمجھا منصوبہ یا کچھ اورٹرمپ زیلنسکی تکرار کے بعد یورپی ممالک کی یوکرینی صدر کی حمایت لیکن پھر بھی امریکہ سے عسکری امداد کی خواہش کیوں؟